• ایرانی صدر کی اقتداء میں نماز مغربین شیعہ علماء کونسل کے رہنماؤں کی ملاقات
  • اسلامی تحریک پاکستان کے وفد کا گلگت بلتستان کا دورہ
  • غاصب ریاست مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے علامہ عارف حسین واحدی
  • نوشکی قومی شاہراہ پہ مسافر بسوں پر حملہ افسوسناک ہے علامہ شبیر میثمی
  • قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی کی اپیل پر ملک بھر میں القدس ریلیوں کا انعقاد
  • قائد ملت کی اپیل پر جمعۃ الوداع یوم القدس کے عنوان سے منایا جائے گا علامہ شبیر میثمی
  • اسلام آبادپولیس کا عزاداروں پر شیلنگ،تشدد اور مقدمہ بلاجوازہے ، علامہ شبیر میثمی
  • رمضان المبارک 1445ھ کی مناسبت سے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا خصوصی پیغام
  • علامہ رمضان توقیر سے علامہ آصف حسینی کی ملاقات
  • علامہ عارف حسین واحدی سے علماء کے وفد کی ملاقات

تازه خبریں

شریعت کوانا کا مسئلہ بنا کرکھلونا سمجھا جا رہا ہے

احادیث معصومین علیہم السلام کی روشنی میں نمازکونہ صرف دین مبین اسلام کا ستون قرار دیا گیا ہے بلکہ یہاں تک بیان ہوا ہے ان قبلت ،قبلت ماسواھا وان ردت ،ردت ماسواھا یعنی اعمال کی قبولیت کا دارومدار نماز پر ہے ، اگر نماز قبول  ہے تو دیگراعمال بھی قبول ہوں گے اوراگرنمازکورد کردیا گیا توتمام اعمال مردود ہوجائیں گے ، لہذا اس اہمیت کی حامل نماز کے متعلق بحد ضرورت معلومات رکھنا ہرمسلمان پر فرض ہے کہ کونسی نماز کس اندازسے پڑھی جائے اوراس کی شرائط کیا ہیں تا کہ اس فریضہ الٰہی پرعمل ہوسکے ، مگرافسوس کہ ہمارے معاشرے کی دین ودینداری حالت ناگفتہ بہ ہے جس کی واضح مثال حالیہ دنوں میں عوام وخواص کے اقدامات دکھائی دے ر ہے ہیں اور سوشل میڈیا پر جوکچھ ہو رہا ہے ،مکتب کی توہین ہے۔ ہمارا مکتب توادب و تہذیب کا مکتب ہے، قرآن وسنت کی روشنی میں تہمت،غیبت اور گالی کوحرام قراردیا گیا ہے،مگر میڈیا پران تینوں کا استعمال کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے  جو قوم وملت کے خادمین ،مومنین اورعلماء کرام کی توہین کا باعث بنتا ہے جوقطعا حرام اورفعل قبیح ہے۔
اسی حوالے سے  میڈیا پرحالیہ دنوں عید نمازکا مسئلہ مضحقہ خیز مذاق بنا ہوا ہے اور یہ ساری صورتحال اس وقت سامنے آئی جب ایک سیاسی اجتماع کی طرف سے اسلام آباد میں شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری کی اقتدا  میں عید نماز کا اعلان کیا گیا جس میں تمام تراحتجاج کرنے والے کارکنان وقائدین نے شرکت کی – جب میڈیا پر اس نمازکودکھایا گیا تومختلف مکاتب فکر کے لوگوں میں چہ می گوئیاں شروع ہوئیں ، کیونکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے عذر شرعی کی بنا پر رکوع وسجود اشارے سے انجام دئے جبکہ مقتدیوں نے تمام شرائط کے ساتھ نماز ادا کی ۔
ان سوالات و چہ می گوئیوں کے پیش نظر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکریٹری جنرل اوراتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ترجمان قاری محمد حنیف جالندہری نے اس عید نمازکے متعلق اہل سنت مفتیوں سے سوال کیا اوران کے بقول مفتیوں نے جو جواب دیا اس کی روشنی میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگرامام معذورہواوراشاروں سے نمازادا کرے اوراس کے پیچھے نماز پڑھنے والے باقاعدہ طریقے سے نماز