تازه خبریں

قائد شہیدعلامہ عارف حسین الحسینی رح کا اجمالی تعارف

تحریر : M.H.Rahimi
علامہ سیدعارف حسین الحسینی  ٢٥نومبر١٩٤٦ء کو صوبہ سرحدکے کرم ایجنسی پاراچنارکے قصبہ پیواڑکے علمی اورصاحب کرامات و معنویات گھرانہ میں آنکھ کھولی آپ کے والدگرامی کانام سیدفضل حسین میاں تھا، قائد شہید کاسلسلہ نسب علاقہ کے مشہورومعروف صوفی بزرگ سیدمیرعاقل شاہ صاحب شاہ شرف بوعلی قلندرابن سید فخرالدین(جوکہ پاراچنارسے چارمیل کے فاصلہ پرواقع کڑمان گاؤں میں مدفون ہیں)سے ہوتاہواجناب حسین الاصغرابن سیدالساجدین امام زین العابدین علیہ السلام تک جاملتاہے اسی وجہ سے انہیں حسینی کہتے تھے اوریہ سادات تیرہویں صدی میں تیرہ نامی علاقہ میں آکرآبادہوئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے علاقائی اسکول پیواڑ میں ہی حاصل کی اورساتھ ہی گھرمیں قرآن مجیدکے ابتدائی درس کا اہتمام کیاگیا اپنے تعلیمی سلسلے کوجاری رکھتے ہوئے١٩٦٢ء کوپاراچنارکے ہائی سکول میں بہت اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کیاچونکہ قائد شہید باطنا ًدینی تعلیم کا رجحان رکھتے تھے لہذااپنی توجہات کا مرکزتعلیمات علوم آل محمدکوٹھرایااور ١٩٦٢ء کوپاراچنارکے واحددینی مدرسہ جعفریہ میں حاجی غلام جعفر لقمان خیل سے مختصرعرصہ میں عربی ادبیات کی تعلیم حاصل کی اورمدرسہ جعفریہ سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے بعدآپ اپنے مناظرانہ شوق کوعملی جامہ پہنانے کے لئے اس وقت کے عظیم شیعہ مناظرمولانامحمداسماعیل دیوبندی مرحوم کے مدرسہ میں درس آل محمد(ص)فیصل آبادمیں داخل ہوئے مگرمدرسہ کاماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے کچھ ہی عرصہ بعدآپ پاراچنارواپس چلے آئے اوراس طرح پاراچنارمیں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد١٩٦٧ء میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسلام کے بہت بڑے دینی مرکزنجف اشرف روانہ ہوئے یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت امام خمینی  اپنے جلا وطنی کے دن نجف اشرف میں گزار رہے تھے،نجف اشرف میں ابتدائی کچھ عرصہ تومدرسہ شبریہ میں گذارااوراسکے بعدزیادہ تراپنے قیام کادورانیہ مدرسہ دارالحکمہ میں گذارنے لگے۔
شہیدمحراب حضرت آیةاللہ مدنی  علم اخلاق میں مہارت رکھتے تھے اسی وجہ سے قائدشہید اپنی علمی و معنوی پیاس بجھانے کے لئے انہی شہید کے پاس زانوی ادب ٹیکتے رہے اوراپنے اسی استادکے ذریعے،حضرت امام خمینی سے واقف اورآشناہوئے اس طرح سے بعدمیں ہمیشہ حضرت امام خمینی کے اخلاقی اورانقلابی دروس میں بھی شرکت کرتے رہے اورامام خمینی کی اقتدامیں نمازپڑھناان کامعمول بن گیاتھاجس کے نتیجہ میں قائدشہیدنجف اشرف کے اندرایک انقلابی اورجفاکش طالب علم کے طورپرپہچانے جاتے تھے ۔
نجف اشرف میں دوران تعلیم جن بزرگان دین سے مستفیدہوتے رہے ان میں چندایک درج ذیل ہیں۔
١۔حجةالاسلام مولاناگل علی صاحب
٢۔حجة الاسلام آقای شیخ موحدی صاحب
٣۔حجة الاسلام آقای لشکرانی صاحب
٤۔حضرت آیةاللہ آقای شیخ اشرفی اصفہانی صاحب
٥۔حضرت آیةاللہ مرتضوی صاحب
٦۔شہیدمحراب حضرت آیةاللہ مدنی صاحب
٧۔حضرت آیةاللہ العظمیٰ امام خمینی
تقریباًمسلسل ساڑھے چھ سال کاعرصہ نجف اشرف میں گذارنے کے بعد١٩٧٣ء کونجف اشرف سے پاکستان تشریف لائے ۔
نجف اشرف سے واپسی کے موقعہ پرحضرت امام خمینی  سے ہدایات لینے کی غرض سے آخری ملاقات کی اور حضرت امام خمینی نے قائدشہید کو پاکستان کے اندر اپناوکیل منصوب کرتے ہوئے وکالت نامہ جاری کیالیکن باڈر پر چیکنگ کے دوران عراقی پولیس نے وہ وکالت نامہ ظبط کرلیا۔
وطن پہنچ کراسی سال آپ کی شادی اپنے ہی خاندان میں مولاناسیدامیرحسین جان لکھنوی کی بھتیجی اور سیدیونس جان خطیب عالم شیرکی صاحب زادی سے انجام پائی۔ اس طرح ١٩٧٣ء کووطن واپس آکر اپنی عالمانہ ذمہ داریوں کوپوراکرتے ہوئے اپنے علاقہ میں دینی،مذہبی اوراجتماعی امورمیں سرگرم ہوگئے۔
لیکن علمی تشنگی کی وجہ سے ١٩٧٤ء کودوبارہ نجف اشرف جانے کاارادہ کیا مگرنجف میں قیام کے دوران مرجع وقت حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم سے ملاقات اورا سی طرح شہنشاہ ایران کی جشن تاج پوشی کے موقعہ پراحتجاجی ٹلیگراف بھیجنے کے جرم میں عراقی حکام کی طرف سے ویزہ نہ ملنے پر مزیدتعلیم حاصل کرنے کے لئے قم  روانہ ہوئے اورقم کے اندرجن مایہ نازاساتذہ سے کسب فیض کیا ان میں۔
١۔آیةاللہ شہیدمرتضیٰ مطہری
٢۔آیة اللہ ناصرمکارم شیرازی   مدظلہ العالی
٣۔آیةاللہ وحیدخراسانی   مدظلہ العالی
٤۔آیةاللہ جوادتبریزی
٥۔آیةاللہ سیدکاظم حائری
٦۔آیةاللہ محسن حرم پناہی جیسی شخصیات ہیں جن سے فلسفہ،کلام ،اصول،فقہ اورتفسیرکے علوم سے منور ہوئے،قائدشہید جن دنون قم میں تحصیل علم کے لئے مصروف عمل تھے،شہنشاہ ایران کے خلاف چلائی ہوئی حضرت امام خمینی  کی تحریک اپنے عروج پرتھی ایران کے ہرچھوٹے بڑے شہرمیں آئے دن مظاہرے ہورہے تھے ان تمام مظاہروں اورتحریک کی باگ ڈورقم سے متصل تھی جس کی وجہ سے قائدشہیدبھی اپنے انقلابی مزاج اور احساس ذمہ داری کوسمجھتے ہوئے اس قسم کے مسائل میں دلچسپی لیتے رہے اورایران کے اندربدلتے حالات کاتجزیہ کرتے ہوئے،حتیٰ الامکان انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے اوراپنے دوسرے ساتھیوں کوبھی اس قسم کے پروگرام خاص کرمظاہروں میں شرکت کاشوق دلاتے تھے،یہ سلسلہ اپنے عروج کے منازل طے کررہاتھاکہ پارا چنارکے مدرسہ جعفریہ اورکرم ایجنسی کے حالات کے تحت آپ کی اشدضرورت پڑی ۔چنانچہ علامہ سیدعابد حسین الحسینی اورمدرسہ کے مہتمم آقاشیخ رجب علی نے کرم ایجنسی میں خدمات کے لئے یاد فرمایااس طرح سے ان بزرگان کے اصراراوراستخارہ کی وجہ سے قم چھوڑنے پرمجبورہوئے اور ١٩٧٧ء کووطن واپس آکرپاراچنارکے مدرسہ جعفریہ میں تعلیم وتدریس کاسلسلہ شروع کیا۔
آپ پاراچنارمدرسہ جعفریہ میں رہتے ہوئے اپنی ذات کومدرسہ کی چاردیواری تک محدودنہ رکھابلکہ اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرتے ہوئے اپنے آپ کوگردوپیش کے حالات اورتقاضوں سے بھی مربوط رکھااوربیک وقت تبلیغ،تربیت، تنظیمی وفلاحی امور،تحفظ تشیع اورانقلاب اسلامی کابیڑااٹھایایہی وجہ تھی کہ جب قائدشہیدنے اپنی دور اندیشی سے گوشہ وکنارمیں کچھ اس قسم کی آوازیں سنیں کہ دنیامیں بس ایک محمدرضاشاہ ہی توشیعہ بادشاہ ہے،علماء کوچاہئے کہ اسکی پشت پناہی کریں نہ کہ اسے کمزور کریں!توقائدشہیدنے اپنے علاقہ میں علماء اورامام خمینی کے خلاف ہونے والی اس سازش کوسمجھتے ہوئے انقلاب اسلامی کواجاگر کرنے،شہنشاہ ایران کی اسلام دشمنی کارستانیوں کوواضح کرنے اورعلماء اسلام خصوصاًحضرت امام خمینی  کی حمایت میں پارا چنارسے پشاورتک ایک عظیم الشان ریلی نکالی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
قائدشہیداپنے درس وتدریس کے امورکے ساتھ ساتھ اپنے علاقہ میں مومنین کی ہدایت ورہنمائی کے لئے تبلیغی سلسلہ کوبھی انجام دیتے رہے،شہیدمظلوم کاشریں لہجہ لوگوں کے دلوں کوسکوں دیتاتھایہی وجہ تھی کہ انکی مجالس کوپشتوٹیلیویژن سے نشرکیاجاتاتھاعلاقہ کے تمام لوگ آپ کے گردپروانہ کی طرح گھومتے تھے اوردل وجان سے آپ کے گرویدہ تھے اسی طرح قائدشہیدکادل بھی ان محروم اورستم دیدہ لوگوں کے لئے ہمیشہ جلتاتھا.
