تازه خبریں

اصلی دشمن غیرملکی جاسوسی ادارے اوروہ لوگ ہیں جو تکفیری وہابیوں کو شیعوں کے خلاف اکساتے ہیں اوران کو ہتھیارفراہم کرتے ہیں

  جعفریہ پریس – بانی انقلاب اور رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کی پچیسویں برسی کے موقع پر عوام کے ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی شریعت اور جمہوریت، امام خمینی (رہ) کی سوچ کے دو اصلی ستون ہیں اور ایرانی قوم اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے حضرت امام خمینی (رہ) کے قابل فخر راستے پر گامزن رہےگی۔
ایرانی خبررساں ایجنسی ذرائع کے مطابق بانی انقلاب اور رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کی پچیسویں برسی کے موقع پر ملک بھر سے لاکھوں عاشق اور زائرین نے حضرت امام خمینی (رہ) کی دربار پر حاضر ہوکر استقامت، پائداری،انقلاب اور بانی انقلاب کے ساتھ عشق و محبت کے شاندار اور بے مثال جلوے پیش کئے اور اپنے مرحوم پیشوا کے ساتھ  دوبارہ تجدید عہد کیا اس موقع پرقائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت ، ترقی، طاقت اور قدرت کے بارے میں اقوام عالم کے روزافزوں شوق و اشتیاق اور جستجو کی تشریح ، علل و اسباب ، اسلامی شریعت  اور اس  شریعت کی بنیاد پرجمہوریت کے قیام کو حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب کے دو ستون قراردیا اور حضرت امام خمینی (رہ) کے اس سیاسی اور نئے مدنی نسخہ کے بارے میں ایرانی عوام اور حکام کی وفاداری پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ کی تخریب کاریاں اور رکاوٹیں، اور حضرت امام خمینی (رہ) کی تحریک کی اہمیت کا کمرنگ ہونا ، درحقیقت دو بڑے اور بنیادی چیلنج ہیں جن کی شناخت کرکے ایرانی قوم حضرت امام خمینی (رہ) کے مایہ نازاور سعادت بخش راستے پر گامزن رہےگی۔انہوں نے اقوام عالم بالخصوص مسلمان قوموں کے افکار و اذہان میں حضرت امام خمینی(رہ) اور اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں  روزافزوں محبت ، الفت اورجاذبہ کو ایک اہم حقیقت قراردیتے ہوئے فرمایا کہ رہبر کبیر انقلاب اسلامی کی رحلت کے 25 برس بعد بھی عوام کےمختلف طبقات بالخصوص جوان اور عالم اسلام کے دانشورحضرات ، شوق و اشتاق کے ساتھ  اسلامی جمہوریت، نظریہ ولایت فقیہ اور انقلاب  کے دوسرے مسائل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے مشتاق ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دشمنوں کی پیہم  وسیع تبلیغاتی اور سیاسی یلغار کو انقلاب اسلامی کے بارے میں قوموں کی مزید تحقیق و جستجو کا ایک اور عامل قراردیتے ہوئے فرمایا کہ عالم اسلام کی رائے عامہ پہلے سے کہیں زیادہ انقلاب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی مشتاق ہے تاکہ وہ اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکیں کہ اس حکومت پر پیہم اور مسلسل یلغار کی اصل وجہ کیا ہے اور اس کی استقامت و پائداری اور کامیابیوں کی رمز اور راز کیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری اور سامراجی طاقتوں کے خلاف عوامی احساسات اور جذبات کو انقلاب کے بارے میں قوموں کے ادراک ، جستجو اور تحقیق کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا کہ سامراجی محاذ اسٹراٹیجک غلطی میں یہ تصور کرتا ہے کہ اس نے اسلامی بیداری کی جڑیں اکھاڑدی ہیں لیکن وہ فہم و ادراک جو اسلامی بیداری کا سبب بنا وہ ختم ہونے والا نہیں اور یہ رجحان جلد یا بدیر عالم اسلام میں پھیل کررہےگا۔
