• غاصب ریاست مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے علامہ عارف حسین واحدی
  • نوشکی قومی شاہراہ پہ مسافر بسوں پر حملہ افسوسناک ہے علامہ شبیر میثمی
  • قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی کی اپیل پر ملک بھر میں القدس ریلیوں کا انعقاد
  • قائد ملت کی اپیل پر جمعۃ الوداع یوم القدس کے عنوان سے منایا جائے گا علامہ شبیر میثمی
  • اسلام آبادپولیس کا عزاداروں پر شیلنگ،تشدد اور مقدمہ بلاجوازہے ، علامہ شبیر میثمی
  • رمضان المبارک 1445ھ کی مناسبت سے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا خصوصی پیغام
  • علامہ رمضان توقیر سے علامہ آصف حسینی کی ملاقات
  • علامہ عارف حسین واحدی سے علماء کے وفد کی ملاقات
  • حساس نوعیت کے فیصلے پر سپریم کورٹ مزیدوضاحت جاری کرے ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان
  • علامہ شبیر میثمی کی زیر صدارت یوم القد س کے انعقاد بارے مشاورتی اجلاس منعقد

تازه خبریں

یوم القدس ۔۔۔۔۔ مظلومین جہان کی امیدوں کا مرکز علامہ محمد رمضان توقیر

یوم القدس ۔۔۔۔۔ مظلومین جہان کی امیدوں کا مرکز
علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر
شیعہ علماء کونسل پاکستان
بیت المقدس کے حوالے سے تاریخ انبیاء اور سنتِ انبیاء کے بعد سب سے معتبر ترین حوالہ قرآن کریم ہے جس میں رب العزت نے قبلہ اول کی عزت ‘ حرمت ‘ طہارت ‘ مقام و مرتبے اور منزلت کے بارے میں واضح ارشادات فرمادئیے ہیں۔ معجزات محمدی ﷺ میں سے ایک بزرگ اور باحیثیت معجزہ معراج شریف ہے جو ہمارے پیارے رسول ﷺ کو باقی مرسلین سے ممتاز کرتا ہے۔ اس معجزے یعنی معراج مبارک کا محور و مرکز قرآن کریم کے مطابق قبلہ اول یعنی بیت المقدس ہے جہاں سے محبوب نے اپنے محب کی قربت کے سفر کا آغاز کیا اور پھر انجام بھی وہیں سے ہوا۔ اس میں یقیناًمصلحت خداوندی ہے کہ مکہ المکرمہ اور مدینتہ المنورہ کی موجودگی کے باوجود آسمانوں کی جانب معراج کے سفر کا زمینی نکتہ آغاز اور زمینی نکتہ انجام مسجد اقصی قرار پایا ورنہ قادر مطلق ذات اپنے محبوب کو زمین کے کسی کونے اور حصے سے اپنا قرب عطا کرنے کے لیے آسمانوں پر بلا سکتی تھی۔ یہ بھی ایک تاریخی سچائی ہے کہ کعبۃ اللہ کو مرکز سجدہ و عبادات قرار دئیے جانے سے قبل سیدالانبیاء خاتم المرسلین ﷺ‘ کی ذات والا صفات مسجد اقصی یعنی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے اللہ تعالی کی عبادت انجام دیا کرتی تھی اور اسی حقیقت کے ساتھ متصل ایک اور سچائی بھی تاریخ انسانیت کا حصہ ہے ام المومنین سیدہ خدیجتہ الکبری اور امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب اس شرف میں نبی اکرم ؐ کے واحد شریک ہیں جنہوں نے موجودہ کعبہ سے قبل بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادات اسلامی بجا لائیں اور مصلی الاالقبلتین کا اعزاز حاصل کیا۔اس شرف و فضیلت کے باوجود بھی مسلمانانِ عالم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ قبلہ اول کی حیثیت کو عملاً فراموش کرتے جارہے ہیں۔ ۔ بھلا ہو رہبر انقلاب حضرت امام خمینی ؒ کا جنہوں نے قبلہ اول پر صیہونی تسلط کے خلاف آواز بلند کرنے کی نہ صرف نئی طرح ڈالی بلکہ اس احتجاج کو عالمی سطح پر متعارف ‘ اجاگر اور نافذ کرادیا۔ تب سے اب تک یعنی تقریباً تیس سال سے زائد عرصہ سے سال کے باقی ایام بھی مختلف اوقات میں یہ احتجاج جاری رہتا ہے لیکن رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کو قبلہ اول بیت المقدس کے ساتھ منسلک و مشروط کردیا گیا ہے اور اسے یوم القدس قرار دیتے ہوئے پورے عالم اسلام سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ ایک دن اپنے قبلہ اول کے لیے مخصوص کریں تاکہ اپنے اللہ کے ساتھ کیے گئے عہدکی تجدید کے ساتھ دنیا کو بھی بتایا جاسکے کہ ہم قبلہ اول اور اس پر ناجائز قبلہ کرنے والوں کو نہیں بھولے بالآخر اس ناجائز تسلط کو ختم کرانے میں کامیابی حاصل کریں گے۔
سات دہائیاں ہونے کو ہیں کہ عالم اسلام کا پہلا قبلہ و کعبہ یہودی نرغے میں ہے اور مسلمانانِ عالم اپنے پہلے قبلہ پر صیہونی تسلط پرصرف افسردہ ‘ غمگین اور بااحتجاج ہیں۔ یہ احتجاج اب مسلمانانِ عالم کی باہمی نااتفاقی اور مصلحت کوشی کے سبب عمومی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اسرائیل نے جہاں بیت المقدس کو اپنے تسلط میں لے رکھا ہے وہاں ساتھ ہی ارض فلسطین پر اسرائیلی غنڈہ گردی بھی مسلمانوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے اور احتجاج پر مجبور کررہی ہے۔ گذشتہ اڑسٹھ سالوں سے مظلوم فلسطینی عوام اسرائیلی مظالم برداشت کررہے ہیں۔ کم سن بچوں کے قتل سے لے کر خواتین اور بزرگوں کو ٹینکوں کے نیچے کچل کرمارنے تک مظالم اختیار کیے گئے ہیں ۔ غزہ کا محاصرہ انسانی تاریخ کا بدترین المیہ رہا ہے۔ گذشتہ قتل عام اوراس محاصرے کے باوجود فلسطینی عوام کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی بلکہ اس لمحے تک فلسطینی عوام باہمت و باجرات ہیں اور آزادی کی امید کے ساتھ ہاتھوں میں کنکریاں لے کر مسلح اسرائیلی افواج کے سامنے مزاحمت کررہی ہیں۔
قبلہ اول اور ارض فلسطین کی آزادی میں چند بڑی رکاوٹیں گذشتہ سات دہائیوں سے کم و بیش موجود چلی آرہی ہیں ان رکاوٹوں میں ایک رکادٹ امریکہ ہے جس نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جیسے بڑے عالمی اداروں کے اندر ویٹو پاور کے ذریعے اسرائیل کا تحفظ جاری رکھا ہوا ہے اور یہ ویٹو پاور جہاں اسرائیلی تسلط کو تقویت دیتی ہے وہاں مظلوم فلسطینی عوام کو آزادی سے دور رکھتی ہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا جانبدارانہ اور سست کردار ہے جو ہمیشہ امریکہ و اسرائیل کے حق میں رہا ہے۔ ان دونوں عالمی اداروں نے ہمیشہ ناانصافی اور جانبداری کو ثبوت دیتے ہوئے عالم اسلام کے جذبات کا خیال نہیں رکھا اور نہ ہی فلسطینی عوام کے حقوق کا لحاظ رکھا ہے بلکہ اسرائیل اور امریکہ کے احکام و خواہشات کی تکمیل کرتے ہوئے ہمیشہ جی حضوری کی پالیسی اختیار کی ہے۔