وہ    تیر ا    تڑپ    اٹھنا    ستم   دیدوں    کی    خاطر
محروم       سمجھتے        تھے      تجھے         اپنا     سہارا
ہمیشہ محرومین اورمستضعفین کی خدمت کرنااورانکے متعلق سوچناعبادت سمجھتے تھے اورکبھی بھی اس قسم کے امورسے تھک ہارکرنہیں بیٹھے قائدشہیدنے لوگوں کی سیاسی ،اجتماعی ضرورت کوپوراکرنے کے لئے ایک دینی تربیت گاہ بنام جامعہ معارف اسلامیہ تاسیس کیاجسے آپکی شہادت کے بعدجامعہ شہیدعارف حسین الحسینی کے نام سے بدل دیاگیاکچھ سالوں تک خودقائدشہیدنے ہی اس مدرسہ میں درس وتدریس کاسلسلہ جاری رکھا،اسکے علاوہ بہت ساری مساجداورامام بارگاہوں کی تعمیرمیں بھی آپ حصہ لیتے رہے،شہیدمظلوم تحریک نفاذفقہ جعفریہ کی تاسیس سے لے کرشہادت تک اسکے فعال رکن کے طور پہچانے جاتے تھے اسی وجہ سے قائدمرحوم مفتی جعفرحسین صاحب نے سیدعارف الحسینی کواپنی سپریم کونسل میں شامل کیاتھا۔
قائدمرحوم کی رحلت کے بعدملت کے اکابرین،علماء کرام،سپریم اورمرکزی کونسل کے اراکین نے علامہ سیدعارف الحسینی کوقوم کے سامنے ایک متقی پرہیزگار،عارف باللہ اورحق گو قائد کے طورپر روشناس کرایااس طرح سے آپ ١٠فروری ١٩٨٤ء کوپاکستان میں مکتب تشیع کے قائد بنے ۔
آپکی صلاحیتوں سے باخبرافرادنے آپ کے انتخاب کونعمت الٰہی سے تعبیرکیاجبکہ حق کے مقابلے کے لئے گھات میں بیٹھے ہوئے دشمن عناصرنے طے شدہ منصوبے کے تحت قوم کے محبوب اورمنتخب قائدکی کردارکشی کے لئے آپ پرطرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑکردی گئی انہوں نے تحریک کے دستورکے مطابق منتخب قائد کو مجالس،محافل،اورتحریروں میں بدنام کرناشروع کردیااعتراض کیاتھاکہ جی وہ ڈھکو گروپ نے ایک پٹھان شخص کو قوم کی قیادت سونپ دی ہے جویاعلی مدد،اورعزاداری کامنکرہے جس کی وجہ سے اس مظلوم قائدنے اپنی قیادت کے ساڑھے چارسالہ دورکے ابتدائی دو سال کاعرصہ اپنی شیعت کوثابت کرنے میں گزارا ۔
آپ نے ایک مرتبہ انہیں مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ” میراڈیڈھ سال تواپنی ملت کویہ باورکرانے میں گذرگیاکہ میں بھی شیعہ ہوںاورعزاداری کابھی قائل ہوں”قیادت کے ابتدائی ایام میں علامہ سیدعارف حسین حسینی کوجس چیزنے سب سے زیادہ تقویت دی وہ امام خمینی  کی جانب سے تائیدی سند تھی،چونکہ حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کوولی فقیہ کی حیثیت حاصل تھی،آپ نے تحریری طورپراس اندازسے حضرت علامہ سیدعارف حسین حسینی کوپاکستان کے لئے اپنانمائندہ نامزدفرمایا”جناب سیدالاعلام حجة الاسلام سید عارف حسین حسینی دامت برکاتہ آپ میری طرف سے ایسے امورحسبیہ کی انجام دہی کے لئے مجازہیں جوولی فقیہ جامع الشرائط کی اجازت پرموقوف ہیں”جس کے بعدآپ کوپاکستان میں شیعہ قوم کی منتخب قیادت کے ساتھ ساتھ نمائندہ ولی فقیہ کی بھی حیثیت حاصل ہوگئی اورپورے پاکستان میں ہرطرف یہ نعرے فضامیں گونجنے لگے کہ ”اے عارف حسینی ،تونائب خمینی”اے عارف حسینی ،توروح خمینی ” ۔
آپ نے اپنی احساس ذمہ داری اورتنظیمی تقاضوں کے پیش نظر٩مارچ ١٩٨٤ء کو تنظیمی ڈھانچے کی تکمیل کے لئے مرکزی عہدیداران کے تعین کی خاطرتحریک کی مرکزی کونسل کاپہلااجلاس طلب فرمایاجس میں سیدوزارت حسین نقوی،ڈاکٹرمحمدعلی نقوی،سید اخترمحسن نقوی اورسیدقمرعباس کوبالترتیب جنرل سیکریٹری،جوائنٹ سیکریٹری،سیکریٹری مالیات اورسیکریٹری نشرواشاعت کی ذمہ داری سونپی گئی اس کے علاوہ تحریک کے پروگرامات اورآئندہ کالائحہ عمل ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے پایاکہ قائدمحبوب ١٠اپریل ١٩٨٤ء سے ملک گیردورہ کریں گے ۔
اس طرح سے تنظیمی فیصلے مطابق قائدشہیدنے ١٠اپریل ١٩٨٤ء کواپنے پہلے ملک گیرتنظیمی دورہ کاآغاز سرگودھاسے کیاسرگودھاکے کامیاب دورہ کے بعداپنے دورہ جات کے سلسلہ کوآگے بڑھایایہاں تک ڈیڈھ ماہ کے عرصہ میں پاکستان کے تمام اہم شہروں میں جاکرعوام سے رابطے استوارکرتے ہوئے تحریک کے اہداف سے آگاہ کیا۔
قائدشہیدکی قیادت سے تحریک نفاذفقہ جعفریہ پاکستان کے اندراہم تدبدیلیاں رونماہو نے لگیں،سپریم کونسل کو وسعت دے کر١٢ اراکین کے بجائے ٣٧رکن مقررکئے گئے اسی طرح تمام صوبوں میں مرکزی قیادت کی نمائندگی کے طورپرہرصوبہ میں صوبائی صدرکاتقررکیااورملک گیرسطح پرچھوٹے بڑے شہروں سے لے کردہاتوں تک یونٹ سازی مہم چلائی گئی،تحریک کے آئین کومزیدبہتراورمستحکم بنایاگیا ۔
تحریک کے اہداف اورآئندہ کے لائحہ عمل پرروشنی ڈالتے ہوئے آپ نے اپنے پہلے تنظیمی کنویشن میں ہی ملک بھر کے نمائندوں کے سامنے اعلان کیاکہ،ہماری تین حثیتیں ہیں،ہم مسلمان بھی ہیں،شیعہ بھی ہیں اور پاکستانی بھی ہیں،مسلمان کی حیثیت سے ہم اسلام اورعالم اسلام کے امورسے دورنہیں رہ سکتے،شیعہ ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے مکتب کاتحفظ کرناہے اورپاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے وطن پاکستان کے مسائل میں بھی دلچسپی لیناہے۔
آپ کے مجاہدانہ کردار،عوامی مقبولیت اورقومی اعتمادکے مناظردیکھ کرمخالفین بھوکھلااٹھے اوراپنی اس بھوکھلا ہٹ کی وجہ سے قائدشہیدکی ذات پرحملہ ورہوئے کہ سرحدکے ایک پٹھان کوپوری قوم پرمسلط کیاگیاہے پہلے سے چھیڑے ہوئے عقیدتی مسائل کے علاوہ مخالف قیادت،سازشی عناصرآپ کوان مسائل میں الجھاناچاہتے تھے مگرآپ کی فہم وفراست اورحسن تدبیرکے آگے یہ سب کچھ دم توڑتاہوادکھائی دینےلگامگرجب انہیں سازشی عناصرکی صف میں کچھ اپنے ہی علماء نماافرادشامل ہوئے تو٢٨فروری ١٩٨٥ء کوماڈل ٹاؤن لاہورکے ایک پروگرام میں علماء کے سامنے اپنااستعفیٰ پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ ”مجھے آپ بزرگان نے یہ عظیم ذمہ داری سونپتے وقت حوصلہ دیاتھاکہ آپ ہرقدم پرمیری رہنمائی فرمائیں گے مگرحالات اس کے برعکس ہیں ایک طرف ہمیں دشمن کی سازشوں کاسامناہے تودوسری طرف سے اپنوں کے عدم تعاون کاشکوہ بھی……؟ ایسے میں میرامستعفی ہوناہی بہترہے۔
آپ ایک عرصہ تک اپنی قوم کے داخلی اختلافات میں مصروف رہے اوران اختلافات کواپنے خلوص اوربصیرت سے بڑی حدتک ختم کرتے رہے۔جب آپ اپنی قوم کے ان اختلافات سے آزادہوکرآمریت کے خلاف مورچہ زن ہوئے توملت جعفریہ کے حقوق کی بازیابی ساتھ ساتھ مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے بھی حکومت سے برسرپیکارہوئے ۔
٩مارچ ١٩٨٤ء کوپریس کلب پشاورکی پہلی پریس کانفرنس اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ آپ نے پہلامطالبہ پاکستان کے نظام کی تبدیلی کاکیاکیونکہ آپکی نظرمیں نظام کی تبدیلی ہی پاکستانی قوم کے مسائل کاحل تھی۔
قائدشہیدنے لاہورسے نکلنے والے پندرہ روزہ ”زنجیر” کو انٹرویودیتے ہوئے اس طرح بیان فرمایا” تحریک کے اغراض و مقاصد کی روشنی ملک میں پاکستان کے اندراسلامی نظام کوصحیح طورپر نافذکرناہے،یہ جومغربی نظام اور تھذیب ہے اس کے خلاف جدوجہدکرناہے اورخصوصاًملک کوامریکی نظام سے آزاد کروانااورجمہوریت کے لئے جدوجہد کرنا تحریک کے اس وقت مدنظرہے….ہم اقتدارکی منتقلی کی بات نہیں کرتے،ہم نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں، اگرنظام میں تبدیلی آگئی،امریکی سامراجی نظام تبدیل ہوگیاتوامریکہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چلاجائے گااس میں اصل کردارتوعوام اداکریں گے،البتہ عوام کورہنمائی کی ضرورت ہے” اسی طرح سے آپ نے ملتان میں ہونے والی قرآن وسنت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”ہم ملک میں وہ نظام چاہتے ہیںجوخدا اوراس کے رسول نے ہمیں دیاہے،ہم موجودہ حکمرانوں کا دیا ہوا نظام تسلیم نہیں کرتے”
تونے   دنیا   کو   بتایا   سبب   امن   و   سکون
یعنی    رائج    ہو   زمانے    میں   الٰہی   قانون۔
علامہ سیدعارف حسین الحسینی کونظام کی تبدیلی کے مطالبے سے دستبردارکرنے یاآپکی توجہ کواس اہم مسئلے سے منتشرکرنے کے لئے حکومت نے ملت جعفریہ کے خلاف پرتشددمنصوبہ بندی تیارکی اوراس سلسلہ میں سب سے پہلاقدم عزادری کے خلا ف اٹھایااورآپ کی قیادت کے پہلے سال میں ہی حکومت کے ایماء پر پاکستان کے مختلف شہروں میں عزاداری پرفائرنگ ہوئی،امام بارگاہیں اورگھرنذرآتش کئے گئے ۔
حکومت کی اس مکروہ سازش کے خلاف قائدشہیدنے یوم سیاہ کااعلان کیااور٢نومبر١٩٨٤ء کے روزسیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کے مرکزی امام بارگاہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا”ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ محرم الحرام کے حالیہ فسادات حکومت کی سرپرستی میں ہوئے ہیں اورحکومت کی یہ سازش ہمیں اپنے مطالبات سے دستبردارکرنے اور نجدی ویہودی آقاؤں کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہے”
