تازه خبریں

داعش ۔ شراربُولہبی پروفیسر مظہر حسین ہاشمی

دُنیامیں باطل ،تکفیری اورشیطانی قوتوں نے ہمیشہ ظلم وستم کابازارگرم رکھاہے۔اِن لادینی طاقتوں نے ہرزمانے اورہردورمیں اپنے مکروہ ایجنڈے کونافذکرنے اورشیطانی مفادات حاصل کرنے کیلئے کئی رُوپ دھارے ہیں ۔اِنسانیت پر جتنے بھی ظلم کے پہاڑٹوٹے ،تاریخ نے اپنے اوراق میں اُن کوسیاہ باب کے طورپر شامل کیاہے۔مشرقِ وسطیٰ اورجنوبی ایشیاء میں القاعدہ ،طالبان،لشکرجھنگوی وغیرہ پہلے ہی مسلمانوں کے نام پر کلنک کاٹیکہ تھے اور اسلام اورمسلمانوں کوبدنام کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی تھی لیکن حا لیہ عرصے میں سب سے زیادہ بربریت اورظلم وستم جس تکفیری گروہ نے مسلمانوں اوراقلیتوں پر کیاہے اِس میں \”داعش \”نے مختصرعرصے میں سب کوپیچھے چھوڑدیاہے۔داعش عربی زبان میں \”دعوتِ اسلامی فی العراق والشام\” کامختصرلفظ ہے جس کاسرغنہ ابوبکرالبغدادی ہے۔القاعدہ کے بانی لیڈر نعیم نبیل کے مطابق یہ القاعدہ کاسابق رکن ہے جو بظاہرکبھی امریکہ کومطلوب تھااورپھر2009ء میں گرفتارہوااور2012ء میں اِسے ابوغُریب جیل عراق سے استعماری ، سامراجی اورصیہونی مقاصدکی تکمیل کیلئے 30ملین ڈالراورخصوصی ٹاسک دے کر رہاکردیاگیا۔داعش نے 15دوسری اورتنظیموں کے ساتھ مل کرپہلے عراق اورپھر شام میں اپنی مذموم کارروائیاں شروع کردیں جس میں عراق میں اہل تشیع اوراُن کے مفادات کونقصان پہنچانا،شام میں بشارالاسد کی حکومت کوگرانااوردونوں ممالک کوتقسیم کرکے گریٹراسرائیل کے خواب کوشرمندہ تعبیرکرناشامل ہے۔اِس تکفیری گروہ میں بھرتی کیلئے دُنیاکے کونے کونے سے انتہاپسند اورسفاک سوچ کے حامل لوگوں کو50ممالک یعنی یورپی ممالک،عرب ممالک اورجنوبی ایشیاء سے شامل کرایاگیااوراُن افرادکی ملک اُردن اوراسرائیل میں عسکری تربیت کااہتمام کیاگیا۔
داعش کودنیابھرکی باغی ،انتہاپسنداورعسکری تنظیموں میں سب سے زیادہ مالدارگروہ کہاجارہاہے۔جس نے اپناآغاز30ملین ڈالرامریکی امدادسے شروع کیاپھرسعودی عرب، کویت اورقطرکے اَن گنت ریالوں اوردیناروں سے اِس کوتقویت دی گئی ۔سعودی عرب کی امدادکااندازہ اِس بات سے لگالیں کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف لبنانی حکومت کو3ارب ڈالردئیے گئے اورپاکستان کوخفیہ معاہدے کے تحت (30ہزارفوجی اورہتھیارکے بدلے میں) 3ارب ڈالردئیے گئے۔جن کی خاطر اتنی سرمایہ کاری کی جارہی ہے اُن کوکتناسرمایہ دیاجارہاہوگا۔کویت میں بھی تکفیری گروہوں کی مددکیلئے ایک وزیرکے برملاچندہ اکٹھاکرنے اوربرطرف ہونے کے شواہدموجودہیں۔قطربھی امریکہ کااتحادی ہے اورامریکی بحری بیڑہ بھی اِسی ملک میں برسوں سے لنگر اندازہے ۔