ایرانی قوم کی لگاتار اور پیہم ترقیات کو اسلامی جمہوریت کے بارے میں دیگر اقوام کی تحقیق اور جستجو کی ایک اور دلیل قراردیتے ہوئے فرمایا کہ عالم اسلام کی جوان نسل اس تاریخی اور اہم سوال کے جواب کی تلاش میں ہے کہ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں، دشمنوں کی سیاسی ،فوجی اور تبلیغاتی عداوتوں اور سازشوں کے مقابلہ میں اسلامی نظام نے 35 سال تک کیسے استقامت و پائداری کا مظاہرہ کیا اور کیسے تنگ نظری و قدامت پرستی کے بغیر روز بروز ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے اور قدرتمند اور طاقتور بن گیا ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی جذابیت اور محبت کے مزید علل و اسباب کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان قومیں اور عالم اسلام کےدانشور،  تعلیم یافتہ افراد اور جوان ، ایرانی قوم کی فضائی ترقیات کو مشاہدہ کررہے ہیں، سائنسی اور ٹیکنالوجی میدان میں ایران کی پیشرفت ، دنیا کے پہلے دس ممالک کی فہرست میں شمولیت اورعالمی اوسط پیشرفت کی نسبت ایران کی 13 برابر سرعت و پیشرفت کو ملاحظہ کررہے ہیں اور اس بات کو بھی اچھی طرح درک کررہے ہیں کہ علاقائی پالیسیوں میں  ایرانی قوم کی بات حرف اول کی حیثیت رکھتی ہے اور دیکھ رہے ہیں کہ  اسلامی جمہوریہ ایران، اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت کے مد مقابل استقامت کا مظاہرہ کررہا ہے اور مظلوم کا دفاع اور ظالم کا مقابلہ کررہا ہے یہ حقائق ہر انسان کو اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں مزید جستجو اور تحقیق کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے گذشتہ 35 برسوں میں 32 انتخابات، اور ان میں عوام کی قابل تحسین اور حیرت انگیز شرکت، نیز 22 بہمن اور یوم قدس کی عظیم ریلیوں میں عوام کی ولولہ انگیز شرکت کو غیر ملکی افکار اور رائے عامہ کے لئے ایران کے دیگر جذاب حقائق قراردیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ایسے مسائل کی عادت ہوگئی ہےاور ان کی عظمت و اہمیت ہماری آنکھوں کے سامنے اجاگر نہیں  ہوتی لیکن یہ خوبصورت حقائق عالمی ناظرین اور دوسرے ممالک کی اقوام کے لئےسوال برانگیز اور حیران کن اور خيرہ کنندہ ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہدف اور مقصد تک پہنچنے کے لئے راستہ کو گم نہیں کرنا چاہیے اور اس راستہ پر آگے کی سمت صحیح طریقہ سےگامزن رہنے کے لئے اس عظیم معمار کے اصلی نقشہ کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی عقلانیت کی بنیاد پر سیاسی اور مدنی نظریہ کی بنا رکھنےکو حضرت امام خمینی (رہ) کا اصلی نقشہ قراردیتے ہوئے فرمایا کہ وابستہ ڈکٹیٹر اور فاسد شہنشاہیت نظام کا خاتمہ  در حقیقت ایک عظيم عمارت تعمیر کرنے کا مقدمہ تھا اور حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنی بلند ہمت اور قوم کے تعاون سے اس عظيم کام کو حسن و خوابی کے ساتھ انجام دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے مد نظر سیاسی و مدنی نظام کے اصلی ستونوں کی تشریح میں دو باہم منسلک اساسی نکتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلا نکتہ اسلامی جمہوریہ کی روح اور جوہر کے عنوان سے اسلامی شریعت اور دوسرا نکتہ جمہوریت اور انتخابات کے ذریعہ امور کو عوام کے سپرد کرنا ہے ، کسی کو یہ وہم و گمان نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے انتخابات کو مغربی ثقافت سے اخذ کیا اور پھر اسے اسلامی فکر کے ساتھ مخلوط کردیا کیونکہ اگر انتخابات اور جمہوریت،  اسلامی شریعت کے متن سے اخذ نہ ہوسکتی ، تو امام (رہ) اس بات کو واضح اور صریح طور پر بیان کردیتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کی  سوچ کی بنیاد پر اسلامی نظام کی ماہیت اور حقیقت کے عنوان سے اسلامی شریعت پر تمام امور، قانون سازی، پالیسی،عزل و نصب، عمومی رفتار اور دیگر مسائل میں کامل توجہ رہنی چاہیے اور اس کے ساتھ اس سیاسی اور مدنی نظم کی حرکت جمہوریت کی بنیاد پر ہے جو اسی شریعت کا مظہر اور اسی سے برخاستہ ہے،اور عوام بالواسطہ یا بلا واسطہ ملک کے تمام حکام کو انتخاب کرتے ہیں۔