اب چونکہ حکومت اورعلامہ سیدعارف حسین کی تحریک کی براہ راست ٹکرتھی توحکومت نے آپ کوناکام کرنے اور عوام کی نظروں میں پست کرنے کی ہرممکن کوشش کی اوراسی کے ضمن میں چندنامورمقررین پرمشتمل ایک ”امامیہ کونسل ”تشکیل دی جس کامقصدقوم کویہ تاثر دیناتھاکہ دوقیادتوں کاحل ایک تیسری قوت ہے لہذاقوم امامیہ کونسل کواپنے حقوق کی پاسبان سمجھے اوراسی کاساتھ دے۔
قائدشہیدابتداہی سے اجتمائی سوچ کے مالک تھے اورآپ کی دیرانہ آروزوتھی کہ دنیاکے مسلمان قرآن وسنت کی پیروی کرتے ہوئے بیدارہوکر اسلام کانام روشن کریں اس آفاقی سوچ کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں کو بیدار کرنااپنی اہم ذمہ داری سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی قوم کے نام پہلے پیغام میں فرمایاکہ خداوند متعال کسی قوم کی تقدیریں اس وقت تک نہیں بدلتاجب تک وہ قوم اپنے اندر تبدیلی نہیں لاتی اورکوئی بھی قوم اپنے ہدف ومقصدکواس وقت تک نہیں پاسکتی جب تک کہ اپنے اندرتحریک نہ لائے،ہمارے معاشرہ میں شیعہ قوم ہمیشہ بی نظمی کاشکاررہی ہے مگرجب بھی ان پرمشکل وقت آیاہے توسیسہ پلائی ہوئی دیواربن کردشمن کا مقابله کیاہے،چاہے وہ پلیٹ فارم شیعہ مطالبات کمیٹی کے نام سے ہویااس وقت تحریک نفاذفقہ جعفریہ کے نام سے اوراس پلیٹ فارم پرشیعہ قوم نے اسلام آبادمیں عظیم کامیابی حاصل کی یہ بھی تاریخی حقائق ہیں کہ جو قوم بھی کامیابی کے بعدمیدان خالی کردیتی تووہ حاصل کی ہوئی کامیابی بھی کھوبیٹھتی ہے ۔ای شیعہ قوم کے بزرگ وجوانو :خداکے لئے بیدارہوکردشمن کی ان سازشوں کوناکا م بنادو جن کی وجہ سے ہمیں آپس میں عقیدتی مسائل میں الجھاکردست وگریبان کررہے ہیں تاکہ آسانی سے ہمارے مسلمہ حقوق پرڈاکہ ڈال سکیں ہمارے اندر کسی قسم کاکوئی عقیدتی اختلاف نہیں ہے یہ فقط استعمارو استکبار کی سازش ہے جسے استعمال کیاجارہا ہے ایران،لبنان اوردوسرے مختلف مقامات پرشکست کے بعداب پاکستان کونشانہ بنایاجارہاآج ہمیں اپنی صفوں میں اتحادو وحدت قائم کرنے کی ضرورت ہے۔آج ہماری مذہبی اورتحریک نفاذفقہ جعفریہ کی عزت و عظمت ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے اگرہم اپنے اندرنظرکرتے غورکریں توسمجھ سکتے ہیں کہ اپنے ہدف سے کتنادورہیں ۔
جب شہیدقائدنے ملت کے رہبرکی حیثیت سے اپنی جدوجہداوروقت کے مطلق العنان آمریت سے مقابلے کاآغازکیا توآپ کی یہ ٹکرکوئی ذاتی ٹکرنہ تھی بلکہ یہ تسلسل تھااس جنگ کاجس کاآغازقائدمرحوم مفتی جعفرحسین نے اپنی قوم کے حقوق کی بازیابی کے لئے کیاتھاعلامہ عارف حسین نے بھی یہ جنگ اسی مورچہ میں بیٹھ کرلڑی جومفتی صاحب کی میراث تھاالبتہ وقت کی نزاکتوں اورحالات کے تقاضوں کی وجہ سے سابق اورموجودہ سپہ سالارکی جنگ کے اندازمیں فرق ضرورتھامگرہدف ومقصدایک تھایہی وجہ تھی کہ آپ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی اگلے روز”لارڈزہوٹل ”لاہورمیں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ”ہم تحریک کے پلیٹ فارم پرکوئی نئے مطالبات کاتقاضانہیں کرتے بلکہ ہماری تحریک کاسفرجس مقام پر ہمارے مرحوم قائد علامہ مفتی جعفرحسین اعلیٰ اللہ مقامہ  چھوڑ کرگئے تھے وہیں سے پھرشروع ہورہاہے ۔ہم حکومت سے معاہدہ اسلام آبادپرعمل درآمدکرنے کامطالبہ کرتے ہیں”
قائدشہیدحضرت علامہ سیدعارف حسین الحسینی کی جانب سے ضیاء الحق کے اقتدارکے خلاف پہلاعملی سیاسی قدم نام نہادصدارتی ریفرنڈم کابائیکاٹ تھا ١٩دسمبر١٩٨٤ء کو ہونے والے ریفرنڈم میں عوام سے صرف ایک سوال کیاگیاتھاکہ ”کیاوہ پاکستان میں قرآن اور اسلام کا نفاذچاہتے ہیں؟اگرچاہتے ہیں توپھرضیاء الحق پانچ سال کے لئے صدرمملکت ہوںگے”تمام جماعتوں سے پہلے تحریک نفاذفقہ جعفریہ نے مستدل دلائل کے ساتھ اس ریفرنڈم کے بائیکاٹ کااعلان کیا،آپ کے اس اعلان پرحکومتی ایجنسیوں نے اپنے ماہرانہ کردارکی روشنی میں تمام قومی اخبارات میں علامہ سیدعارف حسین کی جانب سے ریفرنڈم کی حمایت میں جعلی بیان شائع کروادیاآپ نے اس جعلی بیان کواپنے اورتحریک کے خلاف سازش قراردیتے ہوئے ملک بھرمیں اپنے دفاترسے اس بیان کی تردید جاری کرنے کاحکم دیا۔
قائدشہیدکی ضیاء آمریت کے خلاف شروع کی گئی جنگ کااحاطہ صرف نام نہادصدارتی ریفرنڈم کے بائیکاٹ کی حدتک محدودنہ تھابلکہ آپ نے مسلسل مارشل لاء،فوجی حکومت اورنظام آمریت کے خاتمہ کے ساتھ جمہوریت کے بحالی پرزوردیاآپ نے دسمبر١٩٨٤ء کو لاہورپریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ”ہم نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جوملک کی دوسری جماعتوں سے رابطے کرکے آمریت کے خاتمے کے لئے لائحہ عمل تیارکرے گی”یہ پہلی پریس کانفرنس تھی جس میں آپ نے کھل کر تحریک نفاذفقہ جعفریہ پاکستان کے سیاست میں شمولیت کااعلان کیااورسیاسی کمیٹی تشکیل دی جس کے کنونیئرحضرت علامہ شیخ محسن علی نجفی اوراراکین میں حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی،حافظ سیدریاض حسین نقوی، آغاعلی موسوی،سیدافتخارحسین نقوی،سیدوزارت حسین نقوی،جنرل ریٹائرڈسیدتصورحسین،ڈاکٹرمحمدعلی نقوی اورآغاصابرعلی صاحب شامل تھے۔
اس کمیٹی کے سیاسی امورمیں مداخلت کے اعلان کے بعدعلامہ سیدعارف حسین الحسینی نے ملک گیردورہ جات میں دین اورسیاست کے تعلق پرزوردیااوراپنی قوم کوسیاست کی اہمیت کااحساس دلوایا۔آپ نے اس سلسلہ کاپہلایادگارخطاب رینالہ خوردضلع اوکاڑہ کے مقام پراایک بڑے اجتماع سے یوں فرمایاکہ ”ہمارے دوقسم کے مسائل ہیں ایک شیعہ اوردوسراپاکستان ہونے کے حوالے سے۔اگرہم نے مذہبی مسائل کوسیاسی مسائل سے ہٹ کرحل کرناچاہاتونتائج قطعاًمثبت نہیں نکلیں گے،چاہے ہم کچھ بھی کرلیں۔کیونکہ یہ مسائل ایک دوسرے پراثر اندازہوتے ہیں۔ اگرہم ملکی سیاست میں اوربین الاقوامی امورمیں اپنے آپ کودوسرے مسلمانوں سے الگ تھلگ کرلیں تو یہ نہ صرف شرعی ذمہ داری سے انحراف ہوگابلکہ یہ اسلام اورقرآن سے روگردانی ہوگی اگرہم نے سیاسی مسائل کو مذہبی مسائل سے دورہوکرسوچاتواس کے نتائج بھی بھیانک ہوںگے۔لہذادین اورسیاست کاربط انتہائی گہراہے اور ہمیں ان دونوں کوساتھ کے کرچلناہوگا”
٢٠دسمبر١٩٨٤ء کوتحریک نفاذفقہ جعفریہ کی مرکزی کابینہ کاتاریخی اجلاس تھاجس کے ایجنڈے پرپاکستان کی سیاست میں تحریک کا کردارنمایاں تھااجلاس کے اس موضوع میں ایم ۔آر۔ڈی میں شمولیت کوخاصی اہمیت تھی اور اس موضوع پرسیرحاصل بحث کی گئی۔اس امرکایہاں ذکرکرنانہایت ضروری ہے کہ اگلے روزجناب افضل حیدرایڈوکیٹ کی رہائش گاہ گلبرگ لاہورمیں ایم ۔آر۔ڈی کے اکابرین کے ساتھ اہم بات ہوناقرارپاچکاتھا۔لہذاشرکاء اجلاس کے سامنے یہ پہلوبھی درپیش تھاکہ ایم ۔آر۔ڈی کے ان اکابرین سے تحریک نفاذفقہ جعفریہ کس حدتک معاونت کے لئے آمادہ ہوگی۔
اجلا س میں تمام شرکاء کی آراء کے بعدقائدشہیدعلامہ عارف حسین الحسینی کواپنی حتمی رائے اورنکةنظرکے اظہارکی دعوت دی گئی توآپ نے حمدوثناء کے بعدموضوع گفتگوپرجامع خطاب فرمایاکہ ”ہم یقیناًسیاست میں واردہوں گے مگراس کے لئے دین مبین کی طرف سے جو تقاضے اورضروریات عائدہوتی ہیں ہم انہیں ہرصورت میں پورا کرنے کے پابندہوں گے ”آپکے ان ارشادات اوراصولوں کے پیش کئے جانے کے بعدشرکاء اجلاس کوایک نئی فکراور راہ مل گئی ۔
اگلے روزپروگرام کے مطابق جناب افضل حیدرایڈوکیٹ کی رہائش گاہ پرایم۔آر۔ڈی کے اکابرین نوابزادہ نصراللہ خان، راؤ عبدالرشید،ملک محمدقاسم اورسیدافضل حیدرسے تحریک نفاذفقہ جعفریہ کاوفد جوحضرت علامہ سیدساجدعلی، سیدافتخارحسین نقوی،آغاعلی موسوی،سیدوزارت حسین اورڈاکٹرمحمدعلی نقوی پرمشتمل تھا نے گفت وشنید کی۔تحریک کی جانب سے ایم ۔آر۔ڈی کے اکابرین کومطالبہ پیش کیاگیا کہ اگر ایم ۔آر۔ڈی کامیابی کے بعدشیعہ حقوق کے مکمل تحفظ کی ضمانت دے توتحریک نفاذفقہ جعفریہ  ایم ۔آر۔ڈی میں شامل ہونے اورحکومت کے خلاف اپناموثرکرداراداکرنے کے لئے آمادہ ہے ۔نوابزادہ نصراللہ خان نے جواباًکہاکہ ایم ۔آر۔ڈی شامل جماعتیں چارنکات پر اشتراک عمل رکھتی ہیں۔
(١)ملک میں مارشل لاء کاخاتمہ
(٢)١٩٧٣ء کے آئین کی بحالی
(٣)جمہوریت کی بحالی اورانتخابات کاانعقاد
(٤)سیاسی اسیران کی رہائی
اگرآپ (تحریک کے اکابرین )اس اتفاق کرتے ہیں اوراسے ملکی مفاداتکے لئے ضروری سمجھتے ہیں توہم آپ کے تعاون کے خواہاں ہیں۔آپ کی  ایم ۔آر۔ڈی میں شمولیت ہمارے لئے تقویت کاباعث ہوگی چونکہ ایم ۔آر۔ڈی میں شامل جماعتیں اپنی تحریک کی کامیابی کے بعدانتخابات کے لئے مشترکہ لائحہ عمل نہیں رکھتیں اوریہ بھی واضح نہیں کہ انتخابات کے نتیجہ میں کونسی جماعت برسراقتدارآئے گی اورآپ کے مطالبات کوکس حدتک تسلیم کرے گی لہذاآپ کے مطالبات پرغوروخوض کی ضرورت ہے۔اجلاس میں دیگراکابرین نے کافی بحث کی اورآخرکارطے پایاکہ تحریک مطالبے کو ایم ۔آر۔ڈی کے چارنکاتی اشتراک عمل میں شامل نہیں کیاجاناچاہئے تاہم  ایم ۔آر۔ڈی میں شامل تمام جماعتیں تحریک نفاذفقہ جعفریہ کوتحریراًیہ قول واقراردیں گی کہ انتخابات کے بعدجوجماعت یاجماعتیں بر سر اقتدارآئیں گی وہ تحریک کے اس مطالبہ کوپوراکریں گی۔
