تازه خبریں

امام کی اکتیسویں برسی کا دن ان کے افکار اور نظریات سے آشنائی کا دن ہے۔مولانا علی امداد گھلو

امام کی اکتیسویں برسی کا دن ان کے افکار اور نظریات سے آشنائی کا دن ہے۔مولانا علی امداد گھلو

امام خمینی(رح) کی رحلت کے موقع پر ان کی جانشینی کے سلسلہ میں انقلاب اسلامی کے ذمہ داروں نے آیت اللہ خامنہ ای کا انتخاب کر کے دشمنانِ انقلاب کو ایسے مایوس کر دیا جیسے اعلانِ غدیر کے موقع پر علی بن ابی طالب(ع) کی جانشینی سے دشمنانِ اسلام مایوس ہوئے تھے۔امدادعلی گھلو
علی پور(مظفرگڑھ): شیعہ علما کونسل، جعفریہ یوتھ، جے ایس او گھلواں کے زیر اہتمام آستانہ حضرت عباس علمدارؑ گھلواں میں امام خمینی(رح) کی اکتیسویں برسی کا انعقاد کیا گیا۔ شرکاء برسی سے خطاب کرتے ہوئے مولانا امداد علی گھلو نے کہا امام کی اکتیسویں برسی کا دن ان کے افکار اور نظریات سے آشنائی کا دن ہے۔ امام خمینی ایک آفاقی شخصیت تھے انہیں بارڈرز کی حد بندیاں محدود نہیں کر سکتیں۔ آپ ایک عہد ساز و تاریخ ساز شخصیت تھے۔ رضا شاہ پہلوی کا تختہ آپ نے گفتار سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے الٹا۔ امام خمینی تین اصولوں پر یقین رکھتے تھے، خدا پر یقین، عوام پر یقین اور خود اعتمادی یعنی اپنی توانائیوں پر یقین۔ امام خمینی نے طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ خدائی طاقت کے بھروسے پر کر کے طاقت کا انداز بدل دیا۔ جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے عنوان سے منانے کا آپ نے اعلان کیا۔
امداد گھلو کا کہنا تھا کہ امام خمینی کا وحدت کے لئے دو ٹوک موقف تھا آپ واضح فرماتے تھے کہ حقیقی اسلام کے پیروکار وحدت کے لئے کوشاں رہتے ہیں، جبکہ امریکی اسلام کے پیروکار انتشار اور تفرقے پر یقین رکھتے ہیں۔
مولانا نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ امام نہ صرف اتحاد بین المسملین کے عظیم داعی تھے بلکہ اتحاد بین المومنین کے شدت سے خواہاں تھے، امام شیعوں میں دوئیت نہیں دیکھنا چاہتے تھے تمام مومنین کو ید واحدہ دیکھنا چاہتے تھے۔
مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی کی جانب سے شائع شدہ کتاب سخن بیداری کے صفحہ 34 اور 38 کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آیت اللہ حائری اور آیت اللہ بروجردی کے ساتھ بعض امور میں اختلاف رائے رکھنے کے باوجود امام خمینی ان دونوں بزرگوں کی قیادت کے دور میں مرجعیت کے شدید ترین حامی کی حیثیت سے ان کا ساتھ دیتے رہے۔ نیز آیت اللہ بروجردی کی قم آمد کے بعد امام خمینی نے جو خود اس وقت حوزہ علمیہ قم کے نامور مجتہدین اور اساتذہ میں شمار ہوتے تھے آیت اللہ بروجردی کی قیادت اور مرجعیت کو مستحکم کرنے لئے کوششیں جاری رکھیں۔ امام کے شاگردوں کے مطابق اس مقصد کی تکمیل کے لئے آپ آیت اللہ بروجردی کے دروس فقہ اور اصول فقہ میں شرکت فرماتے تھے۔
امداد علی گھلو نے امام خمینی کے مذکورہ کردار کی روشنی میں تبصرۃً کہا کہ پاکستان میں قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد علی نقوی جو امام خمینی اور موجودہ رہبر کے نمائندے ہیں سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے سلائق اور ان سے جدا ہونے والوں کے کردار بھی قابلِ غور ہیں۔
مولانا قاری قربان حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مکتب تشیع کو مٹانے والے خود مٹ گئے لیکن تشیع نہ مٹ سکی۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں امام زمانہ کی تائید و رضایت حاصل تھی۔ آخر میں انہوں نے آلِ نبی کے مصائب بیان کئے۔
پروگرام کے شروع میں امام خمینی کے بلندی درجات کے لئے قرآنی خوانی کے ذریعہ ہدیہ پیش کیا گیا۔ مملکت پاکستان کی تعمیر و ترقی، مکتب تشیع کی سر بلندی نیز کورونا وائرس سے نجات پانے کے لئے سید آغا حسن کاظمی نے دعا کرائی۔ برسی کی مناسبت سے جن مومنین نے جس حوالے سے بھی تعاون کیا ان کی توفیقات خیر اور ان کے مرحومین کی بخشش کی بھی دعا کی گئی۔ آخر میں تنظیمی احباب نے شرکاء برسی کا بھی شکریہ ادا کیا۔
مخفی نہ رہے کہ پروگرام کا انعقاد حکومتی ایس او پیز کے تحت کیا گیا۔ سنیٹائزر، ماسک کا اہتمام اور سماجی فاصلے کی رعایت کی گئی۔