تحریر: ساجد حسین ساجد
اپنے پہلے آرٹیکل کو میں نے اپنی طرف سے مکمل کر دیا تھا مگر بعض محترم قارئین کے اعتراض کے بعد قلم اٹھا نے اور حقائق کو مزید واضح کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے ۔ میں نے یہ آرٹیکل کسی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرنے کی غرض سے نہیں لکھا اور نہ ہی یہ آرٹیکل کسی خاص پس منظر میں لکھا گیا ہےاگر میرے محترم قارئین انصاف کی نگاہ سے دیکھیں تو اس آرٹیکل کے دوران میری غیر جانبداری واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ داعش کا مسئلہ کیونکہ ایک مشترکہ اور عالم اسلام کا مسئلہ ہے اس لئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کچھ حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرامقصد کسی بھی مکتبہ فکر کی دل آزاری نہیں ہے پھر بھی اگر کسی شخص، مکتبہ فکریا کسی گروہ کی دل آزاری ہوتی ہےتو میں اس کیلئے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ زیر نظر آرٹیکل میں کچھ تاریخی اور زمینی حقائق بیان کئے گئے ہیں امید کرتا ہوں میرے محترم قارئین حقائق کو قبول فرمائیں گے اور اس آرٹیکل کے بعد اپنی قیمتی آراء سے نوازیں گے۔
مجھے اس موقع پر حکیم الامت علامہ اقبال سے منسوب ایک شعر نقل کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔
توحید ہستی ہم ہیں واحد خدا ہمارا
ہم ہیں کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا
اب میرے محترم قارئین اس شعر کے بعد میرے کافر ہونے کا فتوی صادر نہ فرما دیں کیونکہ یہ شعر ایک شاہکارہے اور اس کو سمجھنے کیلئے صرف کافر کے معنی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کافر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے انکار کرنے والا ۔ اور اسی مناسبت سے کافروں کا نام پڑا کہ وہ خدا کی وحدانیت کا انکار کرتے ہیں، اس شعر کے دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کے انکار کی وجہ سے نہ ہی ہمارا ان سے کوئی تعلق اور نہ ہی خداوند ذوالجلال کا ان سے کوئی تعلق ہے۔
آج پوری دنیا میں ایک تماشا دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ کہ کچھ لوگ ہاتھوں میں اسلحہ لہراتے ہوئے،بے بس نہتے مردوں،عورتوں اور بچوں کو کہ جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کیمرے کے سامنے لاتے ہیں اور بڑے اطمینان کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں اور مرتد ہو گئے ہیں اس کے بعد قرآن مجید کی آیات کو بطور دلیل تلاوت کیا جاتا ہے پھر اللہ اکبر کی صداؤں میں بڑے اطمینان سے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ان سب قیدیوں کے گلے کاٹ دیئے جاتے ہیں یا ان کے سروں میں گولیاں اتار کر راہی راہ عدم کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد فضا اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھتی ہے۔ اگران مرنے والے افراد کی لسٹ تیارکی جائے تو ان میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد پائے جائیں گے۔ ان افراد میں سنی، شیعہ، دیوبندی، شافعی اور حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ اگرغور سے ان وڈیوز کا مشاہدہ کیا جائے تو مارنے والے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کر رہے ہیں جبکہ مرنے والے بھی اپنی زبان پر کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے ہوتے ہیں۔ اب اسلامی تعلیمات کو دیکھا جائے تو جس شخص کو بھی مرتے وقت کلمہ طیبہ نصیب ہو جائے اس کے اسلام کو کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
کون مسلمان ہے؟ اسلام کا معیار کیا ہے؟ وہ کون سی چیزیں ہیں جن کا انکار انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے؟ آج پوری دنیا کےعلماء، مفکرین اور مفتیوں پر اس بات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مل کر ایک کلی قانون وضع کریں کہ جس پرعمل پیرا ہونے کے بعد انسان مسلمان کے حکم میں آ جائے اور اسکی جان ، مال ،عزت و ناموس محفوظ تصور ہو کیونکہ ایک بہت ہی مشہور اور ہر شخص کو حفظ حدیث کہ جو سکولوں کی کتابوں تک میں ذکر ہوئی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: المسلم من سلم المسلم من یدہ و لسانه؛ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلام نے تو کافروں کو بھی امن کی ذمہ داری دی ہے کیا آنحضرت ﷺکی حیات مبارکہ میں مدینہ میں کوئی کافر نہیں رہتا تھا؟
