• رمضان المبارک 1445ھ کی مناسبت سے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا خصوصی پیغام
  • علامہ رمضان توقیر سے علامہ آصف حسینی کی ملاقات
  • علامہ عارف حسین واحدی سے علماء کے وفد کی ملاقات
  • حساس نوعیت کے فیصلے پر سپریم کورٹ مزیدوضاحت جاری کرے ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان
  • علامہ شبیر میثمی کی زیر صدارت یوم القد س کے انعقاد بارے مشاورتی اجلاس منعقد
  • برسی شہدائے سیہون شریف کا چھٹا اجتماع ہزاروں افراد شریک
  • اعلامیہ اسلامی تحریک پاکستان برائے عام انتخابات 2024
  • ھیئت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کی جانب سے مجلس ترحیم
  • اسلامی تحریک پاکستان کے سیاسی سیل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا
  • مولانا امداد گھلو شیعہ علماء کونسل پاکستان جنوبی پنجاب کے صدر منتخب

تازه خبریں

اھل سنت کی نظر میں امام جعفر صادق علیہ السلام

اھل سنت کی نظر میں امام جعفر صادق علیہ السلام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام شیعہ مسلمانوں کے چھٹے امام ہیں۔ شیعہ حضرات تو اپنے امام کا لوہا مانتےہی ہیں لیکن دیگر مذاہب نے بھی آپ کی عظمت علمی، فضائل اخلاقی اور بے نظیر کمالات کا اعتراف کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے اعترفات پیش خدمت ہیں۔ ابو حنیفہ :ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی جو فرقہ حنفی کے پیشوا سمجھے جاتے ہیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانےمیں تھے انہوں نے حضرت امام جعفر صادق کی عظمت کا اعتراف اس طرح کیا ہےکہ ما رایت افقہ من جعفر ابن محمد و انہ اعلم الامۃ ۔ میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ علم فقہ میں کسی کو ماہر نہيں پایا اور وہ اس امت کے سب سے بڑے عالم ہیں۔عباسی حکمران جنہیں خلیفہ رسول ہونے کا گمان تھا انہوں نے آل رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسم )سے دشمنی کی بناپر آل رسول کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مرتبہ منصور دوانیقی نے جسے ہمیشہ آل رسول بعنی بنی علی اور بنی فاطمہ بالخصوص امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی برتری اور مجد وشکوہ دیکھ کر قلق ہوتا تھا وہ اس قلق سے خود کو نجات دینے کے لئے ابو حنیفہ کو اکسایا کرتا تھا کہ وہ امام جعفر صادق کے مقابلے پر اتر آے تاکہ اس طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کو علمی لحاظ سے شکست دی جاسکے۔ منصور دوانیقی ابو حنیفہ کا بڑا احترام کیا کرتا تھا اور انہیں اپنے دور کا سب سے بڑا عالم قراردیتا تھا اس کی وجہ بھی ابو حنیفہ سے محبت نہيں بلکہ اھل بیت رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی دشمنی تھی۔

