• غاصب ریاست مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے علامہ عارف حسین واحدی
  • نوشکی قومی شاہراہ پہ مسافر بسوں پر حملہ افسوسناک ہے علامہ شبیر میثمی
  • قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی کی اپیل پر ملک بھر میں القدس ریلیوں کا انعقاد
  • قائد ملت کی اپیل پر جمعۃ الوداع یوم القدس کے عنوان سے منایا جائے گا علامہ شبیر میثمی
  • اسلام آبادپولیس کا عزاداروں پر شیلنگ،تشدد اور مقدمہ بلاجوازہے ، علامہ شبیر میثمی
  • رمضان المبارک 1445ھ کی مناسبت سے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا خصوصی پیغام
  • علامہ رمضان توقیر سے علامہ آصف حسینی کی ملاقات
  • علامہ عارف حسین واحدی سے علماء کے وفد کی ملاقات
  • حساس نوعیت کے فیصلے پر سپریم کورٹ مزیدوضاحت جاری کرے ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان
  • علامہ شبیر میثمی کی زیر صدارت یوم القد س کے انعقاد بارے مشاورتی اجلاس منعقد

تازه خبریں

تہمتِ تحریفِ قرآن اور مولانا شمس الحق افغانی کا جواب… ثاقب اکبر

ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک کے نائب مدیر اور دارالعلوم کے مدرس محترم اور ہمارے نہایت عزیز دوست جناب مولانا اسرار ابن مدنی نے گذشتہ دنوں ہمیں ہدیۃً دو کتابیں ارسال فرمائیں۔ ان میں سے ایک مولانا شمس الحق افغانی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’علوم القرآن‘‘ ہے۔ یہ ایک وقیع اور گراں قدر علمی کتاب ہے۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے طلاب کرام اور محققین کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مولانا افغانی مرحوم کی وسعت علمی اور عالی ظرفی کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ معلوم تھا اور بہت کچھ سن رکھا تھا۔ مولانا افغانی مرحوم جدید ذہن کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی سامنے رکھ کر علمی نکات بیان کیا کرتے تھے۔وہ ایک ٹھیٹھ حنفی دیوبندی عالم تھے اور اپنے اسلاف کے نظریات ہی کی تتبیت و تحکیم کے طرز عمل کو درست جانتے تھے۔ ’’علوم القرآن‘‘ میں انھوں نے مستشرقین کے اعتراضات کا بھی متعدد مقامات پر جواب دیا ہے۔ ان میں سے ان کا ایک یہ اعتراض ہے کہ شیعہ جومسلمانوں کا ایک بڑا مکتب فکر ہے قرآن میں تحریف کا قائل ہے، مولانا شمس الحق افغانی اس مقام پر مستشرقین کو مسکت جواب دیتے ہیں اور شیعوں پر لگائی جانے والی تہمت کی حقیقت کو طشت ازبام کردیتے ہیں۔ ہم چونکہ امت اسلامیہ میں اتحاد و وحدت کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے لیے غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری سمجھتے ہیں اس لیے محترم احباب کی خدمت میں مولانا افغانی کی کتاب کا مذکورہ حصہ نقل کررہے ہیں وہ ’’شیعہ اور تحریف قرآن‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں:
مستشرقین جب ہر طرح قرآن کی تحریف ثابت کرنے سے عاجز آ گئے تو بڑے زور شور سے یہ لکھ دیا کہ مسلمانوں کا بڑا فرقہ تحریف قرآن کا قائل ہے اور وہ شیعہ ہے اور اس انداز سے لکھا کہ گویا تحریف قرآن شیعوں کا مسلم عقیدہ ہے حالانکہ یہ بالکل غط ہے۔ شیعوں کا مذہب وہی ہے جو سنیوں کا ہے کہ قرآن مکمل طور پر محفوظ ہے اور اس میں ایک حرف کی کمی بیشی نہیں ہوئی جس کے لیے شیعوں کی متعدد کتابوں کے حوالجات پیش کرتا ہوں۔
۱۔ شیخ صدوق ابو جعفر محمد بن علی بابویہ رسالہ اعتقادیہ میں لکھتے ہیں:
