ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی اشتہار ناکافی ، امن و امان کو تہہ و بالا کرنیوالوں کو نظراندازکردیاگیا،ترجمان
جس طرح غیر مسلم قرار دیئے گئے مسلم تشخص استعمال نہیں کرسکتے اسی طرح کسی مہذب مسلم مکتب فکرکی تکفیر بھی نہیں کی جاسکتی
وزارت مذہبی امور، اسلامی نظریاتی اور پی ٹی اے کیسے اس معاملے کو نظر انداز کرگئی، ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان
راولپنڈی /اسلام آباد 23 مئی 2024ء ( جعفریہ پریس پاکستان ) ترجمان قائد ملت جعفریہ پاکستان کہتے ہیں ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی اشتہار ناکافی ، امن و امان کو تہہ و بالا کرنیوالوں کو نظراندازکردیاگیا،جس طرح غیر مسلم قرار دیئے گئے مسلم تشخص استعمال نہیں کرسکتے اسی طرح کسی مہذب مسلم مکتب فکر کو وزارت مذہبی امور، اسلامی نظریاتی اور پی ٹی اے کیسے اس معاملے کو نظر انداز کرگئی، ایک تکفیری گروہ کے ذریعے پور ملک کے امن کو تہہ و بالا کردیا، کروڑوں کی آبادی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیساتھ لاکھوں لوگ اس فتنہ پردازی سے متاثر ہوئے اور ایک مہذب مسلم مکتب فکر کے خلاف تکفیری قرار دینے کی مہم منظم انداز میں نہ صرف چلائی گئی بلکہ اسے ٹارگٹ کیاگیا،جو غیر مسلم قرار دیے جانے والے کے مسلم تشخص کے استعمال سے بھی کہیں زیادہ خطرناک معاملہ تھا مگر اسے یکسر انداز کردیاگیا حالانکہ جن دفعات کا تذکرہ پی ٹی اے نے اپنے اشتہار میں کیا ہے کچھ ایسی ہی دفعات کے تحت کسی مسلم کی تکفیر کرنا بھی اتناہی سنگین جرم اور قابل تعزیر جرائم میں شامل ہے ۔
ان خیالات کا اظہارقائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کے مرکزی ترجمان نے پی ٹی اے کے وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کے تعاون سے قومی اخبار میں نمایاں شائع ہونیوالے ”عوامی آگاہی کا پیغام ” اشتہار پر رد عمل دیتے ہوئے کیا ۔ ترجمان نے کہاکہ اشتہار میں بلاشبہ واضح طور پر کہاگیا کہ مذہبی جذبات اور احساسات مجروح نہیں ہونے چاہئیں جوملکی سلامتی کے نقصان کے مترادف ہے مگر اس کے ساتھ اس اشتہار میں سب سے اہم معاملے کو یکسرنظر انداز کردیاگیاکسی مسلم کی تکفیر کرنا بھی اسی طرح کاجرم ہوگا اور اس پر بھی ایسی ہی دفعات لاگو ہونگی ۔ اسلامی جمہوری مملکت کے امن کو سب سے زیادہ تہہ و بالاکرنے میں اسی تکفیری گروہ کا کردار تھا جس نے کروڑوں کی آبادی کی نہ صرف دل آزاری کی بلکہ مذہبی جذبات و احساسات مجروح کئے، ملکی امن و سلامتی کو نقصان پہنچایا، لا کھوں ہم وطن متاثر ہوئے مگر پی ٹی اے اس اہم ترین پہلو کو نظر انداز کرگیا حالانکہ اشتہار میں کسی مسلم مکتب فکرکی تکفیر کرنے والے شر پسندوں کا تذکرہ بھی کیا جاتا اور ایسی دفعات کے تحت قابل تعزیر جرم قرار دیا جانا بھی لازم تھا اور اس معاملے کو اس اشتہار کا حصہ بنایا جانا لازم تھا اس وقت یہ اشتہار مکمل اور جامع ہوتا۔