اسی شام قائدشہیدنے پریس کلب لاہورمیں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیااوراعلان کیاکہ آج ایم ۔آر۔ ڈی کے اکابرین کے ساتھ ہماری گفت وشنیدکے نتیجہ طے پایاہے کہ ہم حکومت کے خلاف ان کی جدوجہدمین بھرپورمعاونت کریں گے البتہ ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ فی الوقت ہم  ایم ۔آر۔ڈی میں باقاعدہ شمولیت اختیارنہیں کر رہے۔آپ کی اس پریس کانفرنس کے بعد ایم ۔آر۔ڈی کے تحت سیاسی فعالیت میں تحریک کے کارکنان کاکردارقابل تحسین رہا۔حتیٰ کہ ملک کے بڑے معروف صحافی وارث میرمرحوم نے اپنے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے مضمون میں تحریرکیاکہ ” ایم ۔آر۔ڈی کے دامن میں تحریک نفاذفقہ جعفریہ کے کارکنان کے سواکچھ بھی نہیں”۔
١٨جنوری١٩٨٥ء کوتحریک کی مرکزی کونسل کااجلاس گنبٹ سندھ میں منعقدہواجس میں فیصلہ کیاگیاکہ تحریک موجودہ غیرآئینی اور غیرجمہوری حکومت کے خلاف جدوجہدمیں ہراس جماعت کاساتھ دے گی جوملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے کوشاں ہوگی اورہمیں اپنے حقوق کے تحفظ کایقین دلائے گی۔
١٩٨٥ء میں جنرل ضیاء نے جب غیرجماعتی بنیادپرالیکشن کااعلان کیاتواس غیرآئینی اورغیرجمہوری اندازمیں الیکشن کروانے کے خلاف بھی قائدشہیدنے سخت احتجاج کیااسی سلسلہ میںٹنڈوالہ یارسندھ کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”غیرجماعتی انتخابات آئین کی خلاف ورزی،عوامی جذبات اورحقوق کاقتل ہے۔ان (انتخابات)سے معرض وجودمیں آنے والی اسمبلیوں کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہوگی اورنہ ہی ارکان اسمبلی عوامی نمائندگان کہلوانے کاحق رکھتے ہیں۔ایسی اسمبلیاں ذاتی مفادات کواجتماعی مفادات پرترجیح دیں گی اور ملک میں وہی کچھ رائج کریں گی جس کاصدرمملکت اشارہ دیں گے ۔جس روزبھی ان کا،آمرحکمران کے مزاج کے خلاف کوئی قدم اٹھااسی روزاسمبلیوں کاخداحافظ ہوگا”۔
آخرزمانے نے دیکھاکہ ٢٩مئی ١٩٨٨ء کواسمبلیاں بلاجوازکالعدم کردی گئیں اوریوں مارشل کے اندھیرے میں چلنے والی جمہوریت کی نحیف شمع بھی گل ہوگئی جہاں ملک بھرکے دیگرسیاستدانوں نے صدرکے اس مکروہ فعل کی مذمت کی وہاں قائدشہیدنے پشاورمیں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ”ہم نے بہت پہلے واضح کردیاتھاکہ چیف آف آرمی سٹاف کی یہ دوہری حیثیت ملک وقوم اورجمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے،جب بھی صدرچاہیں گے اپنے مفادات  کی تکمیل کے لئے خوش فہم اراکین اسمبلی کی چھٹی کرادیں گے بالآخروقت نے ہمارے موقف کی سچائی ثابت کردی ہے۔
جب شہیدبزرگوارکی قائدانہ صلاحیتیں قومی عظمت اورسیاسی مقبولیت میں بدلنے لگیںتواستعماری قوتوںبالخصوص ملک کے مطلق العنان آمرجنرل ضیاء نے تحریک نفاذفقہ جعفریہ کی جدوجہدکو اپنے لئے خطرہ محسوس کیا نتیجہ میں آپ کی قیادت میںچلنے والی تحریک کو مختلف سازشوںمیںالجھانے کی مہم چلائی گئی اس سلسلے کی پہلی کڑی سانحہ کوئٹہ تھی۔
معاہدہ اسلام آبادکی یادمیںتحریک نفاذفقہ جعفریہ کی جانب سے ٦جولائی١٩٨٥ء کوملک بھرمیںاحتجاجی جلسوںکا انعقاد ہواجس میں حکمرانوںسے واعدہ نبھانے کامطالبہ کیاگیاتھاطے شدہ پروگرام کے مطابق پشاور،لاہوراورکوئٹہ میں صوبائی سطح پراجتماع ہوئے جبکہ سندھ کے حالات کے پیش نظرکراچی میں یہ اجتماع نہ کرنے کافیصلہ کیاگیاتھا۔کوئٹہ کے احتجاجی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تحریک کے صوبائی صدرعلامہ یعقوب علی توسلی نے اعلان کیاکہ یہ پرامن اجتماع حکومت بلوچستان کومعاہدہ اسلام آبادکی یاداشت پیش کرے گاابھی مظاہرین قندھاری امام بارگاہ واقع علمداروڈسے باہرنکلے ہی تھے کہ وہاں پرپہلے تعینات پولیس نے اندھادھندفائرنگ شروع کردی صوبہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں حکومت کی جانب سے شیعہ عوام کے قتل عام اورخون سے ہولی کھیلنے کامنصوبہ ایک گہری سازش کانتیجہ تھا جس کے پس پردہ کئی ایک عوامل پوشیدہ تھے۔
اس دلخراش سانحہ کی اطلاع جب قائدشہید کودی گئی توآپ نے پشاورکے جلسے اورجلوس کی تمام ذمہ داریاں سرحدکے صوبائی صدر حجةالاسلام غلام حسن جاڑاصاحب کے سپردکیں اورخودفی الفورلاہورپہنچے اورسیدھاکربلاگامے شاہ میں اپنی ملت کے احتجاجی اجتماع میں شریک ہوئے ۔قوم سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ ”اگرکوئی سمجھتاہے کہ ہمارے حوصلوں کوتشددکے ذریعہ پست کیاجاسکتاہے تویہ اس کی بھول ہے ۔آج حکومت نے کوئٹہ میں جس بربریت کامظاہرہ کیاہے اس سے اس کے اسلامی ہونے کی قلعی مزیدکھل گئی ہے۔ ہمیں اپنے مطالبات سے دستبردارکرانے کے لئے حکومت نے اگرایساہی رویہ اختیارکیاتوپھراسے جان لیناچاہئے کہ اس کے دن گنے جاچکے ہیں۔ہمارے دشمنوں کوجان لیناچاہئے کہ ہم شہادتوں سے گبھرانے والے نہیں بلکہ یہ شہادتیںہماری تحریک اورہمارے موقف کی اساس کومظبوط کرتی ہیں۔
دوسرے روزآپ چندعلماء کے ہمراہ کوئٹہ روانہ ہوئے مگرآپ کواسی طیارے کے ذریعے کراچی جانے پرمجبورکیاگیاادھرکوئٹہ میں حکومت نے کرفیولگاکرگھرگھرتلاشی کے بہانے خواتین کوزدوکوب کیاگیا۔ہرقیمتی چیزلوٹ لی گئی۔مردوں کواہل خانہ کے سامنے ذلیل کیام گیااوروسیع پیمانے پرگرفتاریاں ہوئیں ۔علماء کرام کوگرفتارکرکے ان پربے پناہ تشددکیاگیا۔
جب قائدشہیدکوئٹہ سے کراچی پہنچے توفی الفورکراچی سے جامعة اہل بیت اسلام آبادروانہ ہوئے اورتحریک کی مرکزی کونسل کا اجلاس طلب کرکے اپنے رفقاء سے تبادلہ خیال کیااسی اثناء پولیس انتظامیہ کی طرف سے آپ کوپاراچنارچلے جانے کی ہدایات جاری کیں ۔ آپ اسلام آبادسے نکل کرفیض آبادکے مقام پرپہنچے ہی تھے تو اعلیٰ حکام کی ہدایت پر وہاںسے پولیس کی حراست میں سیدھے کوہاٹ لے جایاگیاجہاںآپ کوریسٹ ہاؤس میں رکھاگیااوراگلے روزآپ کوکوہاٹ ریسٹ ہاؤس سے پاراچنارپہنچاکرنذربندکردیاگیا۔
قائدشہیدپاراچنارمیںنذربندی کے باوجودپشاورمیںپہنچ ایک اہم پریس کانفرنس کی جس میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”صحافیان محترم جیساکہ آپ حضرات کومعلوم ہے ٦جولائی ملت جعفریہ کاقومی دن ہے ۔١٩٨٠ء کے معاہدہ اسلام آبادسے حکومت کی رو گردانی کے بعدہم ہرسال ٦جولائی کوملک گیراجتماع منعقدکرتے ہیںجس کامقصدمعاہدہ کی یادداشت پیش کرناہوتاہے کیونکہ یہ تجدیدعہدکا دن ہے۔حسب معمول ہم نے اس سال بھی اپنے قومی دن کی یادتازہ رکھی اورملک گیرپروگرامات منعقدکرائے مگرحکومت جواپنے وعدے روگرداں ہے،اپنی شرمساری کاداغ چھپانے کے لئے ہمارے کوئٹہ کے مظلوم عوام پروحشیانہ تشددکیاجس کے نتیجہ میں ہمارے سترہ(١٧) سے زائدافرادشہیداورسوسے زیادہ زخمی ہوگئے ہیںاپنے نہتے عوام کوگولیوں کانشانہ بناناحکومت کے اسلامی ہونے کی حقیقت کوآشکار کرتا ہے ۔صحافیان محترم اگرہماراہنگامہ آرائی کاپروگرام ہوتاجیساکہ حکومت الزام لگارہی ہے ہے توپھرملک گیرہنگامہ ہنگامے کرکے حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ۔مجھے افسوس ہے کہ کہ حکومت نے نہ صرف نہتے عوام پرگولی چلائی مگررفقاء کوشہداء کے لواحقین سے دلجوئی اورتعزیت کرنے کی بھی اجازت نہیں دی ۔حکومت کے اس ظالمانہ فعل پرہمیں بے صدمہ پہنچاہے مگرہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ہماری تحریک کو شہداء کے خون سے تقویت ملی ہے کیونکہ ملک کے تمام ذی شعورافراداورسیاستدانوںنے حکومت کی بھرپورمذمت کی ہے۔ہمارامطالبہ کل کی آج بھی وہی ہے کہ حکومت معاہدہ اسلام آبادپرعمل کرکے ہماری بے چینی کوختم کرے اورملت جعفریہ پرعائدتشددآمیزپالیسیوں سے بازآئے۔
ان کٹھن حالات کے باوجودقائدشہیدنے مرکزی کونسل کااجلاس طلب کیااورملک بھرسے مرکزی کونسل کے اراکین کی ایک کثیر تعدادنے پورے شدومدکے ساتھ شرکت کی چنانچہ رضویہ ہال صادق آبادمیں یہ اجلاس کامیابی کے منعقدہواجبکہ حکومت کی طرف سے عندیہ تھاکہ تحریک کے مرکزی اجلاس کی صورت میں تمام اراکین کو گرفتار کر لیا جائے گا۔
اس بھرپوراجلاس میںسانحہ کوئٹہ کے ہرپہلوپرگفتگوہوئی اورآخرمیں طے پایاکہ کوئٹہ میں اسیرعلماء کرام اوردیگرمومنین کی رہائی کے لئے علماء اوردینی مدارس طلبہ کااسلام آبادمیں ایک احتجاجی مظاہرہ منعقدکیاجائے گاطے شدہ فیصلے کے مطابق ٢١جولائی ١٩٨٥ء کوہونے والے اس منفرداحتجاجی مظاہرے میں دوہزارسے زائدعلماء کرام اوردینی مدارس کے طلبہ نے شرکت کی روحانی لباس میں ملبوس علماء کرام کا یہ پروقارجلوس تمام پابندیاں عبورکرکے مدرسہ آیةالحکیم راولپنڈی سے وزارت مذہبی امورکے دفترکے سامنے پہنچ گیااورکئی گھنٹوںتک احتجاج کاسلسلہ جاری رہاجبکہ دوسری مذکرات بھی ہوتے رہے مگرخاطرخواہ نتیجہ نہ نکنے پرعلماء کرام نے اسلام آبادمیں دھرنادینے کافیصلہ کیا اورمرکزی امام بارگاہ کیمپ لگالیا۔آخرتیں چارروزکے اس احتجاج کے بعدحکومت بعض مطالبات تسلیم کرنے پررضامندہوگئی۔
