عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے جمعرات کے روز عاشورائے حسینی کی مناسبت سے مسلمانان عالم کے نام ایک بیان جاری کرکے انہيں کربلا کی سرزمین پر فرزند رسول(ص) حضرت سید الشہداء امام حسین(ع) اور ان کے اہل خاندان و اصحاب کی شہادت کے حوالے سے تعزیت کہتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ عاشورا ریاست محمدیہ(ص) اور انحرافی خطوط نیز جرم و شر کے رجحانات کے درمیان حد فاصل تھا اور امام حسین علیہ السلام نے اموی حکمرانوں کی حاکمیت کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والے انحرافات کی اصلاح کے لئے قیام فرمایا/
مالکی نے کہا: کربلا کی سرزمین پر یزیدیوں کے مقاصد ہرگز پورے نہیں ہوئے اور کبھی بھی نہ ہونگے اور وہ کبھی بھی رسالت محمدیہ(ص) اور سیدالشہداء(ع) کے مدنظر اصلاح کو مسلمانان عالم کے ذہن و قلب سے نہیں مٹا سکے ہیں اور نہ مٹا سکیں گے اور عاشورا کو ـ اس تناور درخت کی مانند جس کی جڑیں زمین کی اتہاہ گہرائیوں میں پیوست ہیں اور اس کی شاخیں فلک تک پہنچ چکی ہیں ـ ہر روز گذشتہ روز سے زيادہ نشوونما ملتی رہی ہے اور عاشورا آج پوری دنیا میں فروغ پارہی ہے۔
عراقی وزیر اعظم نے کہا: اللہ کے فضل و کرم سے امسال بھی پورے ملک میں عاشورا کے مراسمات نہایت عقیدت و احترام اور شاندار انداز سے انجام پائے اور بغض و عناد سے بھری کاروں کے ذریعے دھماکے کرنے والے سیاہ دل دہشت گردوں کی تمام تر کوششیں اور سازشیں عزاداران حسینی کو مرعوب نہ کرسکیں؛ اور زائرین امام حسین(ع) دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود اپنے امام(ع) کی بارگاہ میں پہنچے۔
مالکی نے ان ایام میں کربلائے معلی کے زائرین اور عزادروں کے دستہ جات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دہشت گردوں کی سازشوں کا مؤثر مقابلہ کرنے پر عراقی سیکورٹی فورسز کا بھی شکریہ ادا کیا ہے اور کہا: سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے متعدد حملوں کو ناکام بنایا اور درجنوں دہشت گردوں کو کاروائی سے پہلے ہی گرفتار کیا اور جانفشانی کا ثبوت دیتے ہوئے دسیوں لاکھوں زائرین و عزاداران حسینی کو تحفظ فراہم کیا۔
واضح رہے کہ محرم کے ایام میں عراق میں دہشت گردانہ حملوں نیز خودکش اور کاربموں کے دھماکوں کے لئے سعودی عرب اور شام سے عراق میں دراندازی کرنے والے سینکڑوں دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا جو خاص طور پر محرم الحرام میں زائرین امام حسین(ع) کو نشانہ بنانے کے لئے سعودی وزارت داخلہ اور انٹیلجنس ادارے کی مدد و ہدایت سے عراق پہنچے تھے۔ اس دوران درجنوں سعودی دہشت گرد ہلاک بھی ہوئے۔ حالانکہ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اس سال زائرین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو شہید کر دیں اور یوں دنیا والوں کو جتا دیں کہ عراق میں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہے اور یوں امریکہ کے لئے دوبارہ اس ملک میں مداخلت کی راہ ہموار ہوجائے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب کے حکمران عراق سے امریکیوں کے انخلاء کے خلاف تھے۔
ضروری وضاحت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاصر یزیدیوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے احکامات وصول کئے تھے لیکن عراقی فورسز نے اپنے محدود وسائل کے باوجود عراق کی سرحدوں نیز بغداد کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں کاروائیاں کرکے بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک اور گرفتار کیا اور کربلا کی جانب رواں دواں زائرین و عزاداران حسینی کو نیز کربلا کے اطراف میں کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکے لیکن دوسرے علاقوں میں انھوں نے اپنے عرب اور صہیونی آقاؤں کے احکامات کی تعمیل کرکے متعدد افراد کو شہید کردیا۔
کل بروز جمعرات 10 محرم الحرام سنہ 1435 دہشت گردوں نے عراق کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرکے متعدد شیعیان آل رسول(ص) کو شہید کیا۔