اس واقعے کے راوی خود ابو حنیفہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن منصور دوانیقی نے مجھے کہلا بھیجا کہ اے ابوحنیفہ لوگ جعفر ابن محمد کے شیدا ہوچکے ہیں انہیں عوام کے درمیاں بڑی مقبولیت حاصل ہوچکی ہے اور تم سماج میں جعفر ابن محمد کی بے عزتی کرنے اور سماج میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کےلئے کچھ پیچیدہ مسائل کے سوالات تیار کرو اور مناسب وقت میں آن سے ان سوالات کے جواب دریافت کرو اس طرح جعفر ابن محمد تمہارے سوالوں کا جواب نہیں دے پائيں گےاور ان کی تحقیر ہوجائے گي جس کو دیکھ کر عوام کے دلوں میں ان کی عزت کم ہوجائے گي اور ان سے دور ہوتے جائيں گے۔ ابو حنیفہ کہتےہیں کہ میں نے منصور دوانیقی کے کہنے پر چالیس مشکل ترین سوالات تیار کئے۔ ایک دن جب منصور حیرہ میں تھا اس نے مجھے اپنے پاس بلوایا میں اس کے پاس پہنچا تو حیرت سے مبہوت رہ گیا، دیکھتا ہوں کہ جعفر ابن محمد، منصور کے دائيں طرف تشریف فرما ہیں، جب میری نگاہ جعفر ابن محمد پر پڑی تو مجھ پر ان کی عظمت، بزرگواری اور ابہت کا اتنا اثر پڑا کہ میں بیان کرنے سے عاجز ہوں۔ میں نے سلام کیا اور ان کے پاس بیٹھنے کی اجازت طلب کی بادشاہ نے اس کے کنارے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں جب بیٹھ گيا تو منصور نے جعفر ابن محمد کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ ابو حنیفہ ہیں ، انہوں نے جواب دیا جی ہاں میں انہيں پہچانتا ہوں۔ اس کے بعد منصور نے مجھ سے کہا کہ ابو حنیفہ اگر کوئي سوال ہوتو ابو عبداللہ جعفرابن محمد سے پوچھ لو۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اپنے سوالات جعفر ابن محمد کے سامنے رکھے، یہ چالیس سوالات تھےجو میں نے پہلے سے آمادہ کررکھے تھے۔ میں ان سے ایک کے بعد دوسرا سوال پوچھتا رہا اور جعفر ابن محمد ان کا شافی جواب دیتے رہے ، ہرمسئلہ بیان کرنے کےبعد آپ فرماتے تھے کہ اس مسئلے کے بارے میں تمہارا قول یہ ہے تمہاری رائے اور نظر یہ ہے، علماء مدینہ کی نظر اس طرح ہے اور ہماری نظر اس طرح ہے۔ بعض مسائل میں آپ ہماری نظر سے موافق تھے اور بعض میں آپ علمائے مدینہ کی نظر سے متفق ہوتے تھے تو بعض مسائل میں دونوں کی مخالفت کرتے تھے اور اس سلسلےمیں اپنے نظرئے کو بیان فرماتے تھے۔ ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے تمام چالیس سوالات کرڈالے اور جعفر ابن محمد نے نہایت متانت اور بے نظیر علمی تسلط کے ساتھ ان کے جوابات دئے۔ اس کے بعد ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ ان اعلم الناس اعلمھم باختلاف الناس ۔ سب سے زیادہ عالم وہ شخص ہے جو لوگوں کے اختلافی نظریات سے آگاہ ہو۔ ابوحنیفہ کا یہ جملہ تاریخ میں جلی حروف سے لکھا ملے گا کہ لولا جعفر ابن محمد ما علم الناس مناسک حجھم۔ اگر جعفرابن محمد نہ ہوتے تو لوگوں کو مناسک حج سے واقفیت نہ ہوتی۔

مالک بن انس :

مالک بن انس اھل سنت کے چار مسلکوں میں سے مالکی مسلک کے بانی ہیں انہیں اھل سنت ائمہ اربعہ میں شمار کرتے ہیں۔ وہ ستانوے ہجری میں پیدا ہوے اور ایک سو اناسی ہجری میں وفات پائي۔ مالک بن انس کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں ایک مدت تک جعفر ابن محمد کی خدمت میں زانوےادب تہ کیا کرتا تھا آپ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ہمیشہ آپ کے لبوں پر تبسم رہتا تھا۔ جب آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک لیاجاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ سبز اور زرد ہوجاتا تھا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہو اور وضو سے نہ ہوں۔ میں جب تک ان کے پاس آیا جایا کرتا تھا میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ان تین حالتوں سے خارج ہوں یا وہ نماز پڑھتے رہتے تھے ، یا قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے تھے یا پھر روزہ سے ہوتے تھے۔ میں نے نہيں دیکھا کہ آپ نے کوئي بے فائدہ اور عبث بات کی ہو ۔ وہ علماء زھاد میں سے تھے کہ جن کے دل میں خوف خدا گھر کرگیا تھا۔ ان کے پورے وجود سے خوف خدا عیاں رہتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں ان کی خدمت میں پہنچا ہوں اور آپ نے جس دری پرآپ بیٹھے رہتے تھے اسے میرے لئے نہ بچھا یا ہو۔

مالک بن انس امام جعفر صادق علیہ السلام کے زھد و عبادت و معرفت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک برس ہم امام صادق علیہ السلام کے ساتھ حج کرنے مدینے سے نکلے، مسجد شجرہ پہنچے جو اھل مدینہ کی میقات ہے۔ ہم نے احرام باندھا اور سب جانتےہیں کہ احرام باندھتے وقت تلبیہ کہنا یعنی لبیک اللھم لبیک کہنا واجب ہے۔ سب لوگ تلبیہ کھ رہے تھے۔ مالک کہتےہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام صادق علیہ السلام تلبیہ کہنا چاہتے ہیں لیکن ان کا رنگ متغیر ہورہا ہے آپ کی آواز حلق میں پھنس رہی ہے آپ مرکب سے زمیں پر گرنا ہی چاہتےتھے ، میں آگے آیا اور کہاکہ کے فرزند رسول خدا یہ ذکر تو آپ کو کہنا ہی ہوگا جیسے بھی ہو اس ذکر کو زبان پرجاری فرمائيں ، آپ نے فرمایا یابن ابی عامر کیف اجسر ان اقول لبیک اللھم لبیک و اخشی ان یقول عزو جل لا لبیک و لاسعدیک