افغان طالبان اورامریکہ کے درمیان خفیہ مذاکرات میں بھی قطر نے اہم کرداراداکیا،قطرمیں ہی طالبان کادفترکھولاگیااورابھی طالبان کے مرکزی پانچ رہنماؤں کوبھی قطر کی حکومت کے حوالے کیاگیا۔باقی داعش لوٹ مار،ٹیکس اورعلاقے بھرکے قیمتی نوادرات کی فروخت، اورتیل کے علاقوں میں تیل نکال کرارزاں نرخوں پرفروخت کرکے ماہانہ کروڑوں ڈالرکمارہاہے اوراپنے سرپرست ملکوں کوبذریعہ ترکی تیل کی ترسیل جاری ہے۔اتناسستااورارزاں تیل کہ عالمی مارکیٹ میں تیل 100ڈالرفی بیرل ہے اورداعش یہ تیل 2ڈالرسے لیکر 28ڈالر فی بیرل فروخت کررہی ہے ۔ اور موصل پر قبضے کے وقت بھی اِس نے487ملین ڈالرکی رقم بنکوں سے لوٹی ہے ۔یوں بظاہراِس کے اثاثے دوارب ڈالرکی مالیت سے زیادہ ہیں اورسرپرست ممالک سے مسلسل امداداِس کے علاوہ ہے۔القاعدہ کے بانی لیڈروں میں مصرکے نعیم نبیل نے امریکہ کے کردارکے بارے میں کہاہے کہ داعش کاسرغنہ ایک خاص مقصدکیلئے رہاکیاگیااوراُس کو30ملین ڈالر دے کرانتہاپسنداوردہشت گردبھرتی کرنے کاٹاسک دیاگیاجو اُس نے القاعدہ سے زیادہ وحشی اورفاتح بن کراپنی وفاداری ثابت کردی۔ امریکہ،برطانیہ اوراسرائیل کی سرپرستی اِسی بات سے ظاہرہوتی ہے کہ شام میں باغیوں کے علاقوں میں متاثرین کی بحالی کے بہانے میں امدادبھیجی جارہی ہے جوشامی حکومت کی اجازت کے بغیر ہے اوروہ بھی ترکی،عراق اوراردن کے سرحدی راستوں کے ذریعے جس میں نہیں معلوم کہ امدادکے بہانے کیاکچھ تکفیری دہشت گردوں کودیاجارہاہے اورکچھ کاتذکرہ میڈیاپرہوچکاہے جن میں ٹینک شکن میزائل ،طیارہ شکن سٹنگرمیزائل،فوجی گاڑیاں اورجدید ہتھیار وافرمقدارمیں بشارالاسد حکومت کوگرانے کیلئے انتہاپسنددہشت گردوں کودئیے گئے ہیں ۔ایک بات اوربھی قابل توجہ ہے کہ موصل یونیورسٹی سے 40کلوگرام جوہری موادداعش کے ہاتھ لگاہے ۔سوال یہ ہے کہ جوہری موادوہاں پراوراتنی مقدارمیں کیوں موجودتھا؟دوسری بات یہ کہ صدام دورمیں کیمیائی ہتھیاربنانے والی فیکٹری بھی داعش کے قبضہ میں آچکی ہے۔یہ ساراکھیل ظاہرکرتاہے کہ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ اِس کومضبوط کیاجارہاہے۔
داعش نے جب سے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پرقبضہ کیاہے جوکہ بذات خودابھی تک معمہ ہے کہ ایساکیسے ہواکہ 30ہزارفوج ایک ہزار دہشت گردوں کے سامنے اپنافوجی سازوسامان چھوڑکرموصل سے کیسے فرارہوگئی ؟اگردیکھاجائے تویہ سانحہ لمحے بھرمیں رونمانہیں ہوابلکہ اِس سازش کی تکمیل میں کافی عرصہ لگاہے۔امریکہ جوشیطانِ بزرگ کا کردارنبھارہاہے بظاہر توعراق سے چلاگیاتھالیکن بغدادمیں اُس کے سفارتی عملے کی تعداد 5 ہزا ر سے زیادہ تھی۔اب بھی عراقی افواج کی مددکے بہانے ایک ہزارکے قریب فوجی ماہرین ڈرون اورجنگی طیاروں سمیت عراق میں موجودہیں ۔