ما بین الدفتین لیس باکثرمن ذلک ومن نسب الینا انہ اکثر فھو کاذب۔
جو کچھ قرآن کی ان دو جلدوں میں ہے قرآن اس سے زیادہ نہیں اور جس نے ہم کویہ منسوب کیا کہ وہ زیادہ ہے وہ جھوٹا ہے۔
۲۔ تفسیر مجمع البیان ابوالقاسم علی بن الحسین الموسوی میں ہے:
ان القرآن علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجموعاً مؤلفا علی ماھوالآن و ذکر ان من خالف من الامامیۃ والحشویۃ لا یعتبر بخلا فہم لانہم قبلوا الاخبار الضعیفۃ
قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمع ہوچکا تھا۔ جیسا کہ اب ہے۔ جو امامیہ اور حشویہ اس کے خلاف ہیں ان کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ انھوں نے ضعیف خبروں کو قبول کیا ہے۔
۳۔ سید مرتضیٰ شیعی لکھتے ہیں:
ان العلم بصحۃ القرآن کالعلم بالبلدان والوقائع الکبار۔
موجودہ قرآن کی صحت کا علم ایسا یقینی ہے جیسے مشہور شہروں کی موجودگی کا علم اور بڑے بڑے واقعات تاریخیہ کا علم
۴۔ قاضی نور اللہ الشوستری الشیعی مصائب النواصب میں لکھتے ہیں:
مانسب الی الشیعۃ الامامیۃ بوقوع التغیر فی القرآن لیس مماقال بہ جمھور الامامیۃ وانما قال بہ شرذ مۃ قلیلۃ منہم لا اعتدادبھم وقال الملا صادق فی شرح الکلینی مظھر القرآن بھذا الترتیب عند ظھور الامام الثانی عشر
جو بات امامیہ شیعوں کی طرف منسوب کی گئی ہے کہ وہ قرآن میں تغیر مانتے ہیں یہ جمہور امامیہ کا قول نہیں، بلکہ جھوٹے گروہ کا قول ہے جن کا اعتبار نہیں۔ ملا صادق شرح کلینی میں لکھتے ہیں کہ قرآن کو اسی ترتیب کے ساتھ بارہواں امام ظاہر فرما ویں گے۔
۵۔ محمد بن الحسن الحرالعاملی جو شیعہ امامیہ کے بڑے محدثین میں سے ہیں اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں جو انھوں نے کسی ہم عصر عالم کی رد میں لکھا ہے کہ:
’’ہر کسے تتبع اخبار تفحص تواریخ و آثار نمودہ بعلم یقینی میداند کہ قرآن در غایت درجہ تواتر بودہ وآلاف صحابہ ضبط و نقل کردہ و آں در عہد رسول اللہ مجموع و مولف بودہ۔‘‘
(ترجمہ) جس نے بھی اخبار و آثار تواریخ کی جستجو کی وہ یقیناً جانتا ہے کہ قرآن موجودہ انتہائی تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور ہزار ہا صحابہ نے اس کو نقل و ضبط کیا ہے اور وہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں جمع ہو چکا تھا۔
۶۔ فروع کافی کتاب الروضۃ ص ۷۵ میں حضرت علیؓ سے روایت ہے:
ھو کتاب کریم فضلہ وفصلہ وبینہ واوضحہ واعزہ و وحفظہ من ان یاتیہ الباطل بین یدیہ
قرآن معزز کتاب ہے۔ جس کو اللہ نے فضیلت اور بزرگی بخشی ہے اور اس کو باطل کی آمیزش سے محفوظ کیا ہے ۔
۷۔ شیخ صدوق رسالہ عقائد میں لکھتے ہیں:
القرآن المنزل وما بایدی الناس واحد لا زیادۃ فیہ ولا نقصان
نازل شدہ قرآن اور جو قرآن لوگوں کے ہاتھ میں ہے ایک ہے جس میں کمی بیشی نہیں۔
ان مستند حوالجات شیعہ کے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ شیعہ میں چند ناقابل اعتبار افراد کے سوا کوئی بھی تحریف یا قرآن میں کمی بیشی ہونے کا قائل نہیں۔ مزید تفصیل نعمان آلوسی کی کتاب الجواب الفسیح لمالفقہ عبدالمسیح میں ملاحظہ کی جائے۔ قرآن حکیم تحریری اور دماغی دونوں طرح محفوظ ہے اور الفاظ قرآن اور مطالب قرآن دونوں معجزہ ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:افغانی، شمس الحق: علوم القرآن(لاہور، المیزان، ناشران و تاجران کتب، 2015ء)ص 134تا136