تیسری بڑی رکاوٹ مسلمان ممالک کی واحد نمائندہ تنظیم اسلامی کانفرنس ہے جو مسلم ممالک نے عالم اسلام کے مسائل مشترکہ طور پر حل کرنے کے لیے بنائی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ کانفرنس مسلمانوں کے بڑے بڑے مسائل اور بحرانوں میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کرسکی بلکہ نشستند و گفتند و برخواستند کا مصداق بن کر ایسی کوتاہ پالیسیاں اختیار کرتی ہے کہ جس سے مسلمانوں کو نفع کی بجائے ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔ کانفرنس میں شامل اسلامی ممالک نے اپنے اپنے مفادات کے تحت موقف دینا ہوتا ہے اور امریکہ و اسرائیل کے ساتھ دوستی کی وجہ سے ان دونوں طاقتوں کے خلاف مشترکہ موقف اختیار نہیں کرنے دینا ہوتا اس لیے اسلامی کانفرنس آج تک کسی بھی عالمی یا ملکی مسئلے پر ان دونوں طاقتوں اور اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کے خلاف ٹھوس و سنجیدہ فیصلہ نہیں کرسکی۔
چوتھی اور اصلی بڑی رکاوٹ عرب ممالک کی سرد مہری بلکہ اسرائیل نوازی ہے۔ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ بھی کھانے پینے اور گپ شپ لگانے کے لیے بنائی گئی ہے جس نے کبھی اسرائیل کے خلاف اور اپنے ہی عرب ملک فلسطین کے حق میں فیصلہ کرنا تو دور کی بات ہے فیصلہ سوچنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔ قبلہ اول اور ارض فلسطین کی آزادی میں حتمی اور آخری رکاوٹ عرب ممالک ہیں جو آج کل سعودی عرب کی چھتری تلے جمع ہوچکے ہیں۔ ریاض کانفرنس نے قبلہ اول کی آزادی کا خواب معدوم کردیا ہے اور مظلوم فلسطینی عوام کے خون کے ساتھ غداری کرتے ہوئے ان کے زخموں پر نمک نہیں بلکہ تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ حالیہ چونتیس ملکی اتحاد میں شامل اکثر ممالک امریکہ و اسرائیل کے بے دام غلام ہیں۔ بعض ممالک کی تو سانسیں بھی واشنگٹن اور تل ابیب کے آکسیجن سلنڈروں سے آتی ہیں۔ اکثر عرب ممالک کے حکمران مختلف انداز میں عوام پر مسلط ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی اور خاندانی اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے امریکہ و اسرائیل کا سہارا لیتے ہیں۔ ریاض کانفرنس بھی سہارا کانفرنس تھی لیکن ان عرب حکمرانوں کو ماضی کی تاریخ نہیں بھولنا چاہیے بلکہ مظلوم فلسطینی عوام کے آنسووں اور خون کے قطروں کے اثر کے لیے تیار رہنا چاہیے یہ اثر عرب ممالک پر مسلط حکمرانوں کے اقتدار کو زمین بوس کرتا ہوا قبلہ اول کی آزادی اور ارض فلسطین کی آزادی پر منتج ہوگا۔
کسی بھی مسئلے کو زندہ رکھنے کے لیے اس کا تسلسل کے ساتھ ذکر کرنا انسانی فطرت اور عادت میں شامل ہے ۔اسی اصول کے تحت ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر یوم القدس کا وجود نہ ہوتا تو اب تک مسئلہ قدس اور مسئلہ فلسطین عالم اسلام اور باقی دنیا کے اذہان سے محو ہوچکا ہوتا۔ ہر سال دنیا کے مختلف حصوں میں عالم اسلام کے مختلف مسالک و مکاتب کے علماء ‘ قائدین ‘ اکابرین ‘ دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور عوام الناس کا جمع ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے قبلہ اول کو نہیں بھولے ‘ اپنے فلسطینی بھائیوں کو نہیں بھولے ‘ اپنے رہبر کے حکم کو نہیں بھولے اور اسرائیل و امریکہ کی مکاریوں کو نہیں بھولے۔ وہ اس عزم سے جمع ہوکر اقوام متحدہ و سلامتی کونسل و اسلامی کانفرنس و عرب لیگ کو باور کراتے ہیں کہ ہم آخری سانس تک احتجاج کرتے رہیں گے۔ ظالم کو بے نقاب اور مظلوم کو ظاہر کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آزادی ہمارا مقدر ٹھہرے۔۔