آخری حملے میں الانبار صوبے میں 30 زائرین ایک دہشت گرنانہ حملے میں شہید ہوئے جس کے بعد الانبار پولیس چیف کو برطرف کردیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق سعودی حمایت یافتہ دہشت گردوں نے ظہر تک تقریبا 60 افراد کو شہید کیا۔
کل صبحی بغداد کے جنوب میں دو تکفیری درندوں نے خودکش حملے کرکے آٹھ زائرین کو شہید کیا اور انبار کے شہر دیالی میں ایک دہشت گردانہ حملے میں 9 افراد شہید ہوئے۔
پرسوں بدھ کے دن دہشت گردوں نے الفلوجہ شہر کے میئر کو گولی مار کر قتل کیا۔
ان واقعات کے بعد صوبہ الانبار کی سلامتی کونسل نے الانبار کے پولیس سربراہ ہادی رزیج کو برطرف کرکے میجر جنرل جاسم محمد کو اس عہدے پر تعینات کیا۔ اور الانبار کے کئی پولیس افسران اور جوانوں سے تفتیش کی گئی۔
کل شام کو بھی بغداد کے شمال میں دہشت گردوں نے دھماکہ کرکے عزاداران فرزند رسول(ص) کو نشانہ بنایا اور اس دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 30 عزادار شہید اور 67 زخمی ہوئے۔
عراقی سیکورٹی فورسز نے بدھ کی شام کے کرکوک سے 55 کلومیٹر دور حویجہ کے علاقے میں “جیش انصار السنہ” نامی دہشت گرد تنظیم کو ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرکے درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک اور متعدد کو گرفتار کیا۔
ان جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کے بعد۔ کرکوک کی مقامی اسمبلی کے ایک رکن عبدالرحمن آل عاصی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان افراد کو کرکوک لوٹا دیا جائے تاکہ ان پر مقامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
اکثر دہشت گردانہ حملے باہر سے عراق بھجوائے گئے دہشت گردوں کے ہاتھوں انجام پاتے ہيں جن میں نقشبندیہ نامی گروہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ان دہشت گردوں کو مالی اور عسکری امداد براہ راست سعودی حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے۔
سعودی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم نقشبندیہ نے اپنے بیانات اور اپنی ویب سائٹ میں دعوی کیا ہے کہ اس کے اراکین نے عراق کے دفاع اور امریکیوں کے خلاف اسلحہ اٹھایا ہے لیکن آج تک اس ٹولے کے ہاتھوں حتی ایک امریکی کو کوئی نقصان نہيں پہنچا ہے حالانکہ عراق میں ہزاروں امریکی موجود ہیں جبکہ آج تک ان کے بم دھماکوں میں ہزاروں عراقی شہری قتل ہوئے ہیں۔ کیا یہی ہے امریکیوں کی مخالفت اور عراق کا دفاع؟
ایک اور رپورٹ کے مطابق الدیالہ کے شہر السعدیہ میں عزاداروں پر دہشت گردوں کے خودکش حملے میں 30 عزادار شہید ہوئے؛ بغداد سے 40 کلومیٹر دور واقع الحفریہ نامی شہر میں دو خودکش حملوں میں 9 افراد شہید اور 19 زخمی ہوئے۔ شمالی عراق کے شہر بعقوبہ میں عزاداروں کے جلوس کے راستے میں تین بم دھماکوں کے نتیجے میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوئے جبکہ کرکوک میں ایک مجلس عزاداری میں بم دھماکے کے نتیجے میں 2 عزادار شہید اور 20 زحمی ہوئے۔ جبکہ بغداد کے شمال میں بھی 17 افراد شہید اور 65 زخمی ہوئے۔ بغداد میں بدھ کے روز بھے عزاداروں کے راستے میں سعودی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے حملوں میں 23 افراد شہید ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ مذکورہ بالا رپورٹوں میں بعض مکرر رپورٹیں ہیں اور کل رات تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق نویں اور دسویں (تاسوعا اور عاشورا) کے دو دنوں کے دوران بغداد، کرکوک، دیالہ، بعقوبہ اور الحفریہ میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 60 سے زائد عزاداران حسینی کو شہید کیا گیا جبکہ کربلا سمیت ملک کے جنوبی شہروں میں دہشت گردوں کی طرف سے کوئی کاروائی عمل میں نہیں آسکی اور کئی دہشت گرد کاروائی سے قبل ہی گرفتار ہوئے۔ اور یوں کربلا جانے والے زائرین دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ رہے گوکہ عزاداران حسینی نے تمام شہروں میں دشمنان اسلام کی دھمکیوں اور حملوں کے خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مجالس عزاء برپا کیں اور جلوسہائے عزا نکالے۔