چین کے سرکردہ منحرف رہنما اور سنہ 2010 میں نوبل کا انعام یافتہ حاصل کرنے والے جمہوریت نواز رہنما لیو شاؤبو 61 برس کی عمر میں چل بسے۔
لیو شاؤبو جنھیں سنہ 2010 میں ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے جرم میں 11 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی کو حال ہی میں کینسر کے علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔
مصنف، یونیورسٹی کے پروفیسر اور چین کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کے مخالف لیو شاؤبو کو حکام نے ایک مجرم قرار دیا تھا۔
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے ایک بیان میں ‘چینی حکومت کو لیو شاؤبو کی قبل از وقت موت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔’
دنیا لیو شاؤبو کو چین کے سب سے بڑے باغی کے طور پر جانتی ہے۔
لیوشاؤبو کو متعدد بار قید کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت کی جانب سے انھیں کڑی نگرانی میں رکھا گیا۔
لیو شاؤبو جب آزاد تھے تو ان پر شدید پابندیاں عائد تھیں یہاں تک کہ ان کی بیوی لیوزیا کو گھر میں نظر بند رکھا گیا۔
ان کا علاج کرنے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ لیو شاؤبو ہسپتال میں اپنی بیوی اور دوسرے رشتے داروں کی موجودگی میں ‘سکون’ سے مر گئے۔
ساؤتھ چین مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق لیو شاؤبو کے آخری الفاظ جو انھوں نے اپنی بیوی سے کہے ‘ اچھی طرح سے رہیں’ تھے۔
لیو شاؤبو سب سے پہلے سنہ 1989 میں بیجنگ میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے کے دوران منظرِ عام پر آئے۔
انھوں نے تیان من سکوائر میں ہونے والے طلبہ کے احتجاج میں اہم کردار کیا تاہم چینی حکومت نے اس احتجاج کو کچل دیا۔
لیو شاؤبو کے اس طرزِعمل کے خلاف حکام نے انھیں جیل بھیج دیا جہاں وہ دو سال تک قید رہے اور پھر انھیں سنہ 1991 میں رہا کر دیا گیا۔
سنہ 1996 میں انھیں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا لیکن اس بار انھیں ایک لیبر کیمپ میں تین سال کے لیے رکھا گیا۔ اسی کیمپ میں انھیں لیونا سے شادی کرنے کی اجازت دی گئی۔ انھوں نے جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