جعفریہ پریس – قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاہے کہ ابتدا سے ہی طالبان سے مذاکرات کے میکنزم کو اہم قرار دیتے رہے ہیں اس لئے کہ مذاکرات آئین وقانون کے دائرے میں ہونے ہی چاہیں، اگر مذاکرات ماورائے آئین ہوئے تو حکمران اپنا آئینی جواز کھو بیٹھیں گے، دستور پاکستان نے ہی ملک کو یکجا کیاہوا ہے، اگر انحراف کیاگیا تووطن عزیز کی بنیادمزید کمزور ہوجائیگی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ مدت سے ہمارا موقف رہاہے اورمذاکرات کے حوالے سے ہونیوالے حکومتی رابطوں پربھی واضح کیا تھا کہ پہلے بتایا جائے کہ مذاکرات کا میکنزم کیاہے، ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات آئین و قانون کے دائرے کے اندر ہونے چاہئیں، اگر مذاکرات آئین سے ماوریٰ ہوئے تو سوال اٹھے گا کہ پھر حکمرانوں کی حیثیت اور آئینی جواز کیاہے۔ اس لئے کہ آئین سے رو گردانی کرنیوالے حکمران نہیں رہ سکتے حکمرانی کا جواز بھی اسی آئین کے مرہون منت ہے ۔ پاکستان کی اجتماعیت اسی آئین پر ہے اگر انحراف کیاگیا تو یہ ملک کو منتشر کرنے کے مترادف ہوگا ۔ انہوں نے مزید کہاکہ اس سے قطع نظر کہ آئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی لیکن 73ء کے متفقہ دستور نے ملک کو متحد رکھا ہواہے مسئلہ صرف آئین و قانون کی عملداری کاہے جس سے صرف نظر کیا جاتاہے۔ اگر آئین پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرایا جائے اور رول آف لاء کو قائم کیا جائے تو تمام طبقات کے جائز مطالبات پورے ہوسکتے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے مزید کہاکہ ہم نے ہمیشہ ملک میں استحکام اور وحدت کیلئے اپنی خدمات انجام دی ہیں، آل پارٹیز کانفرنسز میں بھی اپنا واضح اور دوٹوک موقف پیش کرچکے ہیں لیکن مایوس کن صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب متفقہ قراردادوں اور متفقہ اعلامیوں پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا۔انہوں نے مزید کہاکہ موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ تاثر قوی ہورہاہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کمزور ہیں۔