علامہ اقبال ؒ نے چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی کی جو اصلاحات الفاظ کی شکل میں ایجاد کی تھیں ان کا پس منظر اگرچہ کربلا ہے لیکن اس کی حقیقت موجودات سے وابستہ اور منسلک ہے۔ اسے حق و باطل کہنا بجا لگتا ہے جو ازل سے انسانوں بلکہ تمام مخلوقات کے اندر چلا آرہا ہے۔ دو قوتوں کا مقابلہ ‘ دو طاقتوں کا تصادم‘ دو رویوں کاتقابل ‘ دو اعمال کا تجزیہ اور دو چیزوں کا مشاہدہ ۔ اقبال کے شاختہ کرداروں میں مصطفوی کردار حق کی ترجمانی کرتا ہے جبکہ بولہبی کردار باطل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہی دو کردار شاید نہیں بلکہ حتمی طور پر دنیا میں موجود رہیں گے۔انہی کے ذریعے خیر و شر کی شناخت ہوتی رہے گی۔
امام حسین علیہ السلام نے کربلا کا سفر اختیار کرنے سے قبل ہی مدینۃ الرسول ؐ میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کے ارادوں کا اعلان اور اظہار فرمادیا تھا۔ سوال یہ پیدا کیاجاتا ہے کہ اگر امام عالی مقام کو مستقبل میں آنے والے مشکلات کا اندازہ تھا تو انہوں نے ایسا کٹھن راستہ کیوں اختیارکیا۔ جب ہم اس روایت کا مطالعہ کرتے ہیں کہ ہادی برحق امام النبیین تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین ؑ کی شہادت اور کربلا کے واقعہ کی خبر پہلے ہی دے دی تھی تو پھر اس سوال کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود امام عالی مقام کا کمر بستہ ہوجانا کس دلیل کا حامل ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ وما ینطق عن الھوی کی سند یافتہ زبان سے جو کچھ جاری ہو اسے کلام خدا ہی سمجھا جاتا ہے ۔ یعنی جب بشارت یا خبر دی جاتی ہے تو اسے طے شدہ اور حتمی سمجھا جاتا ہے ۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ خبر یا بشارت انسان کے لیے ظاہری اور باطنی طور پر فائدی مند ہے یا نقصان دہ؟؟ اگر نقصان دہ ہے تو انسان اس سے تحفظ یا بچاؤ کے لیے کوئی سبیل نکالتا ہے خدا سے تمنا کرتا ہے کہ آنے والی مصیبت سے اسے محفوظ رکھا جائے اور اگر فائدہ مند ہے تو اس کے ظہور پذیر ہونے کا انتظار بہت شدت کے ساتھ کرتا ہے۔اسلامی عقائد کے مطابق بشارتوں اور خبروں میں سے سب سے بڑی اور ارفع بشارت شہادت کی بشارت ہے۔ ہر مسلمان شہادت کا تمنائی اور عاشق رہتا ہے اور چاہ رہا ہوتا ہے کہ اسے اگر راہ خدا میں شہادت کی موت سے گذرنا پڑے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی سعادت نہیں ہے۔
جب ایک عام مسلمان کے لیے شہادت کی بشارت کی اتنی زیادہ اہمیت و فضیلت ہے تو پھر ایک امام ‘ ایک رہنماء ‘ فرزند رسول ؐ ‘ پیکرِ شریعت اور اسلام کے سب سے بڑے پیروکار کے لیے کس طرح شہادت کی بشارت نویدِ قربِ خدا نہیں ہوگی؟ جب زبان رسالت سے امام عالی مقام نے نہ صرف اپنی شہادت بلکہ کربلا کے پورے منظر کی خبر سماعت کرلی تو اس لمحے کے بعد سے لے کر ۱۰ محرم ۶۱ ھجری کی عصر تک اس لمحے کا شدت سے انتظار کررہے تھے۔
آدم سے تا ایں دم شہادتوں کا سفر اور کاروان چلاآرہا ہے اور جاری و ساری ہے بلکہ تاقیامِ قیامت جاری ہی رہے گا لیکن انسانی تاریخ میں شہادتوں کی جتنی داستانیں اور واقعات سامنے آئے ہیں ان میں درجہ بندی موجود ہے ہر انسان کا عزمِ شہادت ‘ سفرِ شہادت ‘ اندازِ شہادت ‘ مقصد شہادت اور قربانی پیش کرنے کا طریقہ مختلف اور جداگانہ چلا آرہا ہے۔ مختلف جنگوں میں اہل اسلام شہید ہوئے۔ مختلف مواقع پر اسلام کی بڑی بڑی شخصیات کفار کے انفرادی یا اجتماعی حملوں میں شہید ہوئیں۔ بعض اوقات اسلام کے اندر داخلی معرکوں اور انفرادی حملوں میں بھی پاکیزہ شخصیات نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
