• رمضان المبارک 1445ھ کی مناسبت سے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا خصوصی پیغام
  • علامہ رمضان توقیر سے علامہ آصف حسینی کی ملاقات
  • علامہ عارف حسین واحدی سے علماء کے وفد کی ملاقات
  • حساس نوعیت کے فیصلے پر سپریم کورٹ مزیدوضاحت جاری کرے ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان
  • علامہ شبیر میثمی کی زیر صدارت یوم القد س کے انعقاد بارے مشاورتی اجلاس منعقد
  • برسی شہدائے سیہون شریف کا چھٹا اجتماع ہزاروں افراد شریک
  • اعلامیہ اسلامی تحریک پاکستان برائے عام انتخابات 2024
  • ھیئت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کی جانب سے مجلس ترحیم
  • اسلامی تحریک پاکستان کے سیاسی سیل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا
  • مولانا امداد گھلو شیعہ علماء کونسل پاکستان جنوبی پنجاب کے صدر منتخب

تازه خبریں

کربلا۔۔۔ درس ِ استقلال محمد رمضان توقیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کربلا۔۔۔ درس ِ استقلال
محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان
انسانی ذہن تعجب کا شکار ہوجاتا ہے جب وہ امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کے سفر ِ شہادت کا بنظر ِ غائر جائزہ لیتا ہے کہ ایک جابر اور آمر خلیفہ وقت کے سامنے قیام کا فیصلہ کس قدر آسانی اور جرات کے ساتھ لے لیا اور اس فیصلے پر ڈٹ گئے۔ کہا جاتا ہے جب فیصلوں میں شعوری اور ایمانی کیفیت اور پس منظر شامل ہو تو انسان ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے ہر مشکل برداشت کرجاتا ہے لیکن اگر فیصلہ غیر شعوری اور جذباتی ہوں تو انسان پہلے دوسرے تیسرے یا کسی مرحلے پر تھک کر ہار جاتا ہے اور اپنی جدوجہد کو ترک کرکے فیصلے واپس لے لیتا ہے۔ عظیم امام حسین ؑ جیسی شخصیت کے فیصلے کسی جذبات‘ ذاتی خواہشات یا خاندانی مفادات کے لیے نہیں تھے بلکہ اللہ کے دین کی بقاء‘ خاتم النبیین ؐ کی شریعت کی حفاظت اور اسلام و مسلمین کی سربلندی و شرف کی بحالی کے لیے تھے۔جب فیصلوں کا پس منظر یہ ہو اور عامل حسین ؑ جیسا بلند و بالا انسان ہو تو استقامت و استقلال خود آگے بڑھ کر استقبال کرتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب امام ِ حریت حضرت حسین علیہ السلام نے یزید کی تخت نشینی کے فوراً بعد اس کے خلاف مزاحمت کا آغاز فرمایا تو کئی جیّد اور بزرگ صحابہ موجود تھے انہوں نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر یزید کے خلاف قیام اور مزاحمت سے گریز کا فیصلہ کیا۔ انسانی مزاج اور مصلحت پسندی نے کئی بڑی شخصیات کو سکوت پر مجبور کردیا حالانکہ ان کی آنکھوں کے سامنے یزید کے ارادے‘ پروگرام اور اعمال کھل کر آچکے تھے اس کے باوجود انہوں نے ظالم حاکم کے خلاف صدائے حق بلند کرنے میں عافیت محسوس نہ کی۔ لیکن اس مرحلے پر امام حسین ؑ واحد شخصیت تھے جنہوں نے اپنی دینی‘ اسلامی‘ شرعی اور اخلاقی و سیاسی۔ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر متعدد صحابہ کرام اور اہل بیت کے بعض افراد نے امام ؑ کے اس فیصلے کی تائید نہیں کی بلکہ امام ؑ کو انتظار کرنے‘ سکوت کرنے اور فیصلے تبدیل کرنے کے مشورے دئیے مگر امام ؑ نے اپنی الہی بصیرت‘ نبوی صلاحیت اور علوی حکمت کے تحت ان مشورے کو قبول کرنے کی بجائے استقامت و استقلال کی راہ اپنائی۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مختلف تقاضے پورے فرماتے رہے۔ یزید اور اس کے کارندوں کو آئینہ دکھانے کے ساتھ عوام و خواص کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرماتے رہے حتی کہ وہ وقت آیا جب امام ؑ کو مدینہ سے مکہ کی طرف رخت ِ سفر باندھنا پڑا۔ یہ ایک کڑا امتحان اور سنگین مرحلہ تھا جب نانا رسول ؐ کے شہر کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا جائے۔ لشکر نہیں بلکہ اہل ِ خانہ و چند اصحاب پر مشتمل قافلہ آمادہ کیا جائے۔ موت کے قوی امکانات موجود ہوں۔ جابر حاکم کی طرف سے ہرقسم کے ظلم کی توقع ہو لیکن پائے استقلال میں لغزش نہ آئے۔ اور پھر وہ مرحلہ آئے جب محمد بن حنفیہ جیسا بھائی حسین ؑ کے استقلال کے لیے امتحان بن کر سامنے آئے لیکن حسین ؑ کسی پریشانی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے سفر کو مدینہ سے مکہ کی طرف جاری کردے۔
ایک اور سنگین مرحلہ اللہ کے شہر یعنی مکہ میں پیش آئے۔ شیرخوار بچوں‘ تقدس مآب خواتین اور شرفاء عرب جوانوں پر مشتمل اس کاروان پر جب اللہ کے شہر کی زمین تنگ کردی جائے۔ حرمت ِ کعبہ پامال ہونے کے منصوبے بن چکے ہوں۔ حج ِ بیت اللہ کے تقدس کو تار تار کرنے کے اقدامات تیار ہوں حتی کہ کعبے کے پہلو میں حسین ؑ کو قتل کرنے کی سازش آمادہ ہوچکی ہو۔ ایسے حالات میں احرام توڑنا‘ حج کو عمرہ میں بدلنا‘ حرمت ِ بیت اللہ کو محفوظ کرنا اور سرزمین ِ مقدس کو انسانی خون سے رنگین ہونے سے بچانا یہ صرف اور حسین ؑ کا ہی کام تھا جس نے استقلال کی ایک اور مثال رقم کرتے ہوئے مکہ سے رخت ِ سفر باندھااور کربلا کی سمت روانہ ہوئے۔
مکہ سے کربلا کے سفر کا ہر ہر مرحلہ حسین ؑ اور ان کے قافلے کے لیے آزمائش کا باعث بنتا رہا۔ مختصر ترین قافلے کی طاقتور ترین حکومت کی طرف پیش قدمی ایک تاریخ رقم کرنے کی سمت جاری تھی۔ اس بار تلوار اور تلوار کا نہیں‘ نیزے اور نیزے کا نہیں‘ تیر اور تیر کا نہیں‘ برچھی اور برچھی کا نہیں بلکہ تلوار‘ نیزے‘ تیر اور برچھی کا خون سے مقابلہ تھا۔ اور خون نے ان سب ہتھیاروں پر فتح حاصل کرنا تھی۔ حسین ؑ کی چشم ِ بابصیرت اس فتح کو دیکھ رہی تھی یہی وجہ ہے کہ حسین ؑ نے استقلال کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ آگے بڑھتے رہے یہاں تک یکم محرم الحرام کو حسینی قافلے کو کربلا کی سرزمین پر یزیدی افواج نے روک کر محصور کرلیا۔ یہ مرحلہ حسین ؑ اور ان کے اصحاب و انصار کے لیے ایک نئے امتحان کا باعث تھا۔
کربلا سے قبل تو حسین ؑ کے استقلال کا امتحان انجانے فیصلے کے تحت جاری تھا لیکن اب کربلا نے اپنے ماحول اور یزیدی افواج کی موجودگی کے سبب یقینی منظر نامہ پیش کردیا کہ اب حسین ؑ کے لیے دو ہی راستے باقی تھے۔ پہلا ظالم و فاسق وفاجر حاکم کی بیعت اور دوسرا شہادت۔ یکم محرم الحرام سے لے کر عاشور کی شب تک امام حسین ؑ انہی دو راستوں پر اپنے استقلال کا وزن کرتے رہے۔ اپنے اقربا ء و اولاد سے مشاورت اور اپنے اصحاب و انصار کے ساتھ مشاورت جاری رہی اور انہیں ان دو راستوں کے منافع و نقائص کے بارے آگاہی دیتے رہے۔ ساتھ ساتھ یزیدی افواج کو گمراہی‘ قتل و غارت اور جہنم سے بچانے کے لیے مہلت دیتے رہے۔ بالآخر شب ِ عاشور کی ساعتیں آئیں اور استقلال ِ حسینی ؑ اپنے اختتامی مراحل کی طرف بڑھنے لگا۔ اپنے قافلے کو موت کی یقینی خبر دی‘ شہداء کے لیے جنت الفردوس کی بشارت دی‘ مخدرات ِ عصمت کے ساتھ مستقبل میں ہونے والے حالات سے آگاہ فرماتے ہوئے چراغ ِ شب گل کردیا تاکہ ساتھیوں میں سے جس جس کا استقلال کمزور پڑ چکا ہو اور اس کمزوری کے اظہار میں شرمساری محسوس کررہا ہو وہ رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جان بچا لے اور حسینی ؑ قافلے سے الگ ہوجائے۔ لیکن طویل وقت بعد جب چراغ دوبارہ روشن ہوا تو کسی ایک فرد کے استقلال میں جنبش یا کمی نظر نہ آئی بلکہ مزید استقامت کے واضح آثار نمودار ہوئے۔