ادا کریں تو ان کی نمازقبول نہیں ہوگی ، ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے ان کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا ہرگزنہیں بلکہ ایک شرعی مسئلہ ہے اوراس کی تصحیح ضروری ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ اٹھایا جا رہا ہے، مزید یہ کہ نماز عید اگر رہ جائے یا صحیح طریقے سے ادانہ کی جائے تو اس کی کوئی قضا نہیں ہے،تاہم جن لوگوں نے نمازعید اداکی وہ اللہ سے استغفار کریں۔
قاری حنیف جالندہری کے بیان پرمختلف مکاتب فکر کے نوجوانوں کو ایک  جھٹکا لگا اور چہ می گوئیاں ہر پیر وجوان کی زبان زد ہوئیں جس پر میڈیا نے نمازمیں موجود اور پاکستان عوامی تحریک کے اتحادی ایم ڈبلیوایم رہنما سے سوال کیا کہ جالندہری صاحب کے بیان پرآپ  اور آپ کی فقہ کیا  کہتی ہے تو مولانا صاحب نے جواب دیا کہ جس طرح کہ خانہ کعبہ میں معذورامام جماعت کی اقتداء میں نمازادا کی جاتی ہے اور شیعہ سنی مل کر اس معذورامام کی اقتدا میں نمازادا کرتے ہیں اسی طرح یہاں قادری صاحب بھی معذورتھے ، شیعہ سنی نے مل کرنمازادا کی ہے اور نماز درست ہے۔
اس تعجب خیز جواب پر عوام الناس،میڈیا اورشیعہ نوجوانوں نے قومی پلیٹ فارم کی طرف رجوع کرتے ہوئے علامہ عارف حسین واحدی سے سوالات کئے جس پرعلامہ صاحب نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے موجودہ سیاسی بحران میں ہم مکمل غیر جانبدار ہیں ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم نے فریقین سے کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کی ،آئینی مطالبات پورے کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا ،ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر بحران کو ختم کرنے کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری ۔ مگر اب ایک شرعی اور فقہی مسئلہ کے بارے میں پورے ملک سے لوگ رابطہ کر رہے ہیں ، میڈیا کے احباب بھی مسلسل سوال کر رہے ہیں اس لئے فقہی مسئلہ کی وضاحت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
علامہ عارف حسین واحدی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امام جماعت کی شرائط کے بارے میں تمام فقہا اسلام کا اتفاق ہے کہ جو امام جماعت رکوع اور سجود مکمل شرائط کے ساتھ ادا نہ کر سکتا ہو تواس کی اقتدا اورامامت میں نمازدرست نہیں ہے ۔اگر باقی شرائط امامت موجود ہوں اور رکوع اور سجود بھی مکمل ادا کرسکتا ہو تو شرعی طور پر اس کی امامت میں نمازادا کی جا سکتی ہے۔
علامہ صاحب کے بیان  کے بعد سوشل میڈیا پرطوفان بد تمیزی کھڑا کردیا گیا اور قومی پلیٹ فارم کے خادمین کی حلفیہ مخالف ایک ویٹ سائٹ پر بھی علامہ عارف حسین واحدی کے خلاف نہ رکنے والاسلسلہ جاری و ساری ہے، جبکہ آج ترقی یافتہ نیٹ کے دورمیں تو تحقیق کرنا آسان ہوگیا ہے ، پھرہم بے پدر نہیں ، مرجعیت موجود ہے ،انشاء اللہ ہرشیعہ گھرمیں توضیح المسائل تو ہوگا، نہیں تو اپنے اپنے مرجع تقلید سے رابطہ کرکے اصل حقیقت معلوم کی جا سکتی ہے ۔
لیکن ایسا نہ ہوا،شریعت کو بھی اختلافات وانا کا مسئلہ بنا کرکھلونا سمجھا جا رہا ہے،اپنی انا کی خاطر مرجعیت کی بات کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، چوں کفرازکعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی، اگریہ سلسلہ علماء کی طرف سے ہو تو پھرعوام الناس اور سوشل میڈیا پر بیٹھے نوجوانوں سے کیا گلہ؟
