• رمضان المبارک 1445ھ کی مناسبت سے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا خصوصی پیغام
  • علامہ رمضان توقیر سے علامہ آصف حسینی کی ملاقات
  • علامہ عارف حسین واحدی سے علماء کے وفد کی ملاقات
  • حساس نوعیت کے فیصلے پر سپریم کورٹ مزیدوضاحت جاری کرے ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان
  • علامہ شبیر میثمی کی زیر صدارت یوم القد س کے انعقاد بارے مشاورتی اجلاس منعقد
  • برسی شہدائے سیہون شریف کا چھٹا اجتماع ہزاروں افراد شریک
  • اعلامیہ اسلامی تحریک پاکستان برائے عام انتخابات 2024
  • ھیئت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کی جانب سے مجلس ترحیم
  • اسلامی تحریک پاکستان کے سیاسی سیل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا
  • مولانا امداد گھلو شیعہ علماء کونسل پاکستان جنوبی پنجاب کے صدر منتخب

تازه خبریں

عالمی افق پرایک نیا محاذ جنگ mh raheemi

اس وقت یمن کی داخلی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔ یہاں حوثی شیعہ قبائل ہی نہیں، سنی قبائل ، القاعدہ ، دولت اسلامیہ اوردیگر پڑوسی ممالک کے مفادات کی صورت میں بہت سے متحارب حریف بھی موجود ہیں۔ حال ہی میں دولت اسلامیہ نے حوثی قبائل پر خودکش حملے کیے۔ گزشتہ برس ستمبر میں حوثیوں نے اہم پیشرفت کرتے ہوئے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا اور ریاست کا اہم جنگی سازوسامان بھی حوثیوں کے قبضے میں ہے۔ تصدیق شدہ ذرائع کے مطابق اب تک تین بڑے شہروں پر حوثی جنگجو حاوی ہو چکے ہیں۔ عدن ان میں سب سے اہم ہے۔ جہاں ایشیا اور افریقہ کے درمیان بہنے والا بحیرہ احمر ایک تنگ گزرگاہ آ بنائے باب المندب میں بدل جاتا ہے۔ یہاں سالانہ بیس ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں ۔ عدن پر حوثی مضبوط اور دیر پا قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سعودیوں سمیت خطے کے دیگر عرب ممالک لیے یہ ایک تکلیف دہ صورت ہوگی۔  یمن کے ساتھ سعودی عرب 1800 کلومیٹر طویل سرحد رکھتا ہے۔ یہاں حالات کی خرابی سے براہ راست اسے خطرہ درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یمنی سرحد پر وہ سینسر اور کیمروں سمیت جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس دیو قامت باڑ لگا رہا ہے۔ اسی پس منظر میں بار بار یہ بات سننے میں آتی ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے فوجی مدد مانگ رہا ہے جو مستقل طور پر جزیرہ نما عرب میں مقیم رہے۔
یمن میں فوجی مداخلت سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلی اور سیاسی وعقیدتی ضرورت ہے۔ تاہم خلیجی ممالک، ایران عرب کشمکش اور خود پاکستان کے لیے بھی یہ سعودی فوجی مداخلت عظیم اثرات کا حامل ہو سکتی ہے۔ پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت کو خوب سوچ سمجھ کر باہم مشورے سے اس پیچیدہ صورت حال میں اپنا لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ بقول قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی، پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے اور اس شعر ’’ تو کار زمیں را نکو ساختی، کہ با آسماں نیز پرداختی‘‘ کا مصداق نہیں بننا چاہیے اور ہمیں اپنے مسائل پرکامل توجہ دینی چاہیے ۔ مشرق میں بھارت اور مغرب میں افغان سرحد پر شدید خطرات پہلے ہی سے لاحق ہیں۔ یہ بات بہر حال طے ہے کہ یمنی جنگ کے نتیجے میں ایران عرب کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی۔ اس صورت میں ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہمارے لیے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
اب جبکہ عالمی افق پرایک نیا محاذ جنگ کھل چکا ہے، جس میں پاکستانی شمولیت کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔  اپنے حقوق کے لئے لڑنے والے حوثی قبائل کے خلاف یمنی صدر منصور ہادی کی درخواست پر یمن میں سعودی فوجی مداخلت اور خلیجی ریاستوں نے عالمی افق پراس تازہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس نئی محاذ جنگ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف سعودی عرب کے 100 جنگی ہوائی جہاز اور ڈیڑھ لاکھ فوجی اس میں شریک ہیں جبکہ خطے کے دیگر کئی ممالک سمیت پاکستان نے بھی اس جنگ میں شمولیت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پاکستان کے اس اظہار پر پاکستان کی سیاسی مذہبی شخصیات کا شدید رد عمل سامنے آیا ہے- ملت جعفریہ کے موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ایک عرصہ سے ہم ارباب اختیار کی توجہ مرکوز کروارہے ہیں کہ جنگجو بھجوانے کے سلسلے کو روکا جائے اورصورتحال کو سنبھالنے کیلئے کردار ادا کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یمن کی حالیہ کشیدہ صورتحال میں مصالحانہ کا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت مشرق وسطیٰ کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اگر ایسے حالات میں پاکستان نے مثبت کردار ادا نہ کیا تو اس کے اثرات ہماری ملکی داخلی سلامتی کیساتھ ساتھ خطے پر بھی پڑسکتے ہیں ۔ اس طرح  پیش آمدہ رد عمل کے پیش نظر دفتر خارجہ نے پیشگی بیان دے دیا کہ سعودی عرب نے پاکستانی مدد طلب کی ہے جسکا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
لیکن اندرسے کچھ اورکھچڑی پکتی ہوئی نظر آرہی ہے جو پاکستان کے گلوگیر ہوسکتی ہے کیوںکہ پاکستان کی مختلف سیاسی مذہبی جماعتوں کا شدید رد عمل کے ساتھ کہنا ہے کہ پہلے ہی ایک دہائی سے دہشت گردی کی جنگ میں ہم گردن تک دھنسے ہوئے تھے اور بمشکل تمام اب بتدریج باہر نکل رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ہمیشہ سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
پھر بھی ہمارے لئے خوش آئند بات ہے کہ مشرق وسطیٰ خصوصاً یمن کی حالیہ صورتحال پرسیاسی مذہبی شخصیات بالاخص قائد ملت جعفریہ کے ردعمل پراحتیاطی تدبیر اپناتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں اور وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا ہے کہ ان کے ملک نے یمن میں جاری تنازعے میں شریک ہونے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور اس نے صرف سعودی عرب کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کا وعدہ کیا ہے۔
امید واثق ہے کہ  پاکستانی حکمراں نہایت ہوشیاری کے ساتھ کسی دوسرے کے مفادات میں قربانی کا بکرا بننے کے بجائے اپنے مسائل پرکامل توجہ دیں گے-