١٩گست ١٩٨٥ء کوشہداکاچہلم علمدارروڈپرعیدگاہ میں منایاگیاجس میں تحریک کے قائدین بالخصوص علامہ سیدساجدعلی نقوی ، سید افتخار حسین نقوی،شیخ مہدی نجفی اورریٹائرڈجنرل سیدتصورحسین نے شرکت فرمائی پورااجتماع شہداء کی مظلومیت میں آنسوں بہارہامجلس کے اختتام پرعلامہ سیدساجدعلی نقوی کی سربراہی میں بچوںکاایک جلوس برآمدجواپنے محبوب قائداورشہداء کی تصاویراٹھائے ہوئے قبرستان روانہ ہوا،قبرستان پہنچ کراسی رقت انگیزاورماتمی ماحول میں اپنے محبوب قائدسیدعارف حسین الحسینی کے ساتھ بھی ایفائے عہدکیا گیا ۔
اگست میں ماہ محرم الحرام کاآغازہوا ۔ایام عزامیں سانحہ کوئٹہ کی حقیقت اورشہداء واسیران کی مظلومیت کاپرچارکیاجاتارہاجس سے اسیران کوئٹہ کی رہائی اورحکمرانوں کی رسوائی کے لئے ملک گیر تحریک چل پڑی۔علامہ سیدعارف حسین الحسینی نے تحریک ایک ہنگامی اجلاس میں اسیران کوئٹہ کی رہائی کے لئے ایک لائحہ عمل دیاجوانتہائی پرامن تھا۔آپ نے فرمایاکہ ”ہمیں اس تحریک کونشراشاعت اورحکمرانوں کوٹیلی گرامزسے شروع کرناچاہئے اورپھراسے آہستہ اہستہ اوپرلے جانے کی ضرورت ہے۔نشرواشاعت اورپرامن مظاہروں سے سلسلہ شروع ہو الاکھوں پمفلٹ تقسیم ہوئے ،ملک بھرمیں دیواروں پرنعرے لکھے گئے،حکمرانوں کوہزاروںٹیلیگرامزارسال کئے گئے ۔اسیران کوئٹہ کوملک بھر سے خطوط لکھے گئے۔ جس کی بدولت جیل سپرنٹنڈنٹ سے لے کرحکمران تک کی نیندیں حرام ہوگئیں۔
١٠اپریل ١٩٨٦کوتحریک کے دوسرے سالانہ کنونشن منعقدہ ملیرکراچی میں تحریک کی مرکزی کونسل کے خصوصی اجلاس میںفیصلہ کیاگیاکہ اگرحکومت نے ١٩اپریل تک مطالبات تسلیم نہ کئے توتوتحریک نفاذفقہ جعفریہ ٢٠اپریل سے بھرپورتحریک چلائے گی اس پربھی حکومت نے مثبت جواب نہ دیاتویکم مئی ١٩٨٦ء سے ملک کے کونہ کونہ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کیاجائے گا۔
لانگ مارچ کے اس فیصلہ کااعلان خودقائدشہیدنے کراچی کے ایک پریس کانفرنس میںکیا،ملک بھرمیں آپ کے اس فیصلہ کاخیر مقدم کیاگیا ملت جعفریہ کی تمام تنظیموںاوران کے کارکنان نے شہرشہر،گاؤںگاؤںپہنچ کرقائدکاپیغام پہنچایااوراس تاریخی اعلان کی بھرپور تشہیرکی ۔ملک بھرکے درودیوارحتیٰ کہ ٹرینوں،بسوں اورویگنوں وغیرہ پر”چلوچلوکوئٹہ چلو”تحریرکردیاگیالانگ مارچ کے آغازمیں ١٤افرادپرمشتمل ایک اعلیٰ وفدراولپنڈی سے کوئٹہ روانہ ہواشدیدخدشہ تھاکہ حکومت اس وفدکوکوئٹہ تک پہنچنے میں مزاحمت اختیارکرے گی اس صورتحال میں ٧٢افرادپرمشتمل وفدراولپنڈی سے کوئٹہ روانہ کیاجائے گا۔
خلاف توقع ٢٠اپریل کوروانہ ہونے والایہ پہلاوفدنخیروخوبی ٢١اپریل کوکوئٹہ پہنچ گیااوربلوچستان کے گورنرریٹائرڈجنرل محمدموسیٰ نے علامہ سیدساجدعلی نقوی صاحب کواس وفدکی قیادت کررہے تھے مذاکرات کی دعوت دی۔ان مذاکرات کاسلسلہ دوروزتک جاری رہا۔آخر٢٢ اپریل کی شام کوحکومت نے تحریک کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے۔اسیران کی فوری رہائی اوران کے خلاف جھوٹے مقدمات واپس لینے کا وعدہ کیاگیاجس کاریڈیواورٹیلی ویژن پرباقاعدہ اعلان کیاگیا۔
مطالبات تسلیم ہوجانے پرقائدشہیدنے پشاورسے قوم کے نام اپناایک پیغام جاری کیاجس سے لانگ مارچ کومنسوخ کرنے کااعلان کردیا اس پیغام میں ان احباب کابھی شکریہ اداکیاگیاجنہوں نے اس پروگرام کی کامیابی کے لئے شب وروززحمتیں اٹھائیںاوراسی طرح خود قائدشہیدبھی کوئٹہ کے مظلومیں سے ملنے کے لئے ٢٤اپریل کوکوئٹہ روانہ ہوئے ۔راستہ کے مختلف مقامات بالخصوص کوئٹہ اسٹیشن پرآپکاشاندار استقبال ہوا ۔کوئٹہ پہنچ کرسب سے پہلے شہداء کی قبروں پرتشریف لے گئے اورآپ نے ہرشہیدکی قبرپرفاتحہ پڑھی۔تھوڑی دیربعدخطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ”میں خراج عقیدت پیش کرتاہوں ان شہداء کوجنہوں نے اپنی خون کی رنگین روایات کوزندہ رکھا۔میںممنون ہوں ان شہداء کاجنہوں نے خون کانذرانہ دے کرپوری قوم کابھرم رکھ لیا۔انشاء اللہ یہ بے گناہ خون ظالموںکوخس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا۔ہم عہدکرتے ہیں کہ شہداء کے مشن اورخون کی تاثیرکوزندہ رکھنے میںکوئی فروگذاشت نہیں کریں گے۔
اس کے بعدآپ نے زخمی ہونے والے مونین کے علاوہ رہاہونے والے مجاہدین سے مدرسہ امام صادق میں خصوصی ملاقات کی اور ہر ایک سے اس کی داستان غم سنی۔
قائدشہیدکی تحریک کوالجھانے کے لئے استعمال ہونے والی دوسری کڑی ملک بھرمیںفراقہ واریت کی آڑمیں دہشت گردی کا سلسلہ تھا اورآپ کی قیادت میں١٩٨٦ء کاسال ،شیعت کے قتل عام کاسال تھاپورے ملک میںامام بارگاہوں ،مساجداور شیعہ اجتماعات کو نشانہ بنایا گیا یہاں تک درسگاہوں کے امامیہ طلبہ،سرکاری اورنیم سرکاری اداروں کے اعلیٰ شیعہ افسران اورتحریک کے کارکنان حکومتی کاروائیوںکی زد میں تھے۔١٧ ١ور١٧سے اوپرگریڈکے تمام شیعہ افسران کی فہرستیں تیارکرنے کی ہدایات جاری کی گئیں تھیں۔فوج میں مذہبی لٹریچرکی تقسیم کے ساتھ ساتھ شیعہ جرنیل حکومتی کاروئیوںکانشانہ بنتے جارہے تھے ،یہی عدلیہ کاحال تھاشریعت کورٹ یادیگرعدالتوں میںشیعہ ججوں پرایک قسم کاقدغن تھا۔غرضیکہ کسی بااختیارادارے کی سربراہی یااہم عہدوںپرملت جعفریہ کے افرادکادائرہ تنگ کیاجارہاتھا۔ گلی کوچوں سے لے کرپارلیمنٹ تک شیعہ مخالفین کاراج تھا ۔
اس منصوبہ کے تحت اہل تشیع کی شہ رگ حیات یعنی عزاداری حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کوتشددکانشانہ بنایاگیااور اس کی راہ میںرکاوٹیں کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی ۔جس کے نتیجہ میں لاہور۔راولپنڈی،سرگودھا،ملتان،لیہ،ڈیرہ اسماعیل خان ،ڈیرہ غازی خان،جھنگ،اٹک،کراچی،بدین،بھکر،میانوالی اوربھاولپورکے علاوہ پاکستان کے مختلف مقامات میںایک حکومتی پروردہ گروہ سے عزاداری پرمنظم حملے کرائے گئے۔
یہ فسادات نہ فقط حکومت کی ایماء پرہوئے بلکہ بعض مقامات پرپولیس کی نگرانی میں سرانجام دیئے گئے،اہل تشیع کی مساجد،امام بارگاہیں اورگھروںکونذرآتش کیاگیا۔عزاداری اورماتمی جلوسوں پرفائرنگ تک کی گئی جس کے نتیجہ میں بہت سے عزادارشہیدہوئے۔        ان دلخراش اورپرخطرحالات میںعلامہ سیدعارف حسین الحسینی نے اپنے رفقاء بالخصوص حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی کی معیت میں ملک بھرکے متاثرہ علاقوں کادورہ کیاآپ نے استعمارکی اس فرقہ وارانہ سازش کامقابلہ کرنے کے لئے اپنی حکمت عملی کوچارزاویوں پر مرکوزکیا۔
١۔آپ نے فرقہ وارنہ فسادات کوشیطان بزرگ امریکہ کی قراردے کراسے رسواکیا۔
٢۔آپ نے حکمرانوںکواس سازش کاذمہ دارٹہراکرملک میں ان کے مذموم عزائم کاپردہ چاک کیا۔
٣۔آپ نے مسلمانان پاکستان کواتحادبین المسلمین کی پرخلوص دعوت دی اوروحدت مسلمین کے لئے مثالی کرداراداکیا۔
٤۔ آپ نے اپنے حقوق کے تحفظ کی جنگ جاری رکھی۔
اس نازک دورمیںاس حکمت عملی کاہرزاویہ انتہائی کٹھن اورمشکل تھامگرآپ نے عوام مسلسل روابط،پریس کانفرنسیں،شب وروز کے دورہ جات،بیانات،تقاریراورسیمینارمنعقدکرکے تمام زاویوںکومکمل کیا۔
اکتوبر١٩٨٦ء کو بھیجے گئے قوم کے نام پیغام میںآپ نے فرمایا”برادران ایمانی یہ ہنگامے اوریہ پرتشددواقعات صرف پاکستان تک محدود نہیںبلکہ ان کاتعلق ایران ولبنان میںسامراجیوںکی شکست سے ہے ،ان کاتعلق اقوام متحدہ سے اسرائیل کے اخراج کی کوششوںسے ہے ،ان کاتعلق اسلامیان پاکستان کے قادیان فتنے کے خلاف تازہ جدوجہدسے ہے،یہ ہنگامے سامراجی عناصر کے پے در پے شکستوں کاانتقام لینے کی کوششیں ہیں،یہ ایک صہیونی سازش ہے جواسلام،اتحادملت اورپاکستان کی سالمیت کے لئے زہرقاتل ہے ۔ کراچی کاسواداعظم نامی گروہ اورحکومت براہ راست اس میں صہیونیت کے آلہ کارکی حیثیت سے شامل ہیں۔
١٩٨٨ء میں عیدفطرکے موقعہ پرگلگت میںشیعیان علی کے خلاف ایک گھنی سازش تحت قتل عام کروایاگیاجوکہ پاکستانی تاریخ میں بہت بڑاعظیم سانحہ تھا” جس میں ١٣ قصبہ ودیہات ویران کردئے گئے تھے ”نتیجہ میں بے انتہاء جانی ومالی نقصان ہواگلگت کے اس سانحہ کی مکمل سرپرستی کے حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی کواپنی نمائندگی میں گلگت روانہ کیا۔
فرقہ واریت کی آگ کچھ زیادہ بھڑکنے لگی توآپ نے اسلام آبادمیں ایک پرہجوم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ”صحافیان محترم ۔ آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ گذشتہ چندسالوں سے جہاںپاکستان کے دیگرشہریوں کی آزادیاں سلب کی گئیں ہیں وہاں ملک کی ایک اہم آبادی ”اہل تشیع ”کوبھی ان کے جائزحقوق سے محروم کیاگیاہے ۔ہم ایک عرصہ سے ان حقوق کے لئے تحریک چلارہے ہیں جو انتہائی پرامن ہے۔جہاں ہم نفاذاسلام اوراتحادملت مسلمہ کے لئے سرگرم عمل ہیںوہاں اپنے جائزمطالبات اوراپنی فقہ کے نفاذکے معاملے میںمیں بھی اپناایک موقف رکھتے ہیں۔ہمیںافسوس سے کہناپڑتاہے کہ حکومت ہمارے جائزمطالبات پورے کرنے کے بجائے ہماری راہ میںنئی نئی مشکلات پیداکررہی ہے۔اب حالت یہ ہے کہ نام نہاداسلامی حکومت کے دورمیں نواسہ رسول کی عزاداری بھی خطرات اوربحران کاشکارہے۔