اسلامی شریعت کے کامل نفاذ کو 4 اصلی عناصر ” استقلال،آزادی، انصاف اور معنویت ” کی فراہمی کا سبب قراردیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی سعادت بخش شریعت پر عمل،مدنی اور فردی آزادی کے علاوہ سامراجی طاقتوں کی قید سے  قومی آزادی یعنی قومی استقلال کا سامان بھی فراہم کرتی ہے عدل و انصاف کو عملی جامہ پہناتی ہے اور معنویت کو ہمراہ لاتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایاکہ حضرت امام خمینی (رہ) کے مکتب میں  زور اور زبردستی اور ہتھیاروں کے ذریعہ غلبہ اور طاقت کا حصول قابل قبول نہیں ہے البتہ عوامی طاقت اور انتخاب کے ذریعہ حاصل ہونے والی قدرت و اقتدار محترم اور قابل قبول ہے اور کسی کو اس کے خلاف سینہ سپر نہیں کرنا چاہیے اگر کسی نے ایسا کام کیا تو اس کا یہ کام فتنہ کہلائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے سیاسی ادبیات میں حضرت امام خمینی (رہ) کے سیاسی و مدنی نسخہ کو تازہ باب قراردیا اور اس  نئے نسخے کے ایک دوسرے عنصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ امام خمینی (رہ) کے مکتب کا ایک اصلی عنصر مظلوم کی مدد و حمایت اور ظالم کے ساتھ مقابلہ ہے اسی سلسلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی طرف سے فلسطینی عوام کی مکمل ، مسلسل و پیہم حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ظالم کے مقابلے میں استقامت اور ظالموں کے کر و فر کو ختم کرنا ، امام خمینی (رہ) کی سوچ کی ایک اہم اصل ہے جس پر ایرانی قوم اور حکام کو ہمیشہ توجہ رکھنی چاہیے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے اہداف اور اصولوں پر قوم کی وفاداری کو قابل تحسین قراردیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کی رحلت کے 25 سال بعد قوم نے جس حرکت کا مظاہرہ کیا اس سے اس جدول کے تمام خالی خانہ پر ہوجاتے ہیں اور امام (رہ) کی راہ پر گامزن رہنے کے سائے میں اور اللہ تعالی کے اذن سے ایرانی قوم طاقت اور قدرت کے اوج تک پہنچ جائے گي۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا امام خمینی(رہ) کی راہ پر گامزن رہنے اور ان کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں دوسرے مہم ہدف کی مانند ان کے اہداف کو بھی چیلنجوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے اگر ہم ان چيلنجوں اور رکاوٹوں کو نہیں ّہچانیں گے اور برطرف اور دور کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو اس راستہ پر گامزن رہنا دشوار یا غیر ممکن ہوجائے گا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی سلسلے میں اندرونی اور بیرونی دو چیلنجوں کو سب سے اہم چيلنج قراردیتے ہوئے فرمایا کہ غور و فکر کرنے والے  دانشوروں ، مفکرین ، ماہرین  اور جوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان چيلنجوں پر خصوصی توجہ دیں اور ان کا گہرائی کے ساتھ دقیق جائزہ لیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے بیرونی چيلنج کی تشریح میں عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے مزاحمت اور مقابلہ خاص طور پر امریکی تخریب کاری اور موانع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ البتہ بعض مغربی مفکرین نے کہا ہے کہ یہ رکاوٹیں اور مزاحمتیں بے فائدہ اور غیر مفید ہیں لیکن امریکہ اسی طرح اپنے اس بڑے  نقشہ کے نفاذ کے سلسلے میں اپنی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔امریکیوں نے دیگر ممالک ، سیاسی جماعتوں و شخصیات کو تین گروپوں ، کلی طور پر امریکہ کے پیروکار اور اس کےسامنے سر تسلیم خم کرنے والےممالک و جماعتوں ، ایسے ممالک اور جماعتوں جن کے ساتھ فی الحال رواداری اور مدارا کی ضرورت ہے اور نافرمان ممالک اور جماعتوں میں تقسیم کررکھا ہے۔