اوراِس فوجی اورعسکری مشاورت کابظاہر عراق کوتوکوئی فائدہ نہیں پہنچالیکن داعش کوضرورمل رہاہے جواپنی پیش قدمی پھربھی آہستہ آہستہ جاری رکھے ہوئے ہے۔20لاکھ کی آبادی والے سنی شہرموصل پرقبضہ ہوتے ہی داعش نے شام اورعراق میں اپنے زیرقبضہ علاقوں میں نام نہا د \”اسلامی خلافت \”کااعلان کردیا اور آناًفاناًپاسپورٹ ،کرنسی اورانتظامی ادارے تشکیل دے دئیے ۔شرعی عدالتیں اسلام اورقران کامذاق اڑانے میں مصروف بہ عمل ہوگئیں ۔موصل اوراِس کے مضافات میں کسی مسلمان اورغیرمسلمان کوامان نہ مل سکی۔داعش کی بربریت پر بربراورتاتاری قبیلوں کے حکمرانوں کی روحیں بھی کانپ رہی ہیں۔داعش نے عیسائیوں کی سینکڑوں سال پرانی عبادت گاہیں یاتوجلاڈالیں یاپھر مسمارکردیں یاپھر اُن کوتاراج کرکے اپنی کمین گاہوں میں تبدیل کردیا۔عیسائی افرادکیلئے عراق میں صرف اِس صورت میں رہنے کی گنجائش رکھی گئی کہ وہ اُن کااسلام قبول کرلیں،اگرقبول نہیں کرتے تو30ہزارڈالرجزیہ (ٹیکس )دیں اگراِس قابل نہیں ہیں توپھرگھر کامرداُن کے ساتھ دہشت گردانہ کارروائیوں میں شامل ہو۔اگر ایسابھی ممکن نہیں تواُن کے گھر کی ایک خاتون داعش کے تکفیری نوجوان سے جہادالنکاح کرے اورحکم عدولی یاانکارکی صورت میں موت اُن کامقدرہوگی اورعبرت سکھانے کی خاطر4عیسائیوں لڑکیوں کوانکارکی شکل میں ماربھی دیاگیااوراُن کی منظرکشی کی سوشل میڈیاپر تشہیربھی کی گئی۔اِس کافرانہ اقدامات کی وجہ سے ہزاروں عیسائی گھرانے نجف اورکردعلاقوں کی طرف ہجرت کرچکے ہیں ۔اہلِ سنت کو بھی معاف نہیں کیاگیا۔اُن کے نوجوانوں اورنوعمرلڑکوں کوزبردستی فورس میں شامل کیاجارہاہے ۔باقاعدہ سروے کئے جارہے ہیں کہ گھرمیں کتنی شادی شدہ اورغیرشادی شدہ خواتین اورلڑکیاں موجود ہیں۔ اوراُن گھروں پرنشان بھی لگائے جارہے ہیں جس میں لڑکیاں موجود ہیں۔ درجن بھرسنی علماء کوبھی قتل کردیاگیاہے جنہوں نے عیسائیوں پرظلم وستم کے خلاف آوازبلندکی ہے یااُن کے تکفیری ایجنڈے کوقبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اہل تشیع کے ساتھ داعش کے مظالم اِن کے آباواجدادبنوامیہ اورحجاج بن یوسف سے کم نہیں ہیں۔اہل تشیع کی تمام مساجد اورامام بارگاہوں کے قیمتی تبرکات کولوٹنے کے بعد دھماکہ خیز موادسے مسمارکردیاگیاہے۔اہل تشیع کے جوافراداِن کے ہاتھ لگے اُن کوسراورسینے میں گولیاں مارکریاذبح کرکے نامعلوم مقام پرگہری پہاڑی کھائیوں میں پھینک دیاگیاہے۔عراقی فوجیوں اورسپاہیوں پر بھی ترس نہیں کھایاگیااور درندگی وبربریت سے اُن کاکام تمام کردیاگیااور اُن کے گھروں کومسمارکردیاگیا۔یہ ساراطریقہ ء کارچنگیزخان،ہلاکوخان اورتیمورلنگ جیساہے جولوگوں کاقتل عام کرکے خوف ودہشت سے علاقوں پر قبضہ کرلیتے تھے۔