اے پسر ابی عامر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں جسارت کروں اور اس بات کی جرات کروں اور زبان پر لبیک کے الفاظ جاری کروں ، لبیک کہنے کے یہ معنی ہیں کہ خداوندا تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا ہے میں تیری اطاعت کرتاہوں اور اس کی انجام دہی پر تیار رہتاہوں۔ میں بھلا کس طرح سے خدا کے حضور ایسی گستاخی کرسکتاہوں اور خود کو اطاعت خداوندی کے لئے پیش کرسکتا ہوں؟ اگر میرے جواب میں کھ دیا جاے کہ لا لبیک ولاسعدیک تو میں کیا کروں گا؟

مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی فضیلت و عظمت کےبارے میں کہتے ہیں کہ ما رات عین ولا سمعت اذن ولا خطر علی قلب بشر افضل میں جعفرابن محمد۔

کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا کہ کوئي جعفر ابن محمد سے بھی افضل ہوسکتا ہے۔

مالک بن انس کے بارے میں ملتا ہےکہ وہ جعفر ابن محمد سے حدیث سن کر بیان کرتے تھے اور بعض اوقات یہ کہتے تھے کہ میں نے یہ حدیث مرد ثقہ سے سنی ہے اور اس سے ان کی مراد جعفر ابن محمد ہوتے تھے۔

حسین بن یزید نوفلی کہتےہیں کہ سمعت مالک بن انس الفقیہ یقول واللہ مارات عینی افضل من جعفر ابن محمد زھدا و عبادۃ و ورعا و کنت اقصدہ فیکرمنی و یقبل علی فقلت لہ یوما یابن رسول اللہ ما ثواب من صام یوما من رجب ایمانا و احتسابا فقال وکان واللہ اذا قال صدق حدثنی ابیہ عن جدہ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من صام یوما من رجب ایمانا و احتسابا غفرلہ فقلت لہ یا ابن رسول اللہ فی ثواب یوما من شعبان فقال حدثنی ابی عن ابیہ عن جدہ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من صام یوما من شعبان ایمانا و احتسابا غفر لہ ۔

حسین بن یزید نوفلی نے مالک بن انس فقیہ سے نقل کیا ہےکہ وہ کہتےہیں کہ خدا کی قسم ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ کوئي زھد و علم و فضیلت اور ورع میں جعفرابن محمد سے برتر ہو، میں ان کے پاس جاتا تھا وہ خندہ پیشانی سے میرا استقبال کرتے تھے اورمیری عزت کرتے تھے۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ فرزند رسول خدا ماہ رجب میں روزہ رکھنے کا کیا ثواب ہے؟ انہوں نے میرے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک روایت نقل کی اور جب بھی وہ کچھ کہتے تھے سچ کہتےتھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد نے اپنےوالد سے اور انہوں نے ان کے جد سے نقل کیا ہےکہ ماہ رجب کے روزہ کا ثواب یہ ہے کہ روزہ رکھنے والے کے گناہ بخش دئے جائيں گے۔ اس کےبعد میں نے ماہ شعبان کے روزے کے بارے میں پوچھا آپ نے اس بار بھی وہی جواب مرحمت فرمایا۔

ابن شبرمہ اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

ابن شبرمہ کوفے کے نامدار قاضی تھے وہ بہتر ہجری میں پیدا ہوے اور ایک سو چوالیس ہجری میں وفات پائي۔ابن شبرمہ کہتے ہیں کہ ما ذکرت حدیثا سمعتہ من جعفر ابن محمد الا کاد ان یتصرع لہ قلبی سمعتہ یقول حدثنی ابی عن جدی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

وہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نےجعفر ابن محمد سے حدیث سنی ہومگر یہ کہ وہ میرے دل میں اترجاتی تھی ، اور وہ اس طرح حدیث بیان کرتے تھے کہ میں نے اپنے والد سے اور انہوں نے میرے جد سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے، اور خدا کی قسم جعفر ابن محمد نے کبھی بھی اپنے والد پر جھوٹ نہیں باندھا اور نہ ان کے والد نے اپنے والد پر جھوٹ باندھا اور نہ اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ باندھا۔ یعنی جعفر ابن محمد جو بھی حدیثیں اور روایات بیان کرتے تھے وہ سب صحیح اور سچي ہوتی تھیں۔

