• رمضان المبارک 1445ھ کی مناسبت سے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا خصوصی پیغام
  • علامہ رمضان توقیر سے علامہ آصف حسینی کی ملاقات
  • علامہ عارف حسین واحدی سے علماء کے وفد کی ملاقات
  • حساس نوعیت کے فیصلے پر سپریم کورٹ مزیدوضاحت جاری کرے ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان
  • علامہ شبیر میثمی کی زیر صدارت یوم القد س کے انعقاد بارے مشاورتی اجلاس منعقد
  • برسی شہدائے سیہون شریف کا چھٹا اجتماع ہزاروں افراد شریک
  • اعلامیہ اسلامی تحریک پاکستان برائے عام انتخابات 2024
  • ھیئت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کی جانب سے مجلس ترحیم
  • اسلامی تحریک پاکستان کے سیاسی سیل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا
  • مولانا امداد گھلو شیعہ علماء کونسل پاکستان جنوبی پنجاب کے صدر منتخب

تازه خبریں

شام کے معروضی حالات میں انتخابات کا انعقاد

عرب ممالک میں جمہوریت کے تصور کا تصور کرنا ایک عجیب خیال لگتا ہے، کجا یہ کہ جمہوریت کے نفاذ اور فروغ کا خواب دیکھا جائے۔ صدیوں پر محیط بادشاہتوں اور بعض ممالک میں ڈکٹیٹر شپ نے انسانی اور جمہوری آزادیوں کو ناپید کر دیا ہوا ہے، ایسے ماحول میں عوامی رائے کے اظہار کی آزادی کا تذکرہ بھی خلاف ورزی یا بغاوت قرار دیا جاتا ہے۔ جنگوں اور بیرونی تعاون و سازش کے ذریعے مسلط ہونے کا رواج عرب ممالک میں صدیوں سے ہے اور تاحال جاری ہے، جس کی زندہ مثالیں سعودی عرب، قطر، اردن، بحرین اور دیگر ممالک اور ریاستیں ہیں۔ وسائل اور خاندانی تعلق کی بنیاد پر خطوں کی بندر بانٹ بھی عرب ممالک کی تاریخ کا حصہ رہی ہے، جبکہ اکثر ممالک میں عرب رواجات و روایات و عادات اور خواہشات کو اسلام کی شکل دے کر نافذ و رائج کیا جاچکا ہے، جس کے سبب عوام الناس تمام تر اعتراضات، تحفظات بلکہ حقائق کے باوجود حکمرانوں اور نظامِ حکمرانی کی تبدیلی کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے، چہ جائیکہ وہ مزاحمت و جدوجہد کریں۔
بعض حکمرانوں نے مسلک و فرقہ پرستی کے ذریعے اپنا اقتدار قائم رکھا ہوا ہے، بعض نے اپنے خاندانی ماضی کو درخشاں ثابت کرکے قبضے کئے ہوئے ہیں، بعض عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی کرکے اپنی حکمرانی کو دوام حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ بعض مقامات مقدسہ کی محافظت کے نام پر اپنے خاندان کو عنان حکومت پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔ حکومت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اسلام اور عرب دشمن طاقتوں بالخصوص امریکہ و اسرائیل کے سامنے بھی یہ جاہ پرست اور آرام پسند حکمران ایسے بے دام غلام بنے ہوئے ہیں کہ جیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کیا کہا جائے۔ ان تمام تر تلخ حقائق کے باوجود دور حاضر میں آنے والی تبدیلیاں نہایت مرحلہ وار اور آہستگی سے عرب ممالک پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ مصر، ترکی، لیبیا، یمن، لبنان اور شام اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ اگرچہ مذکورہ ممالک کی معروضی کیفیت اور صورت حال بھی جدا جدا ہے، لیکن بہرحال تبدیلی کا عمل اپنی الگ الگ شکلوں میں جاری اور شروع ہوچکا ہے۔ اسی عمل کا ایک مرحلہ ان دنوں شام میں درپیش ہے۔