یہ بات ہرگزآپ سے پوشیدہ نہیںہے کہ اس وقت ملک مذہبی منافرت اورفرقہ واریت کی زدمیں ہیاوریہ ناسازگارفضاحکومت کی پیداکردہ ہے ۔شایداسے معلوم نہیں کہ ملک اسیمکدرفضاکاہرگزمتحمل نہیں ہے۔آج حکمران اپنے اقتدارکے تحفظ کے لئے ایسی حرکات کے مرتکب ہورہے ہیںجوکل ملکی استحکام کوپارہ پارہ کرسکتی ہیں۔ملکی بحران اورسیاسی جماعتوں کے دباؤکے پیش نظرعوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے ملک میں فسادات کرائے گئے ہیں ۔ہمیں کچھ مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیںکہ حالیہ فسادات کئی سرکاری ایجنسیوں کے افرادکی ایماء پرہوئے ہیں۔
ہم متاثرہ علاقوں کے دورے کرنے کے بعداس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ کوئی مسلمان مساجداورعبادت گاہوںکوآگ لگانے کی بزدلانہ حرکت کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔یہ امریکی سامراج کے ایجنٹوں کی کارستانی ہے۔جوخالصتاًمادی مفادات اوراپنے آقاؤںکی خوشنودی کی غرض سے کی گئی ہے۔
آپ کی تحریک کوالجھانے کے لئے استعمال ہونے والی تیسری کڑی قانون سازی کی آڑمیں انتقامی کاروائی تھی۔ضیاء الحق کے ایماء پرمولانا سمیع الحق اورقاضی عبداللطیف نے شریعت بل پیش کیااوراس بل کے پیش کرنے والے گروہ کو”متحدہ شریعت محاذ”کانام دیا گیا ۔ضیاء الحق کی طرف سے پیداکردہ مسائل،مشکلات،عزاداری پرحملے اورغلیظ پروپگنڈہ کے علاوہ شریعت بل خالصتاًمسلکی حملہ تھاجوملت جعفریہ کے لئے ناقابل قبول اورناقابل برداشت تھاقائدشہیدنے اپنے علماء اوررفقاء کے تعاون سے اس سازش کے خلاف جنگ لڑی اوراپنی قوم پرواضح کیاکہ ”موجودہ پیشکردہ شریعت بل سے فرقہ واریت کی بوآتی ہے لہذاحکومت اسے تمام مکاتب فکرکے لئے قابل قبول بنائے۔
شریعت بل کے اہم مسئلے میں قائدشہیدنے مختلف مکاتب فکرسے ہم آہنگی کے لئے علامہ سیدساجدعلی نقوی کی سربراہی میںایک کمیٹی پرذمہ داری عائدکی کہ مختلف مکاتب فکرکے اکابرین سے ملاقاتیں کرکے تحریک نفاذفقہ جعفریہ کے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے ملک کو فرقہ وارنہ فضاسے نجات دلانے کے لئے اپنے ساتھ شامل کریںجس کے نتیجہ میںجمیعت علماء اسلام،جمیعت علماء پاکستان اور دیگر سیاسی جماعتوںکے علاوہ تحریک کے وفدکی ملاقات علامہ احسان الٰہی ظہیرسے بھی ہوئی جس میں واضح کیاگیاکہ ملت جعفریہ مسلمانوں کے ہر فرقہ کے حقوق کواپنے حقوق کی طرح مقدم گردانتی ہے لہذاموجودہ شریعت بل میںملت جعفریہ تمام مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑے گی اور اسے ہرمکتب فکرکے لئے غیرمتنازعہ بنانے تک اپنی جنگ جاری رکھے گی۔
شریعت بل کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں مذکورہ تمام جماعتوںنے حصہ لیااوران سب میںاہم کرداراہلحدیث کے قائد علامہ احسان الٰہی ظہیرکاتھایہی وجہ تھی کہ انہیں ٢٣مارچ١٩٨٦ء کوقلعہ لچھمن سنگھ لاہورکے ایک جلسے میں بم کانشانہ بنایاگیا۔  یہ قتل اس وقت ہواجب شریعت بل کی جنگ اپنے عروج پرتھی اورفرقہ واریت کالاواپھٹ رہاتھااس قتل سے حکمرانوں نے جہاں ایک مظبوط مخالف سے اپنی جان چھڑائی وہاں یہ قتل ملت جعفریہ کے کھاتے میں ڈالنے کی بھرپورکوشش بھی کی تاکہ فرقہ وارانہ فسادات کوہواملے۔
قائدشہیدنے لاہورمیں خیالات کااظہارکرتے ہوئے فرمایاکہ”علامہ احسان الٰہی ظہیر اوران کے رفقاء کے بہیمانہ قتل میںملت جعفریہ کے کسی کارکن کاتعلق نہیں۔بلاشک وشبہ حکومت اس میں ملوث ہے کیونکہ علامہ صاحب اس وقت اپنے عقائدکی بناء پرحکومت اورمتحدہ شریعت محاذکے سخت مخالف تھے۔
آپ نے مزیدفرمایاکہ ”شریعت بل کے مسئلے پرعلامہ سیدساجدعلی نقوی سے علامہ صاحب کی ملاقات ہمارے لئے حوصلہ افزاء ثابت ہوئی تھی ہماری اس ہم آہنگی سے جہاں ہمیں شریعت بل کے خلاف متحدہونے کااطمینان تھاوہاں مستقبل میں فرقہ واریت کے ختم ہونے کی امیدبھی تھی۔ہم علامہ اوران کے رفقاء کے قاتلوں کی گرفتاری کانہ صرف مطالبہ کرتے ہیں بلکہ اس معاملے میں ہم جمیعت اہلحدیث کے برادران کے شانہ بشانہ ساتھ ہیں۔ہمیں ایک عالم دین اوران کے رفقاء کے قتل کابے حدافسوس ہے۔
جون ١٩٨٨ء میں لاہورکی ایک پریس کانفرنس میںفرمایاکہ ”ہم ایسے ہراس قانون (مجوزہ شریعت بل )کی مزاحمت کریں گے جو ہمارے اوپرہماری فقہ کے خلاف مسلط کیاجائے۔نفاذشریعت کے لئے ٦جولائی ١٩٨٠ء کامعاہدہ اسلام آبادمختلف مکاتب فکرکے درمیان ہم آہنگی کے لئے بہترین بنیادفراہم کرتاہے جس پرعمل درآمدبے حدضروری ہے۔  )(
مسلمانوں کے اتحاد کوپارہ پارہ کرنے کے لئے ایک مکارانہ چال کے تحت یہ ایماء دیاکہ یہ تحریک پاکستان کے اندرفرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پربنائی گئی ہے اوراس سے پاکستان کے اندر ایرانی انقلاب کو پھیلانامقصودہے جس کے نتیجہ میںیہ تحریک پاکستان میں بھی فقہ جعفریہ کانفاذکرناچاہتی ہے،اس طرح سے حکومت کی پشت پناہی میںتحریک کے مقابلے میں شیعہ مخالف ذہنیت اورمتعصب گروہ کوابھاراگیاتاکہ تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کوروکاجاسکے ۔
دشمن کی اسی سازش کوبھامتے ہوئے علامہ عارف حسینی   امت مسلمہ میں انتشاراورافتراق پیداکرنے والے عناصرسے بھی سخت نالاںتھے،انکی خواہش تھی کہ مسلمان اپنے فروعی اختلافات کوپس پشت ڈال کرمشترکہ دشمن کے خلاف سینہ سپرہوجائیں ،انہوں نے مسلمانوں کے تمام طبقات کوتنگ نظری ختم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا۔ ”برادران اسلامی !میں کہتاہوں کہ تنگ نظری سنیوں میں ہو یاشیعوں میں،اس تنگ نظری کے ذریعے ایک دوسرے کی تذلیل کرنے سے آج تک مسلمانوں کوجتنا نقصان پہنچاہے کسی اورطاقت سے نہیں پہنچا ، ایک دوسرے پرکفرکے فتویٰ لگانا ہمارے ملک کابہت بڑامسئلہ ہے اوراس سے بہت بڑاخطرہ ہے ”  ایک انٹرویومیں اتحادکے لئے اپنا موقف اس اندازسے بیان کیاکہ ”ہمارا اولین مقصد وحدت مسلمین ہے ،تمام مسلمانوں کویکجاکرنا ہے،ہمیں شیعہ سنی اختلافات کی بجائے مشترکات کو اپنانا چاہئے اور ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کااحترام کرناچاہئے اسلامی انقلاب لانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کواسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایاجائے،پھراتحادبین المسلمین کواجاگرکیاجائے تاکہ وہ دشمنان اسلام کی سازشوںسے باخبررہیں اوراس کے بعدوہ امریکہ اور روس سمیت تمام باطل قوتوں کوشکست دے سکتے ہیں” اسی طرح اپنے آخری انٹرویومیں بھی اس اندازسے بیان فرمایاکہ ”پاکستان میں جومذہبی پارٹیاں اورتنظیمیں ہیں اگرتنگ نظری چھوڑدیں،اسلام کے وسیع تر مفاد کو نظرمیںرکھیں اورمل کرایک مشترکہ لائحہ عمل تیارکرلیںتوامیدکی جاسکتی ہے کہ ملک میںصحیح اسلامی نظام نافذہوسکے ،لیکن اگریہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف بیانات اورکفر کے فتوے صادرکرتے رہے اورایک دوسرے پرکیچڑاچھالتے رہے توسوائے اس کے کہ ہماری صلاحتیں ضائع ہوں کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آئے گااورایک صحیح اسلامی نظام نافذہونے کاخواب شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکے گا”
جہاں قائدشہیداپنے قومی وملی مسائل میں دلچسپی رکھتے تھے وہاں پراسلامی نکة نگاہ سے دنیابھرکے مسلمانوں کے لئے بھی ان کا دل تڑپتاتھا اورعالم اسلام کے معاملات میں بھی اپنے محاذ کو سنبھالے ہوئے بھرپورکرداراداکرتے تھے خواہ ان مسلمانوں کاتعلق سرزمین فلسطین سے ہویاوادی کشمیرسے،لبنان کے مسلمان ہوں یاآفریقاکے ، دنیاکے جس خطہ میں بھی مسلمانوں پرظلم کی خبرسنتے توانکادکھیاری دل کانپ اٹھتایہی وجہ تھی کہ اکثراپنے خطابات میں افریقی عوام پر نسل پرست اوراستعماری قوتوں کے مظالم کے خلاف آوازاٹھائی اوراس انداز  اپنے موقف کااظہارفرمایا۔”ہم ظالم کے دشمن ہیں اگرچہ وہ ظاہری طور شیعہ ہی کیوں نہ ہواورمظلوم کی حامی ہیںاگرچہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو”  اسی طرح سے جب اپنے پڑوسی ملک افغانستان پرروسی جارحیت اور ساتھ ہی انکے اپنے ہی گھروںکے اندرظلم ہوتادیکھتے توتڑپ اٹھتے اورہمیشہ انکی دلی تمنارہتی کہ کاش وہ بھی روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کا ایک رکن ہوتے اورروس کے خلاف جنگ کرتے اس طرح سے آپ نے افغان عوام کی اسلامی جنگ آزادی کی بھرپور حمایت کی ،لبنان کے ستم رسیدہ مسلمانوں اورفلسطین کے مظلوم مسلمان عوام کی جدوجہدکوخراج عقیدت پیش کرنے کے لئے خود لبنان تشریف لے گئے اوروہاں کی اسلامی قیادت سے ملاقات کی اور انہیںپاکستان کی عوام کی طرف سے ہرقسم کی مددکایقین دلایا ، اسی طرح ایران کے خلاف صدام کی طرف سے مسلط کردہ جنگ میں پوری دنیا بشمول نام نہادمسلمان حکمرانوں اورعرب ممالک کے بادشاہوںکی طرف صدام کی کھل مددکرنااورایران کے اسلامی انقلاب کے راستوں میں رکاٹیں کھڑی کرنے پرآزردہ خاطررہتے تھے اوردلی تمناتھی کہ جس طرح اسلام دشمن طاقتیں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف متحدہیں اسی طرح مسلمان اوراسلامی حکمران بھی قرآنی دستور کے مطابق کہ یہودونصاریٰ ہمیشہ مسلمانوں کے ابدی دشمن ہیںکے خلاف ہیں متحدومتفق ہوجائیں ، وہ ملت اسلامیہ کی پستی،انتشاراوردیگرکمزوریوںکاعلاج اسی میںسمجھے تھے کہ ملت کاہرفردصرف اللہ اوراس کے رسول کے احکامات کے مطابق زندگی بسرکرے اورتمام عالم اسلام حضرت امام خمینی  کی رہبری میں متفق ومتحدہوکراسلام دشمن قوتوں امریکہ،روس اوراسرائیل کے چنگل سے اپنے تمام معاملات آزادکروائے۔
