جعفریہ پریس – تفصیلات کے مطابق شعبہ زائرین دفتر نمائندہ ولی فقیہ و قائد ملت جعفریہ پاشستان قم کی جانب سے حرم بی بی معصومہ (سلام اللہ علیہا) قم المقدسہ دار التلاوہ میں سانحہ گلگت 1988ء کہ جسمیں گلگت میں 1988 میں لشکر کشی کی گئی جس میں 100 مؤمنین شہید اور 50 امام بارگاہوں اور سینکڑوں مؤمنین کو در بدر کردیا گیا جنکی 26 ویں برسی بھر پورشان و شوکت سے انعقاد گیا. جس میں مرکزی خطاب حجت الاسلام و المسلمین مولانا سجاد کاظمی صاحب نے کیا جبکہ قم کں علماء و طلاب اور مؤمنین نے بھر پور شرکت کی پروگرام کی نظامت کے فرائض مسئول شعبہ زائرین سید ناصر عباس انقلابی صاحب نے انجام دیا.
برسی کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیا جس کا شرف قاری حسنین صاحب نے حاصل کیا جس کے بعد مسئول شعبہ زائرین سید ناصر عبیاس انقلابی صاحب نے شہداء کی عظمت پر تفصیل سے روشنی ڈالی انقلابی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردی آج نہیں بلکہ صدیوں سے چلی آرہی ہے اگر بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کں در پر آگ نہ لگتی تو کبھی دنیا میں یہ دہشت گردی نہ ہوتی . اور ان شہداء کے پاک و پاکیزہ اور مظلوم خون کا ہماری گردنوں پر حق ہے جسکا فریضہ ہم اس انداز میں کر دئے کہ بی بی معصومہ کے گھر میں ان شہداء کی برسیاں منارہے ہیں تاکہ ان شہداء کی روحیں خوش ہوں شہداء نے حسینی کام انجام دیا اور ہم نں کار زینبی انجان دینا ہے . اور آنے والی نسلوں کو تعلیمات اسلام ، واجبات ، احکامات ، عقائد اور عزاداری و حسینیت کو پہنچانا ہے . ہماری جانیں گھر بار جاتے ہیں تو چلا جائے پر عباس کے پرچم کوئی آنچ نہ آئے.
اعلانات کے مطابق مولانا شبیر حسین صابری صاحب نے خطاب کرنا تھا مگر سنگین مصروفیات کی وجہ سے وہ نہ آسکے تو مرکزی خطاب حجة الاسلام و المسلمین استاد مولانا سجاد حسین کاظمی صاحب نے کیا انہوں نے سانحہ گلگت 1988ء کے شہداء کے علل و اسباب اور آثار پر تفصیل سے روشنی ڈالی استاد سجاد کاظمی صاحب نے فرمایا کہ سی آئی اے (امریکی انٹیلی جنس ایجنسی) کے مطابق اوائل انقلاب اسلامی ایران کی وجہ سے دنیا میں سب سے زیادہ بیداری پاکستان میں اور پھر پاکستان میں سب سے زیادہ بیداری گلگت بلتستان میں آئی جس کا بدلہ سانحہ 88 کی شکل میں لیا گیا.
آیة اللہ آصف محسنی آف افغانستان نے فرمایا کہ میری نماز کی قرائت پر پوری زندگی میں کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا اگر کیا ہے تو اسی خطہ کے ایک عام شخص نے مجھے متوجہ کیا لہذا اس خطہ کے غیور عوام کی علوم آل محمد سے محبت بھی بے مثال ہے.
موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے استاد محترم نے فرمایا کہ:
تاریخ کے اوراق میں جنگو خارجی کے نام سے یاد کیا گیا وہ آج کے تکفیری ہی ہیں اور خارچیوں کا مقابلہ علی نے جس انداز میں کیا تو آج کے دور میں بھی پاکستان میں اتجاد بین المسلمین کے سب سے بڑے علمبردار قائدمحبوب سید ساجد علی نقوی ہیں امام خمینی نے فرمایا اپنے سفر آخرت سے اپنے نمائندہ قائد محبوب سے آخری ملاقات میں انکو تنہائی میں جو آخری وصیت کی وہ اتجاد بین المسلمین ہی تھا اور پھر قائد محبوب نے بھی پاکستان میں اتجاد بین المسلمین کی جو شکل پیش کی پوری دنیا بھی اسکی مثال نہیں ملتی.
زیرک اور دانا شخص وہ ہوتا ہے جو اپنے دشمنوں میں کمی کرے نہ کہ اضافہ کرے اور جسکا واحد راستخ اتجاد بین المسلمین ہے اسی سال چہلم امام حسین پر تمام میڈیا حکومت اور سیاسی جماعتوں نے اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ قرار دیا لیکن اس قائد عظیم نے اس جنگ کو تکفیریت کی جنگ میں بدل ڈالا . یہاں تک کہ تمام کے تمام مکاتب قائد محبوب کے ساتھ آگئے اور تکفیریوں کو گندگی کے ڈھیر پر چھوڑ آگئے.
گلگت بلتستان کے شہداء اور قوم کا قصور فقط حب اہل بیت تھا او ریہ خون شہداء گلگت 1988ء ہی کا اثر تھا کہ اس خطہ کو شہید ضیاءالدین جیسے شہید ملے.
شہید ضیاء الدین نے ثابت کیا کہ پیروولایت و نمائندہ ولی فقیہ کیساتھ ہونا چاہئے انہوں نے مرکزی قیادت کیلئے جامع مسجد کی امامت کو چھوڑا اور گھر آگئے اور کہا کہ مرکزی قیادت کے بغیر جامع مسجد کامیاب نہیں.
شہید ضیاء الدین رضوی کہ جس نے علاقے میں بھی لوگوں کے دلوں میں بس گئے کیونکہ جو شخص جدا کو اپنے دل میں بسادے گو خدا لوگوں کے دلوں میں اسے بسا دیتا ہے .
پوری دنیا کے شہداء ملت جعفریہ نے کار خمینی انجام دیا اور ہم نے کار زینبی انجام دینا ہے.
پھر مصائب آل محمد بیان کیا اور پروگرام کا اختتام زیارت و سلام سے کیا گیا جسکا شرف مولانا ترابی نے حاصل کیا.