امریکہ ایسے ممالک  کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ان کی غلط اور غیر انسانی رفتار کی عالمی سطح پر توجیہ کرتا  ہے جو کلی طور پر اس کے تابع اور  سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔ البتہ اس حمایت کے بدلے میں امریکی اپنے مفادات میں ان کا دودھ نکال لیتے ہیں۔امریکہ کی ہمہ گير حمایت والی  بعض رجعت پسند اور استبدادی حکومتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ ایسے ممالک کو ڈکٹیٹر نہیں بلکہ بادشاہ اور شیخ ممالک قراردیتا ہے جہاں نہ انتخابات ہوتے ہیں اور نہ ہی وہاں کی قوموں کو بات کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالمی  ممالک کی امریکی تقسیم بندی میں دوسرے گروپ میں ایسے ممالک کو قراردیا کہ جن کے ساتھ امریکہ مشترکہ مفادات کی بنا پر فی الحال رواداری رکھے ہوئے ہے لیکن اگر اسے موقع مل جائے تو ان کے قلب میں خنجر گھونپنے سے گریز نہیں کرےگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے یورپی ممالک کو دوسری قسم کے ممالک میں شمار کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکام  یورپی ممالک کے ساتھ  اپنے مفادات کے حصول میں رواداری کے باوجود یورپی حکام اور یورپی شہریوں کی نجی زندگی کے بارے میں جاسوسی کرتے ہیں اور حتی معافی ماںگنے کے لئے بھی حاضر نہیں ہیں۔امریکی مفادات کی خدمت کے سلسلے میں یورپی ممالک نے اسٹراٹیجک غلطی اور اشتباہ کا ارتکاب کیا ہے جو ان کے قومی مفادات کے بالکل خلاف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تیسرے گروپ میں ان ممالک کو قراردیا جو امریکہ کی منہ زوری کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے اور امریکہ کے نافرمان ہیں۔ ان ممالک کے بارے میں امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ ان پر کاری ضرب وارد کی جائے اور بغیر کسی محدودیت کے تمام وسائل سے استفادہ کرکے انھیں ختم  اور نابودکردیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے واشنگٹن کو باج اور ٹیکس ادا نہ کرنے والے ممالک کے ساتھ امریکہ کے مقابلے کی روش کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کے نقصانات اور خسارات کے پیش نظر اب دوسرے ممالک پر فوجی یلغار امریکی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نافرمان ممالک کے بارے میں  امریکہ کی سب سے اہم حکمت عملی کو ان ممالک میں امریکہ سےوابستہ عناصر سے استفادہ کو قراردیتے ہوئے فرمایاکہ فوجی کودتا کی راہ فراہم کرنا یا عوام کو مظاہروں پر اکسانا وابستہ عناصر سے استفادہ کے لئے امریکہ کی اہم حکمت عملی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کسی بھی ملک میں جو حکومت بھی اکثریت آراء  کے ساتھ اقتدار میں پہنچتی ہے کچھ اقلیت اس کے خلاف بھی ہوتی ہے امریکہ اسی اقلیت سے استفادہ کرتا ہے اور مخالفین کے اصلی عناصر کو اکسانے اور تحریک کرنے کے ساتھ  عوام کے بعض طبقات کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کرتاہے۔ اس کا واضح نمونہ آج بعض یورپی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے البتہ ہم اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے لیکن امریکی سینیٹر ۔ اعتراض کرنے والے یورپی مظاہرین کے درمیان حقیقت میں کیا کام انجام دیتے ہیں۔؟
قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے والے ممالک کا مقابلے کرنےکے لئے دہشت گردوں سے امریکی استفادہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا کہ امریکہ ان ممالک کے خلاف دہشت گردوں سے استفادہ کرتا ہے جو اس کے سامنے سرخم نہیں کرتے ہیں۔عراق، افغانستان،بعض عرب ممالک اور ایران کے خلاف امریکہ اس روش سے استفادہ کررہا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ کی جانب سے دہشت گرد گروہ کی حمایت اور امریکی اداروں  منجملہ کانگریس کے ساتھ اس دہشت گرد گروہ کے رابطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ منافقین کو آج امریکہ کی بھر پور حمایت حاصل ہے جنھوں نے ایرانی دانشوروں، سائنسدانوں، علماء  اور سیاسی و ثقافتی شخصیات کو بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ قتل کیا ۔
قائد انقلاب اسلامی نے مستقل ممالک اور امریکہ کو ٹیکس اور باج نہ دینے والے ممالک کے بارے میں امریکہ کے دیگر طریقوں میں وہاں کےحکام کے درمیان اختلاف اور دوگانگي پیدا کرنے اور عوام کے ایمانی اور اعتقادی اصولوں میں انحراف ایجاد کرنے کو قراردیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے امریکیوں کو ایرانی قوم کے مقابلے میں ان تمام میدانوں میں شکست و ناکامی نصیب ہوئی ہے اور ایرانی قوم کے ایمان اور اس کی بیداری کی وجہ سے فوجی کودتا،فتنہ پروروں کی حمایت، بعض افراد کو سڑکوں پر لانے  اور حکام کے درمیان اختلافات ڈالنے میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےبیرونی چيلنجوں کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کے بعد اسلامی نظام کو در پیش اندرونی چيلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ چيلنج اور بڑے خطرے ایسے وقت رونما ہوں گے جب قوم اور حکام حضرت امام خمینی (رہ) کی تحریک کی جہات و اہداف کو نظر انداز کردیں اور انھیں بھول جائیں ۔ اسی سلسلے میں دوست اور دشمن کی پہچان و تشخیص اور اصلی و فرعی دشمن کی پہچان میں ناتوانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ سب کو اس بات پر توجہ مبذول کرنی چاہیے اور مختلف حوادث میں اصلی دشمن کی پہچان میں غفلت اور سستی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی اصلی اور فرعی بحث کے سلسلے میں ایک مصداق کے عنوان سے شیعوں کے خلاف جاہل و نادان وہابی تکفیری گروہ کے وحشیانہ جرائم اور اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سب کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے اصلی دشمن غیر ملکی جاسوسی ادارے اور وہ لوگ ہیں جو تکفیری وہابیوں کو شیعوں کے خلاف اکساتے ہیں اور ان کو ہتھیار اور مالی وسائل فراہم کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایاکہ جو اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کرنےکی فکر کرے گا اسے ایرانی قوم کی مضبوط اور مستحکم مشت کا سامنا کرنا پڑےگا اور اصلی دشمن وہ ہےجو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتا اور انھیں آپس میں لڑاتا ہے وہابی تکفیری گروہ تو فریب خوردہ گروہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی اتحاد و انسجام پر عدم توجہ،سستی اور کاہلی کا شکار ہونے، کام پر عدم توجہ، ناامیدی اور مایوسی کے حکمفرما ہونے نیز ” ہم نہیں کرسکتے” اور ” ہم نہیں کرسکے ” کے غلط تصور کو اسلامی نظام کے دیگر اندرونی چیلنج قراردیتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا ہم کام انجام دے سکتے ہیں اور قومی عزم اور جہادی مدیریت کے ذریعہ ہم در پیش مشکلات کو حل اور انھیں  برطرف کرسکتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کا اسم مبارک اور اس عظیم معمار کا نقش راہ ، اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی قوم کی تمام مراحل میں مدد اور نصرت کرے گا اور امید ، نشاط اور جوش و ولولہ کے ذریعہ ایران کا مستقبل روشن و تابناک رہےگا۔