قائدشہیدنے مفتی صاحب کے آخری اعلان کوسامنے رکھتے ہوئے اس وقت کی صورتحال کے تناظرمیںاپنے اہداف متعین کئے اورمذہبی حقوق کے حصول میں اپنا بھرپورکرداراداکرنے کے لئے لاہورمیں عظیم مینارپاکستان، جواس روزکی یادگارہے جب برصغیرکے مسلمانوں نے اس مقام پراسلام کے نام پرالگ مسلم ریاست کی قراردادمنظورکی تھی ٦جولائی ١٩٨٧ء کو عظیم تاریخی ”قرآن وسنت کانفرنس ” کے موقع پراسی مینارکے سائے میں کھڑے ہوکرلاکھوں کے مجمع میں”ہمارارستہ”کے عنوان سے جومنشورپیش کیاوہ عوام کے تمام طبقوں کے لئے تھاوہ ایک معاشرے کی ترقی کے لئے ہمہ گیراورجامع پروگرام تھاوہ اسلامی بنیادوں پرمعاشرے کے مسائل حل کرنے کی ایک ایسی انقلابی منصوبہ بندی تھی کہ جس کی مثال برصغیرکی تمام گذشتہ انقلابی اورسیاسی تحریکوں کے ہاںناپیدہے اسی منشورمیںاسلامی قانون سازی کے لئے ایک ایسی تجویزپیش کی گئی تھی جواس حوالے میں درپیش فرقہ وارانہ اختلافات کے خاتمے کے لئے عمدہ اورٹھوس بنیادبن سکتی ہے، اس کے مطابق اسلامی مسلمات ومشترکات کوپبلک لاء اور اختلافی امورکوپرسنل لابنائے جانے کی تجویزپیش کی گئی تھی،اس منشورکی پاکستان کے بہت سے دانشوروں،رہنمائوں،مزدوروں اورعوامی طبقات نے حمایت کی اوراسے ایک اسلامی وانقلابی منشورکے طورپرسراہا۔
اس طرح سے آپ نے ایک ترقی پسندانہ اسلامی منشورکا اعلان کرکے ملت جعفریہ پاکستان کو اسلامی سیاست کے راستے پر گامزن کرنے کا بے مثال جرات مندانہ اقدام کیاان کی سیاسی زندگی کاسب سے بڑامعرکہ دین اورسیاست کی دوری کوختم کرناتھااس کے لئے انہوں نے عوام کی بیداری کونہایت اہم اورضروری سمجھاہواتھا۔
لوگ   مدہوش   تھے   ڈھالے   ہوئے   افسانوں   میں
دی   اذاں   تونے   سیاست   کے   صنم   خانوں   میں
یقیناً آپ کاسیاست میں عملی طورپرحصہ لینے کافیصلہ پاکستان کے فرسودہ اوراستعمارزدہ نظام میں اذاں دینے کادرجہ رکھتاہے، لاہور کی تاریخی قرآن وسنت کانفرنس میں آپ کی تقریرکے الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں ،آپ نے فرمایا۔”تحریک نفاذفقہ جعفریہ اب ملک کے مجبور ومحکوم مسلمانوں کے اجتماعی حقوق کی بحالی کے ساتھ ساتھ ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لئے جدوجہدکی راہ اختیار کرے گی” آپ نے اپنی قوم کے سیاسی سفر کی ضرورت کواس اندازسے پیش کیاکہ؛
١۔حصول آزادی کے باوجودہم اپنے وطن عزیزمیں اسلامی نظام کانفاذنہیں کرسکے،حالانکہ ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے سے یہ ہمارااولین فرض ہے کہ ہم اپنی زندگی کو”قرآن وسنت ” کی واضح ہدایات کے مطابق استوارکریںاورباطل سامراجی نظریات سے نجات دلائیں۔
٢۔ہمارے وطن عزیزمیں امریکہ اورمغربی دنیاکااثرورسوخ اتناحاوی ہوچکاہے کہ ہمارے صاحبان اقتدارہرمعمولی سے معمولی مسئلے پربھی امریکی منشاکوملحوظ خاطررکھے بغیرقدم نہیں اٹھاسکتے ،لہذا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تقدیرکے فیصلے وائٹ ہاوس کے بجائے اسلام آباد میں ہی ہونے چاہئیں ۔
٣۔پاکستان کے ایوان (پارلیمنٹ ) میں آج تک کوئی ایساشیعہ رکن نہیں پہنچاجوپارلیمنٹ کے اندرشیعہ مکتب کی ترجمانی کرسکے اور  ملت جعفریہ کے حقوق کی نگہبانی کرتے ہوئے ملک کے تمام سیاسی ،اقتصادی ،معاشی اورمعاشرتی مسائل پرشیعہ نکة نظرکوپیش کرے ، لہذا ضروری ہے کہ پوری ملت جعفریہ متحدہوکرایوان میں اپنے نمائندگان منتخب کرکے بھیجے اورمن حیث القوم اس ملک میں اپنابھرپور سیاسی کرداراداکرے؛ انہی استدلال کی بنیاد پرآپ نے سیاست میں قدم رکھا،آپ کی تحریک چندفقہی اورمذہبی مطالبات تک محدودنہ تھی بلکہ آپ ملت اسلامیہ کے تمام مسائل کاحل چاہتے تھے۔
قائدشہیدنے جہاں مارشل لاء دورمیں حکومتی ،سرکاری اورعالمی سازشوں کامقابلہ کرتے ہوئے تشیع پاکستان کوعالمی سطح پرمتعارف کروایاوہاں اپنی تنظیم کوپھیلانے اورملت کے اندونی مسائل کے لئے زبردست اقدامات کئے ،عوامی رابطہ مہم تیزکرکے براہ راست لوگوں سے مربوط رہے اورملت میں تحریک کے وقاروعزت کوبلندکرکے پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیواربنادیاوطن عزیزکے اندراستعماراوراس کے گماشتوں کو پوری طرح بے نقاب کیااوردین مبین اسلام کے خلاف ہونے والی ہرسازش کابھرپورجواب دیااتحاد بین المسلمین کے لئے انتھائی مخلصانہ کوششیں کیںاوراس طرح سے ملت تشیع کو قومی دھارے پرلاکھڑکیا۔قائدشہیدنے چونکہ اپنی تحریک کی کارکردگی وسیع کرکے سیاسی پلیٹ فارم پرلے آئے تھے لہذافطری تھا کہ اس تحریک وشیعہ قوم کے مطالبات  میں وسعت آئی ۔
مختصریہ کہ پاکستان میں اتحادبین المسلمین ،پاکستانی ملت پر استعماری سائے کی نابودی ،ملت کی شرق وغرب کے تسلط سے آزادی، عوام کے جمہوری حقوق کی بازیابی اورجمہوریت کی بحالی،پاکستان میں ایک حقیقی اورعادلانہ اسلامی معاشرے کے قیام ،انفرادی اوراجتماعی ، ملکی اور عالمی سطح پرہرقسم کے ظلم کی مخالفت ، امام خمینی  کی رہبری میںعالم اسلام میںاتحادکے خواہاں تھے اپنی قیادت کے ساڑھے چار سالہ دور میں اپنے ان اہداف کی حصولی کے لئے موسم کی سختی اورسردی وگرمی کی پرواہ کئے بغیرہمیشہ پابہ رکاب رہے اوراس مقصدکے لئے عوام میں بھرپوربیداری پیداکررہے تھے جس سے استعماراوراستعماری ایجنٹ بوکھلااٹھے،استعمارکبھی اس بات کوبرداشت نہیں کرسکتاتھاکہ ایک جوان،صالح عارف،عالم ،مجاہد حسینی جوکہ اسلام کاپرچم بلندکرنے اورملت پاکستان کی رہبری کے لئے آگے بڑھاہے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے اورترقی کی منازل طے کرے اس لئے ہمارے عظیم رہنمااورقائدکوہمیشہ کے لئے اپنی قوم سے جداکرنے کے درپئے تھا ۔
بہرحال ان ساڑھے چارسال کی اجتماعی جدوجہدنے یہ بات ثابت کردی کہ وہ درحقیقت مکتب اہل بیت وکربلاکے تربیت شدہ،     محروم و مستضعف کی نجات کے داعی اور امت اسلامی کے دردمندرہبراوراسلام کی حکیمانہ تعلیمات کے عارف تھے، وہ کوئی عام سے رہنمانہ تھے کہ جن کے لئے اسلام محمدی کے پرچمدار ، عصر حاضر کے شاہکاراورمستضعفین جہان کے امیدوںکی کرن حضرت آیة اللہ العظمیٰ امام خمینی نے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
پاکستان کی شریف اورمسلمان قوم جوانصافاًایک انقلابی اوراسلامی اقدارکی وفادارقوم ہے اورہمارے ساتھ اسکے پرانے،گرم و گہرے،انقلابی،عقیدتی اورثقافتی روابط ہیں،اسکو چاہئے کہ اس شہیدکے افکارکوزندہ رکھے اورشیطان زادوں کواسلام محمدی کے رشد و ارتقاء میں رکاوٹ بننے کی ہرگزاجازت نہ دیں۔
علامہ عارف حسین الحسینی  جہاں میدان عمل وجہادمیں درخشاں تھے وہاں عبادت وریاضت میں بھی اپنے کمال کے درجہ پرفائزتھے ، نماز و دعامیں آپ کا خضوع وخشوع کس کوبھول سکتاہے،نمازشب توطالب علمی کے زمانے سے آخری عمرتک شایدہی کبھی ترک ہوئی ہو۔
پاکستان کی تاریخ میں وہ ایک بدترین المیہ تھا جب ٥،اگست ١٩٨٨ کوبوقت نمازصبح مدرسہ جامعة المعارف الاسلامیہ پشاورمیں قائدمظلوم علامہ سیدعارف حسین الحسینی   کوشہیدکردیاگیا،پاکستان میں یہ ایک نہایت ہی سنگیں ترین واقعہ تھاکیونکہ ایک ایسے انسان کاقتل تھا جو پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کی دل کادھڑکن تھاان کے قتل کی خبرپھیلنے سے پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی،صرف پارہ چنارکے تین سو افراد اس قیامت خیزخبرسننے سے بے ہوش ہوگئے تھے ،جنازے میں شرکت کے لئے ملک بھرسے سوگوار روانہ ہوئے اورانکے جلوس جنازہ میں لاکھوں افرادنے شرکت کی اورہمیشہ کے لئے اپنے آبائی گاوں پیواڑ میں دفنادئے گئے ۔
قائدشہیدکی شہادت نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام  کے لئے ایک ایساعظیم سانحہ تھاجس نے انقلاب اسلامی کے قائد اورولی امر مسلمین جہان حضرت آیة اللہ العظمیٰ امام خمینی   کوبھی متاثرکرلیااورامام خمینی  نے اس موقع پرایک تاریخی تعزیتی پیغام جاری کیا،جو عالم اسلام خصوصاً پاکستان کی شریف اورمسلمان قوم کے لئے فکری اوربیدارکن پیغام تھا حضرت امام خمینی  اپنے اس پیغام میں مختلف مسائل کی طرف ملت اسلامیہ کومتوجہ کراتے ہوئے ایک خاص نکتے کی طرف نشان دہی کرتے ہیں، جس کے تجزے اورتحلیل سے خصوصاًہم اہل علم
اور علماء اپنی ذمہ داری کے انجام دہی میں اپنے شہیدقائدسے شرمندہ ہیں۔