خاتم المرسلین ؐ کی آمد سے قبل بھی شہادتوں کا سلسلہ جاری تھا اس وقت کی تاریخ میں حضرت اسماعیل ؑ کی ذات قربانی کی ایک مثال بن چکی تھی اور ذبح عظیم کا مصداق قرار دی جاچکی تھی لیکن فرمانِ رسول ؐ اور تاریخی حقائق کی روشنی میں کربلا کے واقعہ نے شہادتوں کی پوری تاریخ ہی بدل ڈالی۔ کربلا کے بعد شہادت کے لفظ کو اعلی و اکمل معنی و مفاہیم حاصل ہوئی۔ کربلا سے شہادت کا لفظ فقط تصور کی حد تک تھا لیکن اس کی حقیقی اور عملی تعبیر و تشریح و مثال کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ حسین ؑ کی پاک ذات نے شہادت کی تمام ممکنہ صورتیں میدان کربلا میں پیش کردیں۔
علی اصغرٍ جیسے کمسن مجاہد کی شہادت کو دیکھیں یا علی قاسم و علی اکبر کے جوان لاشوں کو دیکھیں۔ غازی عباس جیسے کڑیل کمانڈر کی شہادت کا ملاحظہ کریں یا حبیب ابن مظاہر جیسے ضعیف مجاہد کی شہادت کا مشاہدہ کریں۔ جون جیسے سیاہ فام کی لاش دیکھیں یا جعفر ابن عقیل جیسے ہاشمی جوا ن کا لاشہ دیکھیں۔ کربلا میں ہمیں شہادت کی ہر ممکن صورت نظر آئے گی۔ امام حسین ؑ جیسے عظیم امام کی شہادت سے ہمکنار ہوتا دیکھا جائے اور حُر ابن یزید ریاحی جیسے ماموم کو شہادت سے سرفراز ہوتا دیکھا جائے تو ہمیں بہت واضح اور آشکار احساس ہوگا کہ کربلا سے پہلے واقعی مفہومِ شہادت تشنہ اظہار رہا ہے۔ جبکہ لطف کی بات یہ ہے کہ کربلا کے بعد بھی اس قسم کا عظیم واقعہ برپا ہونا اور اس طرح کی عظیم شخصیات کی شہادتوں کا رونما ہونا محال و ناممکن نظر آتا ہے۔
کربلا کے بعد نہ امام حسین ؑ کا وجود ممکن ہوسکتا ہے کہ ہاشمی و مصطفوی جوانوں کا اجتماع ممکن ہوسکتا ہے۔کربلا کے واقعہ کا امتیاز ہی امام عالی مقام کی ذات کے ساتھ خاندان نبوت و امامت کے پاکیزہ نفوس کا جمع ہونا اور شہید ہونا ہے۔ اسی طرح کربلا کی ترویج کے لیے بھی دوبارہ سیدہ زینیب سلام اللہ علیھا اور حضرت امام زین العابدین ؑ کا وجود ناممکن ہے۔ اب چاہے کسی واقعہ یا سانحہ میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ شہید ہوتے رہیں ہم انہیں مظلوم بھی کہیں گے شہید بھی کہیں گے لیکن مقام و مرتبے کے لحاظ سے خانوادہ اہل بیت ؑ کے مقابل کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔
امام عالی مقام کی شہادت کو ذبح عظیم کا اصل مصداق اور شہادت عظمی کو اصل حامل قرار دینے کے دلائل میں سے ایک دلیل تو ان کا فرزند رسول ؐ اور امام برحق ہونا ہے دوسری محکم و مستحکم دلیل امام عالی مقام کا ہدف تھا جو تحفظ دین اور حفاظت اسلام تھا۔ آپ نے اپنے خطبات میں بھی واضح کیا جبکہ بعد میں اپنے عمل سے بھی ثابت کیا ہے کہ ان کا مقصد شریعت کو بچانا ‘ اسلام کو خردبرد سے محفوظ رکھنا اور دین کو اس کے اصل مفاہیم و معانی کے ساتھ نافذ کرنا ہے۔ اتنی اعلی و ارفع شخصیت کے حامل ہونے کے بعدان عظیم مقاصد کے حصول کے لیے کی
جانے والی جدوجہد کے دوران حاصل ہونے والی شہادت کسی طور شہادت عظمی سے کم نہیں ہے۔ اگر شہادت ایک نعمت عظمی ہے تو پھر حسین ؑ سے بڑھ کر کون ہے جو اس نعمت عظمی کا اصلی حامل نہ ہو؟ ۔ حسین ؑ کی ذات کی عظمت اور آپ کی شہادت کو شہادت عظمی قرار دینے میں کسی ایک مکتب یا مسلک نے دعوی نہیں کیا بلکہ سب سے پہلے نبی مکرم ؐ نے شہادت عظمی پر مہر تصدیق ثبت فرمائی اور اس کے بعد آنے والے تمام آئمہ ‘ تمام اصحاب ‘ تمام تابعین ‘ تمام فقہا ‘ تمام مجتہدین‘ تمام علماء ‘ تمام اولیاء اور تمام حق پرستوں نے حسین ؑ کے شہید اعظم ہونے اور حسین ؑ کی شہادت کو شہادتِ عظمی قرار دینے کی تائید کی۔