کیا اسلامی حکومت کی سرحدوں میں کافروں کی جان، مال اور ناموس کو مسلمان حلال سمجھتے تھے؟ کیا خلفاءراشدین رضوان اللہ علیہم کے دور میں کسی کافر کو ناحق قتل کیا گیا ؟کیا کسی کافر کا مال لوٹا گیا؟ نہیں تاریخ کے اوراق پلٹا کر دیکھئے ان تمام ادوار میں کسی ایک شخص پر بھی ظلم نہیں ہوا۔ بلکہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں جب اسلام کی فتوحات کا دائرہ اپنی وسعت کو پہنچ گیا تب بھی کسی کافر یا کسی بھی شخص کو ناحق قتل نہیں کیا گیا ، کسی کا مال و اسباب لوٹا نہیں گیا۔ توسوال یہ ہے کہ آج کے مسلمانوں نے دوسرے مسلمانوں کا خون اپنے اوپرکس آیت،کس روایت کی بناء پر حلال کر لیا ہے؟ کس اسلامی حکم کے تحت خواتین کی عزتیں تار تار کی جارہی ہیں؟ کس شرعی قانون پرعمل کرتے ہوئے مسلمان عورتیں کو لونڈیاں بنایا جا رہا ہے؟ کس مذہب کی پیروی کرتے ہوئے نکاح دار خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کیا جا رہا ہے؟ اسلام کے کسی بھی مذہب (فرقہ) میں کسی کے مال کو لوٹنا ، کسی عورت کی ناموس کا جنازہ نکالنا، کسی بھی خاتون کو لونڈی بنانا ، کسی بھی نکاح والی عورت سے نکاح کرنا اور کسی بھی کنواری یا شادی شدہ عورت سے زنا کرنا جائز نہیں ہے۔ دعوے سے کہہ رہا ہوں تمام مذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے حتی کہ اسلامی ممالک میں بسنے والے تمام غیر مسلم بھی اسلام کی رو سے اس ملک میں محفوظ ہیں اور حکومت کی ذمہ داری ہے انکی جان ،مال و آبرو کی حفاظت کرے اور کسی بھی مسلمان کو اسلام کی رو سےحق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان غیر مسلموں پر کسی بھی قسم کا ظلم کرے۔ کیونکہ خدا وند کریم نے قرآن مجید میں ظلم کرنے والوں پر کھلم کھلا لعنت فرمائی ہے۔
میری ناقص اطلاعات کے مطابق تمام اسلامی مذاہب اور قرآن و سنت کی دی گئی تعلیمات کے مطابق جو شخص مسلمان ہے اس کیلئے درج ذیل لسانی اقرار ضروری ہیں۔
۱۔ اللہ کی وحدانیّت کا اقرار۔ لا إلہ الا اللہ
۲۔ حضرت محمدﷺ کی رسالت کا اقرار۔ محمدٌ رسولُ اللہ
۳۔ نبی اکرم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا اقرار۔ خاتم النبیین ، کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا آپ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔
۴۔قرآن اللہ تعالی کی کتاب ہے۔
۵۔ قیامت،جنت اور جنہم کا اقرار۔
اگر کوئی شخص علی الاعلان ان باتوں کا اقرار کرتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اس کا مال ،جان، عزت و ناموس محفوظ ہیں اور اسلامی ریاست میں کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کو کافر قرار دے کر اس کی جان و مال کے درپے ہو۔
ہمارے معاشرے میں کسی کو کافر قرار دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے، کبھی پیغمبر ﷺ پر درود بھیجنے سے انسان کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے۔ فرمان ہوا ہے : ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھاالذین آمنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیما۔کبھی روضہ رسول ﷺ کی جالی مبارک کو بوسہ دینے سے انسان پر شرک کا حکم نافذ کر دیا جاتا ہے، آج ایک طرف تو سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے جوتے کروڑوں ڈالر میں فروخت ہو رہے ہیں کہ یہ اس کی معمولی سی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے جبکہ پوری کائنات کیلئے رحمت بن کر آنے والی پاک و مقدس ہستی کہ روز اول کائنات سے لے کر رہتی دنیا تک جن کا کوئی ثانی نہیں ہے، وہ نبی کہ اللہ نے جن کو شفاعت کا حق عطا فرمایا ہے اور باقی تمام انبیاء کو ان کا امتی قرار دیا ہے، وہ نبی کہ جن کے بعد اللہ نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے ، وہ نبی کہ جن کی فضیلت آج تک کوئی بھی انسان لکھ نہیں پایا ، ایسی ہستی کہ جن کے فضائل اگر تمام انسان لکھتے رہیں اور دنیا ختم ہو جائے تب بھی انکی فضیلت بیان کرنے کا حق ادا نہ ہو، وہ ہستی کہ جن کی عظمت اور فضیلت کا اندازہ سوائے خداوند متعال کی ذات کے کسی کو نہیں ہے۔ ایسی ہستی سے منسوب ہر چیز کو مسمار کیا جا رہا ہےتا کہ شرک کی روک تھام کر کے اسلام کی خدمت کی جا سکے۔ تمام تعصبات سے با لا تر ہو کر سوچئے کہ آیا اسلام کی تعلیمات یہی ہیں؟