تازه خبریں

گلگت بلتستان کے عوام کے نام قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کا پیغام

پیش لفظ

ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان کے غیور اور بہادر عوام نے خود سے پاکستان سے الحاق کیا۔اس وقت سے علاقہ محرومیت ،پسماندگی،غربت اور ناخواندگی جیسے مسائل کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس سرزمین بے آئین کے آئینی و قانونی حقوق کی جدوجہد میں بنیادی اور اساسی کردار ہمارے حصے میں آیا جسے نبھاتے ہوئے اس وقت کم و بیش دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اور اس وقت بھی یہ جدوجہد پوری قوت سے جاری و ساری ہے جس کے نتائج 1994  میں اس وقت سامنے آنے شروع ہوئے جب یہاں کی قانون ساز کونسل کے پہلے انتخابات ہوئے۔
الیکشن1994ئ:1994 کے انتخابات میں تحریک جعفریہ پاکستان نے بھرپور حصہ لیتے ہوئے بعض سیاسی جماعتوں کو یہ پیشکش کی کہ وہ اس سیاسی عمل میں اس خطے کے وسیع تر مفاد میں ہمارا ساتھ دیں لیکن مثبت جواب نہ ملنے کی صورت میں تمام نشستوں پر انتخاب لڑتے ہوئے 10  نشستیں حاصل کیں اور یوں ہمارے کوٹے میں نامزد اراکین کو ساتھ ملا کل 12 نشستیں حاصل ہوئیں۔مگر بدترین ہارس ٹریڈنگ کی وجہ سے ہماری حکومت نہ بن سکی اور ان لوگوں نے حکومت بنائی جنہوں نے ہارس ٹریڈنگ کی ۔ البتہ علاقے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کی خاطر اس کولیشن گورنمنٹ میں شمولیت اختیار کی گئی چنانچہ ہمارے  2  مشیر لئے گئے۔الیکشن1999ئ:1999 ء کے انتخابات میں بھی ہماری جانب سے بھرپور حصہ لیا گیا اور تاریخی کامیابی ہوئی۔ نامزد اور منتخب اراکین ملاکر اکثریتی جماعت کی حیثیت سے تحریک نے حکومت بنائی جس کا سربراہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹو  قرار پایا (جسے موجودہ سیاسی پیکیج میں وزیر اعلی کہا گیا ہے اس وقت چیف ایگزیکٹو وفاقی وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات تھا)۔ اس حکومتی ڈھانچے  میں ہمارے مشیران کی تعداد دو تھی۔اس دوران تحریک نے نہ صرف  گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی جدوجہد کو زیادہ موثر اور بہتر انداز میں اجاگر کیا بلکہ اس علاقے کے طول و عرض میں ترقی و خوشحالی کے بے شمار منصوبے شروع کرکے پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ الیکشن2004ء :2004 ء کے تیسرے انتخابات میں بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر جماعتی بنیادوں پرنہ لیا جاسکا تاہم ہماری جانب سے بعض امیدواروں کی کامیابی کے لئے مثبت کوششوں کے نتیجے میں چھ امیدوار کامیاب ہوئے۔ اور ہماری کوششوں اور سیاسی حکمت عملی کے نتیجے میں ڈپٹی سپیکر اورکابینہ میں دو مشیر منتخب لئے گئے۔
الیکشن2009 ء : 2009ء کے انتخابات کے مو قع پر نامساعد حالات کی وجہ سے ہماری جانب سے انتخابات میںباقاعدہ شرکت نہ ہوسکی اس کے باوجود مختلف انداز میں ہمارے7  افراد کامیاب ہوئے ۔اگرچہ ان انتخابات سے قبل ہماری جانب سے ان انتخابات میں شرکت کے مسلسل اعلانات ہوئے اور سیاسی پیش رفت بھی ہوئی۔ ہمارا موقف بڑا واضح تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کئی انداز اور طریقے ہیں جن کے ذریعے اختلافات سے بھی بچا جاسکتا ہے اور سیاسی عمل میں بھی اپنا وجود پورے طور پر منوایا جاسکتا ہے۔لیکن قائد محترم نے بعض علماء کے احترام میں جو الیکشن میں حصہ لینے کی حمایت میں نہیں تھے گلگت  بلتستان کے دورے سے گریز کیا۔اس تمام کے باوجودقائد محترم کی موثر سیاسی حکمت عملی کے ذریعہ کئی ساتھی مختلف حیثیتوں کے ساتھ کامیاب قرار پائے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کی گلگت بلتستان میں وحدت و اتحاد کی کاوشیں:قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی گذشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے ملی و قومی امور کی انجام دہی میں شب و روز سرگرم عمل ہیں اور انکے نزدیک امت مسلمہ کے درمیان وحدت ایجاد کرنا درحقیقت قرآنی و نبوی فریضہ ہے۔ مختلف ادوار میں کئے گئے اقدامات اس بات کے شاہد ہیں کہ انکی جدوجہد کا مرکزی و محوری نقطہ اتحاد امت اور وحدت و اخوت رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن سے تاریخی اعلامیہ وحدت پر دستخط ہوں یا شریعت بل کی سفارشات’ مختلف سطح پر قائم وحدت و اتحاد کے فورمز ہوں یا برصغیر کی تاریخ میں پہلی بار وجود میں آنے والی ”ملی یکجہتی کونسل” اور اس سے بڑھ کر متحدہ مجلس عمل کے تاریخی پلیٹ فارم’ الغرض ہر پلیٹ فارم اور فورم کی تاسیس اورتشکیل میں قائد محترم کی بنیادی اور اساسی کوششوں کا عمل دخل رہا ہے جس کا اعتراف اپنوں کے علاوہ غیر بھی کرتے ہیں اور انہیں سفیر امن و وحدت سمجھتے ہیں۔گلگت و بلتستان کی جغرافیائی اور علاقائی حساسیت کے پیش نظر قائد محترم نے اس خطے میں بھی اتحاد و یگانگت کے فروغ کے لئے نہ صرف بنفس نفیس کوششیں کیں بلکہ عوام کو بھی باہمی بھائی چارے کے فروغ کی ہدایت کی اور عام آدمی سے لے کر مذہبی و سیاسی رہنمائوں تک ہر ایک کو وحدت و اتحاد کی تلقین و تاکید کی۔ اس سلسلے میں93  میں مختلف مکاتب و مسالک کے درمیان اخوت و یکجہتی کے فروغ کے لئے انکی ”تاریخی دعوت اتحاد” خاص اہمیت کی حامل ہے۔1988 ء میں جب اس دور کی آمرانہ حکومت کی جانب خاص منصوبہ بندی کے تحت فرقہ واریت پھیلانے کے لئے گلگت بلتستان میں سینکڑوں کی تعداد میں معصوم اور بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے  تو اس وقت سے لے کر آج تک حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے قائدمحترم تدبر و تحمل اور حکمت عملی سے گلگت و بلتستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور فرقہ واریت و شرپسندی کی مکمل نفی کرتے ہوئے لاتعداد اقدامات کئے۔
٭آغا خانی علاقائی کونسل کی دعوت پر ان سے کئی نشستیں ہوئیں اور اتحاد و وحدت کو فروغ دینے پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
٭نور بخشی حضرات سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور روابط کو بہتر بنایا گیا۔
٭اہل سنت اور اہل حدیث حضرات سے ملاقاتوں کے ذریعے اتحاد و وحدت کی کوششوں کو ثمر آور بنانے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
اپنے متعدد دورہ جات کے دوران بھی انہوں نے اسی فکر و عمل کی ترویج کرتے ہوئے عوام رابطہ مہم’ خطابات’ پریس کانفرنسوں اورعلاقے کے مختلف مکاتب و مسالک کے اکابرین سے ملاقاتوں کے ذریعہ اس علاقے میں مثالی امن و وحدت ایجاد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی یہ جدوجہد جاری ہے۔فلاحی و تعلیمی خدمات
قائد ملت جعفریہ کی خصوصی ہدایت پر گلگت بلتستان کے غریب و پسماندہ عوام کے لئے 1995  ء میں فلاحی و تعلیمی میدان میں منصوبہ جات کا جال بچھا دیا گیا تھا جس میں پل’ تالاب برائے آبپاشی’ پینے کے صاف پانی کے لئے پائپ لائنیں’ ڈسپنسریاں’ زچہ بچہ سنٹرز شامل ہیں۔ تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے شہروں اور دوردراز علاقوں میں بہت سے سکولوں و کالجوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس سے تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں نمایاں مدد ملی۔ بعض غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے بھی عوام کی فلاح و بہبود کے بہت سے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ خدمات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
موجودہ الیکشن اور قائد ملت جعفریہ کا پیغام
گلگت  بلتستان قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات سے قبل ملک کے موجودہ حالات اور اس علاقے کی وحدت و یگانگت کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے قائد ملت جعفریہ کا  جامع’ سنجیدہ اور موثر پیغام شائع کیا گیا جسے گلگت بلتستان کے عوام میں بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔

گلگت بلتستان کے عوام کے نام قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کا پیغام