اسی مذکورہ ویب سائٹ پر ایک اورمولانا کا بیان دیکھنے کوملا کہ ’’اگر کسی فقہ کے ماننے والے کی نماز اس کی اپنی فقہ کے مطابق صحیح ہو تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے، یہی حکم مکہ و مدینہ میں تمام شیعہ مسلمانوں پر لاگو ہوتا ہے جو وہاں غیر شیعہ مولویوں کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہیں اور امام خمینی (رہ) اور امام خامنہ ای نے ایسی نماز میں شرکت کرنے کی جانب بہت زور دیا ہے اور تاکید فرمائی ہے۔ انہوں نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ آپ فرادی کی نیت سے پڑھیں۔ مجتہد نے ایک فتوی دیا ہے کہ نماز پڑھو اب کوئی اس پر اپنا فتوی نہ دے کہ فرادی پڑھو یا جماعت سے نہ پڑھو۔ میں خود اہل سنت کی اقتدا میں نماز کو جماعت کی نیت سے پڑھتا ہوں اور اس کے اعادے و تکرار کی ضرورت نہیں سمجھتا، اس لئے کہ میرے مجتہد نے فتوی دیا ہے اور وہ فتوی میرے لئے شرعی حجت رکھتا ہے،اگر کوئی کسی اہل سنت کی اقتدا میں نماز ادا کرے تو عین ممکن ہے کہ وہ ادا کی جانے والی نماز میں آپ کی فقہ کے مطابق کوئی خلل موجود ہو یا وہ کسی بھی اعتبار سے ٹھیک نہ ہو مثلا مکہ و مدینہ میں امام جماعت شیعہ دوازدہ امامی نہیں ہوتا یا ممکن ہے کہ اس میں جماعت کے مسائل کے بارے میں گو مگو کی گنجائش موجود ہو لیکن اہل سنت کی فقہ کے مطابق وہ نماز درست ہے    تو چونکہ نماز اہل سنت کی فقہ کے مطابق درست،صحیح اور ٹھیک ہے تو آپ اس کی اقتدا کر سکتے ہیں۔‘‘
موصوف نے مٹھائی کا گلاب جامن سمجھ کرنہایت خوبصورتی سے بات کوگھمانے کی کوشش کرتے ہوئے اہلسنت امام کی اقتدا اور نماز جماعت کی اہمیت کے پیش نظر دئے گئے مراجع کے فتوا کو ٹچ دیا ہے جو درست نہیں – یہاں اہلسنت امام کی اقتدا اور نماز جماعت کی اہمیت کی بات نہیں بلکہ امام و ماموم کے رکوع و سجود کی شرائط کی بات ہے کہ جو امام جماعت رکوع اور سجود مکمل شرائط کے ساتھ ادا نہ کر سکتا ہو تو اس امام کی اقتدا اور امامت میں نماز درست نہیں ہے۔
قارئین گرامی تحقیق کے لئے تمام مراجع مکرم اسلام کی توضیح المسائل سمیت مکتب اہل بیت کی بنیادی فقہی کتاب عروة الوثقیٰ اورمراجع کی ویب سائٹس کے ذریعہ اصلی اورحقیقی معلومات حاصل کریں یا مراجع سے استفتاء کریں بشرطیکہ حق امانت داری کے ساتھ حقیقت پر مبنی سوال کیاجائے کیونکہ اہلسنت علماء کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے اور تمام مکاتب فکرکےعلماء کرام متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم  پر ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھ چکے ہیں نیز بعض جسمانی معذورات کے باوجود اگر کامل الشرائط رکوع و سجود انجام دے سکتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھی جاسکتی ہے اس پر تو کسی کو اعتراض نہیں بلکہ اصل سوال اس طرح ہے کہ جب ایک امام رکوع اورسجود انجام دینے سے معذورہے کیااس کی اقتدامیں سالم اور پورے شرائط کے ساتھ رکوع وسجود کرنے والے افراد  نماز پڑھ  سکتے ہیں ان کی نماز کا حکم کیا  ہے؟
ہماری تحقیق کے مطابق علامہ عارف حسین واحدی صاحب کا بیان حقیقت پرمبنی اور تمام مراجع کی فتوا پر محیط ہے اور علامہ عارف حسین واحدی نے قاری حنیف جالندہری کے بیان کی حمایت نہیں بلکہ مراجع مکرم اسلام کی ترجمانی کی  ہے –