شام کے حکمران بشار الاسد نے تمام تر جنگی حالات، بیرونی سازشوں اور یلغار، اندرونی شدید خلفشار، ہمسایہ ممالک کی طرف سے موجود خطرات، تکفیری و باغی گروہ کی مسلسل چڑھتل، عالمی طاقتوں امریکہ و اسرائیل کی شبانہ روز سازشوں اور داخلی و خارجی لحاظ سے عدم استحکام کے باوجود 3 جون کو صدارتی انتخابات کا حتمی اعلان کیا ہوا ہے، اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہر قسم کی سنگینی اور پریشانی کے باوجود انتخابات کا عمل انجام دیا جائے گا اور لوگوں کو ماضی کی طرح اب بھی اظہار رائے کی آزادی فراہم کرتے ہوئے اپنا نیا صدر منتخب کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد مختلف اطراف سے مختلف تجزیے اور تبصرے بلکہ بعض ممالک کی طرف سے اقدامات اور پالیسیاں وضع کر دی گئی ہیں، تاکہ انتخابات کے انعقاد کو ناممکن یا ناکام بنایا جاسکے۔ اس کے لیے دو بڑے ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پہلا ہتھیار امریکہ و عرب ممالک کی طرف سے عالمی سطح پر شام اور اس کے حکمرانوں کے خلاف انتخابات کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور اسے بشار الاسد کی طرف سے اپنے اقتدار کو طول دینے کا حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسرا ہتھیار عرب ممالک کی طرف سے شام کے باغیوں اور مسلح جدوجہد کرنے والے تکفیری گروہوں کی مدد و معاونت میں بے پناہ اضافہ ہے، تاکہ وہ شامی حکومت کے خلاف اپنی کارروائیوں کو مزید شدید کریں اور ملک کو خانہ جنگی کے ایسے خطرناک مرحلے سے دوچار کر دیں کہ عوام خوف و ہراس کا شکار ہوکر انتخابی مرحلے میں حصہ نہ لیں۔
انسانیت اور جمہوریت کی تاریخ میں اظہار رائے کی آزادی اور انتخابات کا انعقاد ہمیشہ سے ایک مثبت عمل قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا میں وہی حکمران اور وہی جمہوریتیں ہی عزت و شرف پاتی ہیں جو تمام تر سنگین حالات میں بھی انتخابی عمل سے گریز نہ کریں بلکہ عوام سے ووٹ کی صورت میں مشورہ جاری رکھیں، دنیا میں ایسی کئی مثالیں ہماری سامنے موجود ہیں کہ جب معاشی و اقتصادی حالات انتہائی دگرگوں تھے یا پھر ان ممالک میں جنگیں مسلط ہوچکی تھیں لیکن انہوں نے تنزلی اور جنگ کے زمانے میں بھی انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داریاں پوری کیں، جس کے نتیجے میں آج تک ان ممالک میں جمہوریت فروغ پذیر اور ترقی پذیر ہے۔ شامی صدر کا مطمع نظر بھی یہی ہے کہ وہ دنیا پر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی یلغار کے باوجود میں صدارتی انتخابات کے انعقاد کا عمل اس کی مطلوبہ اور مقررہ مدت کے اندر پورا کروں گا، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ عوام کو حکمرانی اور رائے میں شریک رکھنا ہی جمہوریت کی اساس ہے، اس وجہ سے حکمرانوں کو بھی فوائد حاصل ہوجاتے ہیں، کیونکہ انتخابات کسی بھی قوم کی مضبوطی اور استقلال کے لیے لازم ہوتے ہیں، جبکہ انتخابات سے گریز یا ان کی مخالفت کرنا یا ان میں حصہ نہ لینا ملک میں بدامنی اور دہشت گردی کا باعث بنتا ہے، یہی صورت حال شام میں درپیش ہے۔
شامی عوام اس وقت دشمنوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہیں۔ شامی صدر اس حالت میں اپنے عوام کو تنہا چھوڑ کر دہشت گردوں کے حوالے کرنے کا تصور نہیں کرسکتا، بلکہ وہ ملک و قوم کی حفاظت اور استقلال کی جدوجہد کے لیے آمادہ ہے۔ انتخابات میں تاخیر یا التواء دہشت گردوں کے جنگی عزائم کو تقویت دے گا اور یہ عمل شامی عوام کے ساتھ دشمنی سے ہرگز کم نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ بشار لاسد نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں کے حقوق کا بھی محافظ ہے اور تمام ادیان کے پیروکاروں کا برابر زندگی گذارنے کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے، ماضی میں جب امریکہ نے شام کے خلاف جارحیت کا سوچا تھا تو سب سے پہلے شام کے عیسائی اپنے صدر کی حمایت میں نکلے اور امریکہ و اتحادیوں پر واضح کر دیا کہ وہ مذہب یا مسلک کے نام پر کبھی بھی شام کو تقسیم نہیں کرسکتا۔