وطن عزیز پاکستان کی تشکیل کے بعد ڈوگرہ راج سے اپنے زور بازوسے آزادی حاصل کرکے خود سے پاکستان سے الحاق کرنے والے اس وقت کے ملک کے شمالی علاقہ جات کے غیور عوام کا جذبہ حب الوطنی کسی سے مخفی و پوشید ہ نہ ہے تاہم یہ امر افسوسناک ضرور ہے کہ سرزمین بے آئین کے باسی اس دور میں بھی اپنے جائز آئینی و قانونی حقوق کی فراہمی کے متلاشی و منتظر ہیں۔
ملی پلیٹ فارم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ روز اول سے ہی اس نے ان پسماندہ اور محروم علاقوں کے آئینی و قانونی حقوق کی بات کی اور جماعت کے ہر اہم اجتماع اور اجلاس کے ایجنڈے پر سرفہرست جو مسئلہ رہا وہ ان علاقوں کی آئینی و قانونی حیثیت کا تعین اور عوام کے محرومی و پسماندگی کا خاتمہ ہے۔چنانچہ اس لازوال اور مسلسل جدوجہد نے حکومتوں کو ہماری آواز پر کان دھرنے پر مجبور کیا اور ان علاقوں کی تعمیر و ترقی اور حقوق کے حوالے سے پیش رفت ہوئی تاہم اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی خودمختاری کی خاطر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اس وقت کا  ”شمالی علاقہ جات”  اور آج کا”گلگت بلتستان” بے لوث’ نڈر’ دیندار اور مثبت سوچ و فکر کے حامل بزرگ علمائے کرام’ عمائدین’ کارکنان اور عوام کی مثالی اور انتھک جدوجہد کی بدولت ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کررہا ہے۔
ملی پلیٹ فارم کے ذریعہ نہ صرف ان علاقوں میں تعمیر و ترقی کے منصوبے شروع کئے گئے بلکہ تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے سکولز بھی قائم ہوئے جو کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ یہاں پر قائد شمالی علاقہ جات حضرت علامہ شیخ غلام محمد مرحوم  اور علامہ شہید سید ضیاء الدین رضوی  کی ملی و قومی خدمات کا تذکرہ بھی نہایت ضروری لازم و ناگزیر ہے۔ ان احباب کی شبانہ روز کوششو ں اور جدوجہد کی بدولت گلگت  بلتستان کے عوام میں نہ صرف ملی شعور بیدار ہوا’ محرومیت کا خاتمہ ہوا  بلکہ باہمی وحدت و اتحاد اور اخوت و روداری کی فضا کو بھی فروغ حاصل ہوا اور انسانی عزت و وقار کے لئے مثبت پیش رفت سامنے آئی۔
ملی پلیٹ فارم کی جدوجہد کی بدولت جب شمالی علاقہ جات قانون ساز کونسل کے اولین انتخابات ہوئے تو ملی جماعت تحریک جعفریہ پاکستان واحد اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی چنانچہ اس کے بدولت علاقہ کی تعمیر و ترقی کے ایک روشن باب کا آغاز ہوا اور عوام میں سیاسی شعور بھی بیدار ہوا جس کے ذریعہ حقوق کی جدوجہد کی منزل قریب تر ہوئی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایک بار گلگت  بلتستان میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوچکا ہے۔مختلف سیاسی پارٹیاں اس حوالے سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرچکی ہیں ۔عوام کی اپنی جماعت ”اسلامی تحریک پاکستان” بھی ان انتخابات میں بھرپورانداز میں وارد ہوچکی ہے۔ چونکہ ملی پلیٹ فارم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے اس علاقے کی تعمیر و ترقی ‘ آئینی و قانونی حقوق کے حصول ‘ ناخواندگی کے خاتمے اور غربت و افلاس کی دوری کی خاطر سب سے پہلے ہر فورم پر آواز بلند کی اور علاقہ میں سیاسی سرگرمیوں کے آغاز پر ہی ”ترقی کا بس ایک منصوبہ…پانچواں صوبہ پانچواں صوبہ” کا نعرہ لگایا ۔ جس کے نتیجہ میں حکومتوں کی جانب سے اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔
ان انتخابات میں بھی ”اسلامی تحریک پاکستان’ ‘ حصہ لے رہی ہے اور عوام کی اپنی جماعت ہونے کے ناطے گلگت  بلتستان کے عوام سے بجا طور پر یہ خواہش کرتی ہے کہ اس کی کامیابی جو درحقیقت وہاں کے عوام کی کامیابی ہے’ کے لئے عوام ”اسلامی تحریک پاکستان ” کا بھرپور ساتھ دیں گے۔