ابن ابی لیلی اور حضرت امام صادق علیہ السلام

شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت نقل کرتےہیں کہ محمد بن عبدالرحمان معروف بہ ابن ابی لیلی ( 74۔148 ھ ق) جو کوفے کے مشہور فقیہ، محدث ، مفتی اور قاضی تھے وہ ایک دن امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس گئے اور ان سے متعدد سوالوں کے جواب چاہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام نے انہيں مرحمت فرمادے۔ اس کےبعد ابن ابی لیلی امام جعفر صادق علیہ السلام سے خطاب کرکے کہتے ہیں کہ اشھد انکم حجج اللہ علی خلقہ ۔ میں شہادت دیتاہوں کہ آپ خدا کے بندوں پرخدا کی طرف سے حجت ہیں۔

ایک مرتبہ عمروبن عبید معتزلی امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آيا اور اس آیت کی تلاوت کرنے لگا الذین یجتنبون کبار الاثم و الفواحش اس کے بعد خاموش ہوگيا، امام نے پوچھا کیوں رک گئے تو اس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ قرآن سے مجھے گناہان کبیرہ کے بارے میں آگاہ فرمائيں، امام نے گناہان کبیرہ کو بیان کرنا شروع کیا، امام علیہ السلام کا بیان اس قدر واضح شافی اور قابل فہم اور جامع تھا کہ عمرو بن عبید نے بے اختیار اونچی آواز میں کہا ھلک من قال برايہ و نازعکم فی الفضل و العلوم ۔ ہلاک ہوگيا وہ جس نے اپنی رائے کو مقدم رکھا اور آپ سے علم و فضل میں نزاع کیا۔

ابو بحر جاحظ بصری جو تیسری صدی ہجری کے معروف ترین دانشوروں میں سے تھے کہتے ہیں کہ جعفر ابن محمد وہ ہیں جن کے علم وفقہ کا ڈنکا ساری دنیا میں بجتا ہے اور کہا جاتا ہےکہ ابو حنیفہ اور سفیان ثوری نے آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا ہے۔ آپ کی علمی عظمت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے۔

عمروابن مقداد جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر علما میں سے تھے کہتے ہیں : کنت اذا نظرت الی جعفر ابن محمد علمت انہ میں سلالۃ النبیین وقد رایتہ واقفا عندالجمرۃ یقول سلونی سلونی۔

وہ کہتے ہیں کہ میں جب بھی جعفر ابن محمد پر نظر ڈالتاہوں تو سمجھ جاتاہوں کہ وہ پیغمبروں کی نسل سے ہیں ، میں نےخود دیکھا ہے کہ وہ منی کے ایک جمرے پر کھڑے ہوکر لوگوں سے فرماتے تھے کہ ان سے پوچھ لیں سوال کرلیں اور ان کے بے کراں علم سے فائدہ اٹھائيں۔

ابو الفتح محمد بن ابی القاسم اشعری معروف بہ شہرستانی نے اپنی کتاب الملل و النحل میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظمت کے بارےمیں لکھا ہے کہ و ھو ذو علم عزیز فی الدین و ادب کامل فی الحکمۃ و زھر بالغ فی الدنیا و ورع تام عن الشہوات۔ وہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام دین میں علم بے کراں، حکمت میں ادب کامل اور دنیا اور اس کے زرق وبرق کے تعلق سے مکمل زھد کے حامل اور شہوات سے مبری تھے۔

ابن خلکان امام جعفر صادق علیہ السلام کےبارےمیں لکھتے ہیں کہ احد الائمہ الاثنی عشر علی مذھب الامامیہ و کان میں سادات اھل البیت و لقب بالصادق لصدق مقالتہ و فضلہ اشہر من ان یذکر۔ وہ لکھتےہیں کہ مذھب امامیہ کے ایک امام تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں انہيں سچائي کی بناپر صادق کا لقب دیا گيا اور ان کی فضلیت اتنی عیاں ہے کہ اس کےبیان کی ضرورت نہیں۔ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کیمیا میں ید طولی رکھتے تھے، ابوموسی جابر بن حیان طرطوسی ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جابر نے ایک ہزار ورق پرمشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس میں جعفر ابن محمد کی تعلیمات تھیں۔