پوری دنیا کے ہر ملک کی طرح شام کے شہریوں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ اگر ہم شام کے مقابلے میں دیگر عرب ممالک میں ہونے والے انتخابات کا تجزیہ کریں تو ہمیں صاف فرق دکھائی دیتا ہے کہ شام میں دیگر عرب ممالک کی نسبت زیادہ سیاسی آزادیاں ہیں، جہاں انتخابات میں جمہوری اور سیاسی انداز اختیار کیا جاتا ہے اور عوام کو براہ راست آزادانہ طور پر رائے دینے کے مواقع میسر کئے جاتے ہیں، لیکن دیگر ممالک بالخصوص سعودی عرب میں تو انتخابات کا تصور ہی نہیں ہے، اس کے باوجود امریکہ اور خود سعودی عرب کا ان دنوں جنگجوآنہ اصرار ہے کہ شام میں ڈکٹیٹر شپ مسلط ہے۔ موجودہ حالات میں شام کے اندر بیرونی مداخلت اور باہر سے آنے والے لوگوں یعنی تکفیریوں اور دہشت گرد حملہ آور باغیوں کی موجودگی بدامنی کا باعث ہے اور شامی عوام کی خود مختاری کے خلاف سازش ہے۔ لہذا انتخابات کا انعقاد اس سازش کا توڑ ہوگا، جس میں بیرونی دشمن اپنے ایجنٹوں کے ذریعے شام کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں۔
اس موقف سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کیا جاسکتا کہ بشار الاسد کو شام کا حکمران رہنا چاہیے یا نہیں؟ اگرچہ شام میں سوفیصد وہی جمہوریت نافذ نہیں ہے جسے حقیقی معنوں میں جمہوریت کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجو د ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے سنگین حالات میں بشار الاسد کا بطور صدر موجود رہنا شامی عوام کے حق میں قومی مصلحت اور ضرورت کے تحت ضروری ہے، کیونکہ امن و امان کے قیام اور شام کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے بشار کا وجود لازم ہے۔ جو لوگ شام میں ان کے بقول ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ چاہتے ہیں، انہیں بشار سے تعاون کرنا چاہیے کیونکہ بشار مرحلہ بہ مرحلہ تبدیلی کی طرف گامزن ہے اور وہ دنیا میں آنے والے تبدیلیوں کے ساتھ شامی عوام کے اندر موجود مطالبات کا ادراک کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے نہ صرف انتخابات کا حتمی اعلان کیا ہوا ہے، بلکہ ان انتخابات کے ذریعے سیاسی اصلاحات، قوانین میں تبدیلیاں، دستوری اصلاحات اور امن کے قیام کے لیے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، یقیناً انتخابات ہی اصلاحات کا واحد راستہ ہیں۔
کفر سازی تو اب ہر دہشت گرد گروہ کی اساس بن چکی ہے۔ یہ ایک وطیرہ بن چکا ہے کہ جس کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا ہو، اس کے خلاف پہلے ذہن سازی کی جاتی ہے اور اس ذہن سازی کا سب سے بڑا اور خطرناک مرحلہ کفر کے فتوے دینا ہے۔ شامی دہشت گرد تکفیریوں اور ان کے بعض عرب سرپرست ملاؤں نے شام کے علویوں اور عیسائیوں کے خلاف مسلسل فتوے جاری کرکے جہاں شام میں خون کی ہولی جاری رکھنے کا جواز پیدا کر رکھا ہے، وہاں انتخابات کا انعقاد بھی مشکوک کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل بھی ان حالات سے فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و نفوذ زیادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسرائیل کی کوشش بھی یہی ہے کہ انتخابات کا انعقاد نہ ہوسکے، اس ایجنڈے پر اسرائیل اور تکفیری گروہ ایک ساتھ ہیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ شام کے انتخابات ان دونوں دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنائیں گے اور اسرائیل جیسے مکار دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنیں گے۔
دنیا کے امن پسندوں اور جمہوریت کے حامیوں اور دینی، سیاسی اور سماجی شخصیات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شام میں ہونے والے انتخابات کی نہ صرف اصولی حمایت کریں بلکہ اخلاقی طور پر شامی حکومت کا ساتھ دیں، تاکہ ملک میں شیعہ سنی وحدت اور مسلم مسیحی اتحاد کو تقویت پہنچے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔ بدقسمتی سے شام میں صیہونیوں، تکفیریوں اور امریکہ نے جو بحران پیدا کر رکھا ہے۔ اب سعودی عرب، قطر اور ترکی اس کا مستقل حصہ بن چکے ہیں۔ سعودی عرب کی دو رنگی پالیسی نے حالات کو مزید خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، اس پالیسی میں ایک طرف مصر میں سعودی عرب اخوان کی مخالفت میں تمام حدود پھلانگ چکا ہے، دوسری طرف شام میں تکفیری دہشت گردوں کی حمایت میں بھی اس کا رویہ مصر سے بھی زیادہ شدید ہے۔ امریکہ اور مذکورہ تینوں عرب ممالک شام میں سیاسی حل اور انتخابات کے مخالف ہیں، وہ طاقت اور تلوار کے زور پر شام کا اقتدار پہلے مرحلے پر تکفیری دہشت گردوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد شام کو امریکہ و اسرائیل کی غلام کالونی بنانا چاہتے ہیں۔ اس کام میں عرب ممالک کے ساتھ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے گٹھ جوڑ کے شواہد بھی سامنے آچکے ہیں اور شامی باغیوں کے ساتھ اسرائیلی تعلقات بھی اب طشت از بام ہوچکے ہیں۔ لہذا ان تمام منفی ارادوں کو ناکام کرنے اور ان قوتوں کی حوصلہ شکنی کا واحد راستہ انتخابات کا انعقاد ہے۔
مغربی اور یورپی ممالک کا رخ بھی شام کے خلاف اور امریکہ کے حق میں نظر آرہا ہے۔ وہاں بھی دوغلی پالیسی سے کام لیا جا رہا ہے، ایک طرف عراق اور افغانستان میں دہشت گردوں، جہادیوں، باغیوں اور تکفیریوں کا قلع قمع کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے منصوبے جاری ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے تب تک افغانستان میں قیام کا اعلان کیا جا رہا ہے، جب تک ایک بھی دہشت گرد موجود ہے۔ سارے یورپ میں ان دہشت گردوں کی مخالفت کرکے انہیں عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن جب شام کا معاملہ آتا ہے تو وہاں مغرب اور یورپ کی پالیسی یکسر تبدیل ہوجاتی ہے اور شام میں انہی دہشت گردوں اور تکفیری گروہوں کی حمایت کی جاتی ہے، جن کی مخالفت دنیا کے دیگر حصوں میں شد و مد کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اس دوغلے رویے سے لگتا ہے کہ مغرب اور یورپ کو دہشت گردوں سے معاملہ نہیں بلکہ مخصوص مفادات کے تحت صرف ان ممالک اور حکمرانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جو یورپ اور اس کے پالتو دوستوں سے اختلاف رائے پیدا کرلیں۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ شام کے انتخابات ایسے تمام ممالک اور عناصر کو منہ توڑ جواب ثابت ہوں گے، جنہیں شام میں عوامی اور قانونی و دستوری جمہوریت تو خطرہ نظر آتی ہے، لیکن خلیج فارس کے دیگر عرب ممالک میں موجود متعدد ڈکٹیٹر شپس نظر نہیں آتیں۔
جہاں امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں نے شام کے انتخابات کی مخالفت کی ہے، وہاں چین، روس، جنوب مشرقی ایشیاء اور یورپ کے بعض ممالک نے ان انتخابات کے حوالے سے شامی حکومت کی حمایت بھی کی ہے، اس حمایت سے اب آہستہ آہستہ یورپی ممالک کی رائے میں تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ اگر یورپی ممالک واقعی جمہوریت پسند ہیں تو انہیں شامی انتخابات کی نفی نہیں بلکہ حمایت کرنا چاہیے۔ عرب ممالک میں بھی حکمران چاہے جو پالیسی اختیار کرلیں، لیکن اکثر عرب ممالک کے عوام شام میں موجود سیاسی اور انتخابی کلچر کو پسند کرتے ہیں، ان کی دیرینہ خواہش ہے کہ ان کے ممالک سے بادشاہتوں اور ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہو اور عوامی حکومتیں قائم ہوں۔ جب یہی عوام شام میں انتخابات کی گہما گہمی کے بارے میں سنتے ہیں تو ان کے دل میں اپنے ملک کے لیے انتخابات کی خواہش جاگتی ہے، لیکن ان کے حکمرانوں کے لیے یہ خواہش ایک بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ لہذا وہ اس خواہش کو قتل کرنے کے لیے شام کے انتخابی نظام کو ختم کرنے کے لیے سازشیں شروع کر دیتے ہیں۔ دنیا میں تبدیلی کی جو لہر پیدا ہوچکی ہے، اس کے زد میں عرب ممالک جلد یا بدیر ضرور آئیں گے، یہ حقیقت عرب حکمرانوں کو بھی باور ہوچکی ہے۔ ان کے مستقبل کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ شام میں ہونے والے انتخابات کی حمایت کریں اور اپنے ملکوں میں خود اپنے ہاتھوں سے اس تبدیلی کی بنیاد رکھیں، تاکہ انہیں اقتدار کے ساتھ زندگیوں، خاندانوں اور مال و متاع سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں۔