امام خمینی   اپنے پیغام میں ارشادفرماتے ہیں کہ : ۔  ”…اے کاش ! ان عالمی درندوں کی تمام جارحیت اورمکارانہ سیاست کھلم کھلا اورعیاں ہوتی ،جیساکہ افغانستان کے مسلمان اورشجاع پرورملک میںہوا،تاکہ مسلمان ان غاصبوں کے جھوٹے اقتداراوردبدبے کوپاش پاش کردیتے ، لیکن امریکی اسلام سے مقابلے کی راہ کچھ خاص پیچیدگیوں کی حامل ہے،اسکے تمام زاویے غریب اوربے نوامسلمانوں پر واضح ہونے چاہئیں ،لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کئی اسلامی اقوام کو،امریکی اسلام اورحقیقی اسلام محمدی ،محرومین ومستضعفین کے اسلام اورمقدس نما،ساکت وخاموش بتوں اورخداسے بے خبرسرمائے داروں اورمالداروں کے اسلام کافرق معلوم نہیںہے،لہذا اس حقیقت کا روشن کرنا کہ ایک ہی مکتب اورایک ہی آئین میںدومتضاداورمخالف تفکرکاوجودناممکن ہے،یہ مسئلہ ایسے اہم ترین سیاسی واجبات میں سے ہے کہ اگر علمی ودینی مدارس میں یہ وضاحت ہوجاتی توقوی امکان تھاکہ آج ہمارایہ عزیزسیدیعنی عارف حسین الحسینی ہمارے درمیان موجود ہوتا …”
امام خمینی نے اپنے اس پیغام میںجس اہم نکتے کی طرف اشارہ فرمایاہے وہ ہے امریکی اسلام کا مسئلہ اوراس میں پیچیدہ راستہ کی شناخت یعنی اگرہماری قوم ،تمام علماء کوچاہے مجاہداورآفاقی سوچ کے مالک ہوںیاجموداورمقدس مآبی کاشکار ہوں،ترقی پسندعالم ہوںیادنیاوی، اجتماعی اور سیاسی مسائل سے کٹے ہوئے عالم ہوں،یاوہ عالم جودوست ودشمن کی تمیزنہ کرسکتاہو سب کوایک ہی نگاہ سے دیکھیں تواس کامطلب یہ ہوگاکہ گویا ہم امریکی اسلام اوررسول اللہ کے حقیقی اسلام کوایک دوسرے سے جداکرنے میںقاصررہے ہیں اوریہ علماء کافریضہ ہے کہ وہ ان دومتضاداسلاموں کے چہرے کی شناخت کروائیں ،جہاںاسلام کے نام اوراسلام کے ہی لباس میں اسلام کے خلاف ہونے والی سازش سے عوام کوآگاہی دے کروقت کے ابوموسیٰ اشعری جیسے اشخاص کی اسلام سے غفلت یااسلام کے خلاف استعمال ہونے والے خطرے سے آگاہی دیناہمارے پاکستان کے علماء کی اہم ذمہ داری بنتی ہے وہاں پراپنی مرکزی اوراجتماعی قیادت کی حمایت اورپشت پناہی بھی اہم ذمہ داری  بنتی ہے ،کوئی بھی عالم دین کسی بھی اہم پوسٹ ،مقام اورموقعیت کامالک ہی کیوں نہ ہو،ذمہ داری بنتی ہے کہ ملت کے اکابرین کی طرف سے منتخب شدہ قیادت کی حمایت اورپشت پناہی کرے جیساکہ یہ ہمارے علماء کی سیرت رہی ہے اب حال ہی میں نظرکریں کہ لبنان کے اندرمرحوم حضرت آیة اللہ العظمیٰ سیدمحمدحسین فضل اللہ نے مجتہداورمرجعیت کی مسند پربیٹھ کرشیعیان حیدرکرار اور حزب اللہ کی مرکزی قیادت کی ہمیشہ پشت پناہ بنے رہے اسی طرح ایران میں وقت تمام ترمجتہدین اورمراجع نے ایران کی بت شکن قیادت حضرت روح اللہ الموسوی الخمینی کی بھرپورحمایت کرتے رہے اورآج کے دورمیں حضرت روح اللہ کے حقیقی جانشین اوراس وقت کی عالمی قیادت حضرت آیةاللہ سیدعلی خامنہ ای مدظلہ العالی کی جس اندازسے تمام ترمجتہدین حضرات آیات عظام محمدرضا گلپائگانی ،محمدعلی اراکی ،فاضل لنکرانی محمدتقی بہجت اوراسی طرح آج بھی حضرت آیة اللہ ناصرمکارم شیرازی ،صافی گلپائگانی ،نوری ہمدانی کے علاوہ ایران تمام تراہم موقعیت اورمقام کے حامل علماء اپنی قیادت کے لئے پشت پناہ رہے ہیں ۔
لیکن حضرت امام خمینی  کے اس پیغام سے پتاچلتاہے کہ ہمارے پاکستان کے علماء نے اپنی دینی بصیرت  اوراہم ذمہ داری پرعمل کرتے ہوئے عوام کی بیداری میں جس طرح سے قائدشہید کا ساتھ دیناچاہئے تھا،ساتھ نہیں دیابلکہ انکے راستہ میں بھی روڑے اٹکاتے رہے ہیں جیساکہ ٦جولائی١٩٨٧ء کی عظیم تاریخی قرآن و سنت کانفرنس کے موقع پرشہیدکے اعلان کردہ سیاسی منشور کو ہمارے ہی کچھ نادان اکابرین اورگوشہ نشین علماء اسلام نے کفراور الحاد پر مشتمل اعلان قرار دیاتھااوراسی طرح علماء کرام نے ہی صرف اتحادو وحدت کی ترویج اور ملت کوبیدارکرنے والے خطابات اورپیغامات کے جاری کرنے کے جرم میں شہید سے استعفاء کامطالبہ کرتے رہے اور کئی باراستعفاء دینے پرمجبوربھی کیا،توکچھ نے استعفے دے کران سے کناراکشی کرنے کی کوشش کی،امام خمینی  کے فرمان کے مطابق اگرعلماء کرام ،امریکی چال بازیوںاوراسلام دشمنی کی مکارانہ سازشوں کوچشم بصیرت کی نگاہ سے عوام تک پہنچانے کی اپنی ذمہ داریوں کوانجام دیتے اورسیاسی و اجتماعی مسائل میں شہیدکاساتھ دیتے توشایداتنا جلدہمار ا عزیز اور مہربان قائدہم سے نہ بچھڑتا،جبکہ آج بھی امام خمینی  کے اس فرمائش کی روشنی میں کام کرنے کی ضرورت ہے ،امام امت خمینی بت شکن نے اپنی اس فرمائش کی روشنی میں علماء حق پرحجت تمام کردی ہے اب علماء اسلام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قوم کوحقیقی اسلام اورامریکی اسلام کے فرق سے روشناس کرائیںاورعوام کوآگاہی دیں کہ پیغمبراسلام کابتلایاہوا اسلام اس طرح کاہے اورامریکہ سے سپلائی شدہ اسلام اس طرح کاہے،اپنی صفوں میں اتحاد و وحدت کوفروغ دیتے ہوئے عوام کودشمن کی سازشوںسے آگاہ کریںاوراپنے موجودہ قائدکے پشت پناہ بنیں۔
قائدشہیدمکتب اہل بیت کے نظریہ ولایت فقیہ پربھی مکمل عقیدہ وایمان رکھتے تھے اورنہ صرف ولی فقیہ کی اطاعت کواپنے لئے فرض عین سمجھتے تھے بلکہ ہمیشہ نظریہ ولایت فقیہ اوروقت کے ولی فقیہ حضرت امام خمینی  کے مدافع رہے اورآپکایہ مشہورفرمان ہے کہ حضرت امام خمینی  کے ذریعہ دنیاکے تمام مسلمانوں پرحق کی حجت تمام ہوچکی ہے ،میں آمادہ ہوں کہ اپنی جان ومال اوراولادقربان کردوںلیکن اس بات کے لئے تیارنہیں ہوں کہ خط ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹوں۔
شہیدکی ثقافتی سرگرمیاں
قائدشہیدکی عظیم یادگارمدرسہ دارالمعارف شیعہ جہاں آپکی شہادت واقع ہوئی اورآپکی شہادت کی ہی مناسبت اس مدرسہ کانام تبدیل کرکے جامعہ الشہیدعارف حسین الحسینی  رکھ دیاگیاکے علاوہ بھی قائدشہیدنے اپنی زندگی میں نجف وقم سے واپسی کے بعدعلمی واجتماعی سرگرمیوںکے ساتھ ساتھ قوم کی ثقافتی خدمات بھی انجام دیں ہیں جن میں سے چندایک کوآپکی اطلاع کے لئے فہرستوارذکرکیاجاتاہے۔
١۔جامعہ اہل بیت ۔انوارالمدارس یہ عظیم قومی سرمایہ اورکزئی کے محروم اورپسماندہ علائقہ تیراہ میںواقع ہے اور ا سی مدرسہ کے نزیک بہت وسیع اورخوبصورت جامع مسجد بھی بنائی یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ جہاں یہ مسجد، دینی مرکزاورمدرسہ بنایاگیاہے وہ زمین قائدشہیدکی ذاتی ملکیت تھی۔
٢۔جامع مسجد سرحدکے علائقہ بنگش میں واقع ہے اس پورے علائقہ تنہایہی مسجدہے جسے اس علائقہ کے مؤمنین اپنے مذہبی پروگراموں کے طورپراستعمال کرتے ہیں۔
٣۔مسجدجماران یہ مسجدبھی سرحدکے شیعہ نشین علائقہ بنگش میںبنائی گئی ہے۔
٤۔ایک مسجدسرحدکے ایک اورمحروم علائقہ سترسام میں بنائی گئی ہے۔
٥۔ایک مسجدسرحدکے ایک اورمحروم علائقہ کرم کے قریب قصبہ شبلان میں بنائی گئی ہے۔
٦۔ایک مسجدسرحدکے ایک اورمحروم علائقہ کرم کے قریب قصبہ علی زئی میں بنائی گئی ہے۔
٧۔ایک مسجداپنے آبائی قصبہ پیواڑ میں بنائی۔
٨۔ایک مسجدسرحدکے ایک اورمحروم علائقہ اورکزئی کے قریب قصبہ علی خیل میں بنائی گئی ہے۔
٩۔ایک جامع مسجدسرحدکے ایک اورمحروم علائقہ اورکزئی کے قریب قصبہ کلایامیں بنائی گئی ہے یہاں پرآج بھی عظیم الشان نماز جمعہ کاانعقادکیاجاتاہے۔
١٠۔ایک مسجدسرحدکے ایک اورمحروم علائقہ اورکزئی کے قریب قصبہ سرازئی میں بنائی گئی ہے۔
١١۔ایک مسجدسرحدکے ایک اورمحروم علائقہ کے قریب قصبہ اندخیل میں بنائی گئی ہے۔
١٢۔ایک مسجدسرحدکے ایک اورمحروم علائقہ کرمان ”جوکہ پاراچنارسے چارمیل کے فاصلے پرواقع ہے” میں بنائی گئی ہے۔
اسی طرح صوبہ بلوچستان میں بھی تین مختلف محروم علائقوں میں مساجدکی بنیادڈالی مساجدکے علاوہ بعض مذکورہ مقامات پر مسجدوں کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق امام بارگاہ بھی بنوائے جس طرح بنگش کے علائقہ مؤمن آباد۔سترسام و۔۔۔۔ مساجدوامام بارگاہوں کی تاسیس کے شہیدبزرگوارنے ہاسپٹل اورکلینک بھی تعمیرکروائیں جن میں سے چندایک اس طرح سے ہیں۔
١۔پاراچنارمیں شفاخانہ علمدارکے نام سے بنایایہ ہاسپٹل ڈاکٹری ضروریات کے علاوہ ٣٠بیڈپرمشتمل ہے۔
٢۔کراچی میں العصرکلینک جوکہ آپکے حکم سے ہی تعمیرہوئی اورآپ نے ہی اس کاافتتاح فرمایا۔
جب قائدشہیدعلامہ سیدعارف حسین حسینی کی قبائے قیادت شہادت کے سرخ خون سے رگین ہوئی تو پاکستان کی ملت اسلامیہ بالعموم اورمکتب تشیع وتحریک نفاذفقہ جعفریہ کے اراکین پربالخصوص مایوسی کے آثارنمایاں ہوئے لیکن مختصر عرصہ ہی میں پاکستان کے اندرقرآن کی یہ آیت”ماننسخ من اٰیة اوننسھا نات بخیر منھا اومثلھا” اپنے مصداق کا آئینہ داربن کرنمودارہوئی کہ” ہم اس وقت تک اپنی کسی نشانی کونہیں مٹاتے یابھلاتے جب تک کہ اس سے بہتر یااس جیسی نشانی نہ دے دیں”تحریک نفاذفقہ جعفریہ کے اراکین نے اپنے مرکزی پلیٹ فارم کے دستوراورآئین کی روشنی میں پیشارمیں(سپریم کونسل اورمرکزی کونسل کے)اہم اجلاس میں حضرت علامہ سیدساجدعلی نقوی مدظلہ العالی کوملت اسلامیہ پاکستان اورتحریک نفاذفقہ جعفریہ کاقائدمقررکرکے دنیاکے سامنے روشناس کروایا