اسلام کے کسی بھی فرقے میں نبی کریم ﷺ سے کسی بھی چیز کی توہین کی اجازت نہیں دی گئی۔ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایّام میں صحابہ کرام ، پیغمبر گرامی ﷺ سے منسوب ہر چیز کو اٹھا کر سینے سے لگا کر تبرک کے طور اپنے پاس رکھ لیتے تھے حتی کہ آپ ﷺ کے وضو کا پانی بھی تبرک کے طور پر اپنے جسم اور چہرے پر مل لیتے تھے،آ ج اسی ہستی کے روضے مبارک کی جالی ہاتھ لگانے پر تازیانے لئے سپاہی سزا دینے کو تیار کھڑے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں مسلمانوں کو کافر قرار دینا اور بھی آسان ہے مثلاً کسی کے بارے یہ کہہ دینا کہ یہ لوگ صحابہ کو نہیں مانتے، اور جب انہی لوگوں سے پوچھا جائے کہ واقعی آپ صحابہ کو نہیں مانتے تو وہ اس دعوے کو رد کر دیتے ہیں اور صحابہ سے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنے کیلئے ہمیں صحابہ کے مزارات کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ کیا حضرت علی علیہ السلام ، حضرت حسین علیہ السلام ،حضرت میثم تمارؓ، حضرت حبیب ابن مظاہرؓ صحابہ نہیں ہیں ؟ اگر وہ صحابی ہیں تو ان کے یہ عالی شان مزارات کس بات کی گواہی دیتے ہیں؟ صحابہ دشمنی کی یا صحابہ سے عقیدت کی؟
لیکن صحابہ بھی سب کے سب حق پر نہیں ہیں بلکہ ان میں وہ صحابہ بھی موجود ہیں جن کے بارے میں قرآنی نص موجود ہے کہ وہ منافق تھے جبکہ ہم لوگ اصحاب رسولؓ اور امھات المومنینؓ کی عزت کے قائل ہیں۔ آج تک کسی بھی شخص نے یہ استدلال نہیں کیا کہ اگر کوئی آدمی کسی ایک صحابی کا انکار کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور نہ ہی اس مطلب پر کوئی قرآنی یا حدیثی نص پیش کی ہے کہ جس سے ثابت ہو کہ کسی ایک صحابی کے انکار سے آدمی کافر ہو جائے۔ جب کہ قرآنی،حدیثی اور تاریخی حقائق اس مطلب کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں سورہ منافقون میں اس بات پرگواہی موجود ہے کہ رسول خدا کے کچھ اصحاب جو کہ کلمہ بھی پڑھتے تھے ، منافق تھے۔ اس کے علاوہ بھی قرآن میں کئی مقامات پر ان افراد کی مذمت کی گئی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو رسول کو جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے چھوڑ کر تماشا دیکھنے چلے جاتے تھے۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر ، خلیفہ دوم حضرت عمر کے صاحب زادے نے حضرت علی علیہ السلام کے ظاہری خلیفہ بننے پر ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور اسی معاشرے میں زندگی بھی گزارتے رہے مگر ان کے خلاف کسی نے جنگ کی اور نہ ہی کسی نے ان کو کافر قرار دے قتل کرنے کا سوچا۔ خود خلفاء راشدین کےدور میں لوگ ان کے خلیفہ ہونے کا انکار کر کے زندہ رہ سکتے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کو کافر قرار دے کر ان کے قتل کا حکم دینے والے ؟
باقی رہی داعش کی بات اور ان کا خود ساختہ اسلام تو وہ ہر ایک صاحب انصاف پر عیاں ہے کہ ان کا اسلام کس حد تک ہے اور وہ کس کاز کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ان کے خود ساختہ اسلام اور اسلامی قوانین کے بارے میں اکثر و بیشتر خبروں میں پڑھتے ہی رہتے ہیں-
برادران اسلام داعش کا اسلام سے اور اہل سنت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں یہ لوگ انبیاء اور صحابہ کے مزارات کو گرا چکے ہیں یہ سنی قبائل کا قتل عام کر چکے ہیں انہوں نے کس کا قتل عام نہیں کیا ؟ عیسائی ،ایزدی غیر مسلم غرض ہر کوئی ان سے تنگ ہے یہ یہود و نصاری کا لگایا ہوا پودا ہے جو اسلام کو بدنام کر رہا ہے۔ اسلامی قوانین کو ان کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مشرق و مغرب کے مسلمان پریشان ہیں کہ یہ کونسا مذہب ہے جسے یہ پیش کر رہے ہیں اس لیے ہوشیار رہیے اس فتنہ کا واحد حل صرف اور صرف امت مسلمہ کے اتحاد میں مضمر ہے کچھ ممالک اس فتنہ کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں اب وہ اس آگ کو وطن عزیز میں بھی لگانا چاہتے ہیں اس کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی ہے اس لیے ہمیں ہر قدم انتہائی سوچ سمجھ کر اور حکمت کے ساتھ اٹھانا ہوگا جذبات کی بجائے عقل سے فیصلے کرنے ہوں گے اگر کسی کو محسوس ہو بھی کہ کسی فریق مخالف نے کچھ زیادتی کی ہے تو بڑے مقصد کے لیے اسے نظر انداز کر دیں تاکہ دشمنان اسلام و مسلمین کی سازشیں بے نقاب ہوں اور پرچم اسلام سر بلند ہو انشاءاللہ۔