ابن حجر عسقلانی جن کا نام شہاب الدین ابوالفضل احمد بن علی مصری شافعی ہے اور جو ابن حجر کی کنیت سے معروف ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جعفر ابن محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب ایسے فقیہ ہیں جو نہایت راست گو ہیں۔

ابن حجر کتاب تہذیب التہذیب میں ابی حاتم اور وہ اپنے والد سےکہ نقل کیا ہے کہ لایسال عن مثلہ ، ان جیسے کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا ( یہ بات سب کو روز روشن کی طرح معلوم ہے کہ وہ منبع علم اور سرچشمہ ھدایت ہیں) وہ مزید لکھتے ہيں کہ ابن عدی نے کہا ہےکہ لجعفر احادیث و نسخ و ھو من ثقات الناس، و ذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال کان من سادات اھل البیت فقہا و علما و فضلا، وقال النسائي فی الجرح والتعدیل ثقہ۔

صاحب سیر النبلاء حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہيں کہ جعفر ابن محمد بن علی ابن الحسین ریحانہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کے سامنے بہت سے لوگوں نے زانوے ادب تہ کیا ہے اور ان سے علمی فیض حاصل کیا ہے۔ ان میں ان کے بیٹے موسی کاظم علیہ السلام، یحی بن سعید انصاری، یزید بن عبداللہ، ابو حنیفہ، ابان بن تغلب،، ابن جریح ، معاویہ بن عمار، ابن اسحاق، سفیان، شبعہ ، مالک، اسماعیل بن جعفر، وھب بن خالد، حاتم بن اسماعیل، سلیمان بن بلال، سفیان بن عینیہ، حسن بن صالح، حسن بن عیاش، زھیر بن محمد، حفص بن غیاث، زید بن حسن، انماطی، سعید بن سفیان اسلمی ، عبدالہ بن میمون، عبدالعزیز بن عمران زھری، عبدالعزیز درآوری ، عبدالوہاب ثقفی ، عثمان بن فرقد، محمد بن ثابت بنانی، محمد بن میمون زعفرانی، مسلم زنجی، یحی قطان، ابو عاصم نبیل و۔۔۔۔۔

وہ اپنی کتاب میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ جعفر ابن محمد امام بزرگ ہیں جن کا مقام نہایت اعلی ہے وہ نیک اور صادق ہیں۔

شہاب الدین ابوالعباس احمد بن بدرالدین شافعی معروف بہ ابن حجر ہیتمی امام صادق علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ لوگوں نے آپ سے بہت سے علوم سیکھے ہیں اس یہ علوم مسافروں کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل گئے اور ساری دنیا میں جعفر ابن محمد کے علم کا ڈنکا بجنے لگا۔ وہ کہتےہیں کہ بزرگ علماء جیسے یحی بن سعید ، ابن جریح مالک ، سفیان ثوری اور سفیان بن عینیہ ابو حنیفہ، اور شعبہ نیز ایوب سجستانی نے ان سے حدیث نقل کی ہے۔

میر علی ہندی جو کہ اھل سنت کے بزرگ علماء میں شمار ہوتےہیں اور وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں صرف فاطمی سادات کے نزدیک آرا و فتاوی نے فلسفی رنگ حاصل کیا ہے ، اس زمانے میں علم کی ترقی نے سب کو کشتہ بحث و جستجو بنادیا تھا اور فلسفیانہ گفتگو ہرجگہ رائج ہوچکی تھی ۔ قابل ذکر ہےکہ اس فکری تحریک کی رہبری اس مرکز علمی کے ہاتھ میں تھی جو مدینہ میں پھل پھول رہا تھا اور اس مرکز کا سربراہ علی ابن ابی طالب کا پوتا تھا جس کا نام جعفر صادق تھا۔ وہ ایک بڑے مفکر اور سرگرم محقق تھےاور اس زمانے کے علوم پر عبور رکھتے تھے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام میں فلسفے کے مدارس قائم کئے۔ ان کے درس میں صرف وہ لوگ شرکت نہیں کرتے تھے جو بعد میں فقہی مکاتب کے امام کہلائے بلکہ فلاسفہ، فلسفہ کے طلبہ بھی دور دراز سے آکر ان کے درس میں شرکت کرتے تھے۔ حسن بصری جو مکتب فلسفہ بصرہ کے بانی ہیں، واصل بن عطاء جو معتزلہ مسلک کے بانی ہیں یہ لوگ ان کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ان کے چشمہ علم سے فیض حاصل کیا ہے اور اسی سے سیراب ہوئے ہیں۔