اکسٹھ ہجری کے روز ِ عاشور استقلال و استقامت اپنی لافانی بلندیاں چھو رہے تھے۔ جب حسین ؑ کے ساتھ موت یا شہادت کے حصول کے لیے سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ استقلال کی انتہا تھی کہ کسی فرد کے چہرے پر موت کی پریشانی یا افسردگی نظر نہیں آرہی تھی بلکہ سب بے چینی سے اپنے امام ؑ کی معیت میں موت کو گلے لگانے کے منتظر تھے۔ لیکن دوسری جانب نواسہ رسول ؐ کے استقلال کی منزل تو دیکھئے کہ سب بادفا اصحاب کو ایک ایک کرکے موت کی طرف روانہ فرما رہے ہیں اور پھر ان کی کٹی پھٹی لاشیں وصول فرما رہے ہیں۔ صرف یہاں تک نہیں بلکہ اب خاندان ِ رسالت کے مقدس نفوس کی ترتیب بن چکی اور وہ بھی ایک ایک کرکے میدان ِ شہادت کی سمت روانہ ہو رہے تھے۔ امام ِ مظلوم ؑ کامل استقلال کے ساتھ شبیہہ پیغمبر ؐ حضرت علی اکبر ؑ کو روانہ بھی کررہے ہیں اور ان کی لاش بھی لا رہے ہیں۔ کمال استقلال کے ساتھ شبیہہ امام حسن ؑ حضرت قاسم ؑ کو پامال ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ان کی لاش کے ٹکڑے چُن رہے ہیں۔ انتہائی استقلال کے ساتھ شبیہہ علی ؑ حضرت عباس علمدار ؑ کو میدان ِ جنگ کے لیے روانہ فرما رہے ہیں اور پھر بازو قلم شدہ عباس ؑ کی آنکھوں سے خون نکال رہے ہیں۔ استقلال کو امتحان میں ڈالنے کے لیے اس بار امام حسین ؑ نے چھ ماہا علی اصغر ؑ کا انتخاب کیا کہ شاید شقی القلب مدمقابل لشکر میں سے کسی کو رحم آجائے لیکن بے پناہ استقلال کے ساتھ اس شش ماہا صغیر کی سہہ شاخہ تیر سے بریدہ لاش اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے اللہ تعالے سے اس قربانی کی قبولیت کی دعا مانگ رہے ہیں۔
حسین ؑ نے نظام ِ استقلال کو اپنی حدود سے بھی آگے بڑھا دیا جب میدان ِ کربلا میں ہر طرف اپنے اعزاء و اقربا اور اصحاب و انصار کی لاشیں بکھری پڑی ہیں لیکن پھر بھی مکمل استقلال کے ساتھ یزیدی فوج کے سامنے کلمہ حق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے انہیں اپنے قتل سے باز رکھنے اور جہنم میں جانے سے بچنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ لیکن اس حالت میں بھی استقلال کی اس منزل پر فائز نظر آتے ہیں کہ سارا قافلہ ذبح ہونے اور یکہ و تنہا رہ جانے کے باوجود یذیدیت سے کسی قسم کا سمجھوتہ یا بیعت کرنے کے لیے تیار نظر ہیں آتے اور اسی استقلال کے ساتھ سرزمین ِ کربلا پر اپنے آپ کو شہادت کے لیے پیش کردیتے ہیں۔
حسین ؑ کے استقلال نے رہتی دنیا تک ہر مسلمان نہیں‘ ہر اہل ِ ایمان نہیں‘ ہر اہل ِ مذہب نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے راہ ِ استقلال معین کردیا ہے۔ خط ِ استقلال کھینچ دیا ہے۔ چراغ ِ استقلال روشن کردیا ہے اور مثال ِ استقلال قائم کردی ہے اب قیامت سے بعد تک آنے والے ہر انسان کے لیے مشعل روشن ہے کہ اگر وہ ظلم و جبر کے خلاف لڑنا چاہتا ہے۔ اگر وہ بے دینی و بے حیائی کے خلاف جہاد کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ فاسد نظام کے خلاف اٹھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ معاشرتی اصلاح کے لیے قدم بڑھانا چاہتا ہے۔ اگر وہ اخلاقی و شرعی حدودکو پامالی سے بچانا چاہتا ہے۔ اگر وہ احیائے دین و شریعت کی تحریک چلانا چاہتا ہے۔ اگر وہ انسانی شرف و عزت و تکریم رائج کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ اپنے خون کے ذریعے اپنے آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہے تو وہ اسے دنیا میں حسین ؑ کے استقلال کے علاوہ کوئی سہارا‘ کوئی آسرا‘ کوئی رستہ اور کوئی مثال نہیں ملے گی۔ آئیے اپنے استقلال کو حسین ؑ کے استقلال میں ضم کردیں کیونکہ یہی حسین ؑ اور کربلا کا درس ِ استقلال ہے۔
٭٭٭٭٭