1221ء میں چنگیز خان پچھلے سال کی شکست کابدلہ لینے کیلئے” خوارزمیاں سلطنت “کے بادشاہ جلال الدین کے علاقے کابل کی طرف جاتے ہوئے راستے میں آئے بامیان علاقے کامحاصرہ کئے ہوئے تھاکہ محاصرہ کی گئی دیواروں سے ایک تیر آیا اورچنگیزخان کے جواں سال پوتے موتوخان کاکام تمام کرگیا۔جان لیواتیرکالگناتھاکہ چنگیز خان آگ بگولا ہو گیا۔ بامیان پر قبضہ کیا اوربامیان سمیت اردگردکی آبادی کوتہس نہس کردیا۔تباہی اِتنی زیادہ ہوئی کہ خودمنگولوں نے بامیان کو “شہر غم” اور”چیخ وپکارکاشہر”کا نام دے دیا۔بامیان کی تباہی کے بعد علاقے کی اہمیت کو مدنظر کو رکھتے ہوئے چنگیز خان نے اِس علاقے میں اپنے منگول فوجی مع غلام بنائی گئی عورتوں کے آبادکردئیے۔ایک نظریے کے مطابق یہی آباد کار ہزارہ لوگوں کے آباؤ اَجداد کہلائے ۔سب سے پہلے ہزارہ کالفظ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابرکی یادداشتوں پرمبنی کتاب “بابرنامہ “میں 1529ء میں استعمال ہوا۔ 16ویں صدی عیسوی میں ایرانی صفوی حکومت کے زیراثرآنے کی وجہ سے ہزارہ اکثریت نے شیعہ مذہب اختیار کر لیا جبکہ تکار صوبے کے علاقے رستک اوربگلان صوبے کے علاقے نحرین میںآباد ہزارہ لوگ سنی مسلک سے جڑے مجبورکردیا۔امیردوست محمد خان ( 1842- 1863)کے دور حکومت میں کابل انتظامیہ نے بامیان کاپوتاعبدالرحمن افغانستان کاامیربنا۔وہ بہت بڑاظالم، آمراورجابربادشاہ تھا۔ اپنی سلطنت کومضبوط کرنے کے بعد آزادہزارہ جات یاہزارستان کوفتح کرنے کیلئے نکل پڑا۔ ہزارہ جات سے سخت مزاحمت کے بعد مذہبی فرقہ واریت،نسلی تعصبات اورکئی ظالمانہ اقدامات کاسہارالیا۔جب امیرعبدالرحمن کے چچاشیرعلی خان اورکزن محمداسحق جومزارشریف کا گورنر تھا نے اس کے خلاف بغاوت کی توہزارہ جات کے کئی سرکردہ رہنماؤں نے شیرعلی خان اور محمداسحق کاساتھ دیا۔ عبدالرحمن نے اِس بغاوت کوکچلنے کیلئے شیعہ سنی فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی۔اِن برسوں میں اس نے ہزارہ جات میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاوا دیا اوروہاں پرپشتون انتظامیہ کوتعینات کیاجنہوں نے ہزارستان میں ظلم وستم کورواج دیا۔ لوگوں کوغیرمسلح کرکے دیہات کے دیہات لوٹ لئے،اکثرکوقیدی بنالیااوربعض اوقات اُن کے قبائلی رہنماؤں اورسرداروں کوبھی قتل کرڈالااورہزارہ جات کی سب سے بہترین چراگاہیں پشتون خانہ بدوشوں(کوچیوں) کاآغازہوا۔بغاوت کا آغاز 30پشتون فوجیوں کی ایک پہلوان ہزارہ کے گھرمیں اسلحہ تلاشی کے بہانے داخل ہونااوراُس کوباندھ کراُس کے سامنے اُس کی بیوی کوقتل کر نا تھا۔جس پر مقتول خاتون اورمردکے خاندانوں نے 100بارذلت کی موت مرنے سے ایک بار عزت کی موت مرنے کوترجیح دی۔اُنہوں نے موقع پاکر اِس قتل میں ملوث تمام پشتون فوجیوں کوقتل کردیااور علاقے کی فوجی چھاؤنی پرحملہ کرکے اپناچھیناہوااسلحہ واپس لے لیا۔امیرعبدالرحمن نے طاقتوراورسراٹھاتی بغاوت کودیکھاتواہل تشیع ہزارہ کے خلاف ملک بھر میں جہاد کا اعلان کردیاجس میں 40 ہزار حکومتی فوجی، 10 ہزار ریزو فوجی اورایک لاکھ مسلح شہریوں کوجس میں خانہ بدوش پٹھان نمایاں تھے کوجہادکیلئے روانہ کردیا۔اِس حکومتی لشکراوریلغار کی مشاورت برطانوی فوجیوں کے ذمہ تھی۔اگست میں بغاوت کے مرکزارزگان پرقبضہ کرلیاگیااورمقامی آبادی کاقتل عام کیا گیا ۔ ہزاروں مرد،عورتیں اوربچے غلام بناکرکابل اورقندھارکے بازاروں میں فروخت کردئیے گئے اورلوگوں کوخوفزدہ کرنے اوربغاوت سے بازرکھنے کی خاطرانسانی کھوپڑیوں کے بے شمار مینارکھڑے کردئیے گئے ۔فوجیوں نے قتل عام اور دیہاتوں سے مقامی آبادی کے رہے۔ 18ویں صدی میں پٹھانوں نے انہیں ہلمندصوبہ اورارغنداب کے علاقوں سے نکلنے پر اورہزارہ جات کے کچھ ملحقہ علاقوں سے ٹیکس وصول کرناشروع کردیا۔ 1888ء میں اس کو دے دیں۔اس ناانصافی اورظلم وستم کی وجہ سے 1892ء کے موسم بہارمیں طاقتور بغاوت زبردستی انخلاء کاسلسلہ جاری رکھا۔امیرعبدالرحمن نے ہزارہ برادری کے اُٹھتے ہوئے زور کو توڑنے کیلئے ایک حکمت عملی اپنائی جس میں پشتونوں کے دل میں ہزارہ کی نفرت اورسُنی کے دل میں شیعہ کے خلاف تعصب کے بیج بودئیے۔ جس سے بہت بڑے پیمانے پر زبردستی ہزارہ لوگوں کااپنے علاقے اورسرزمین سے انخلاشروع ہوا۔زمینوں پرقبضہ کرلیاگیااورلوگوں کوزبردستی وہاں سے نکال دیاگیا۔ہزارہ برادری کی 60 فیصد نسل یاتوقتل کردی گئی یاپھردوسرے قریبی ممالک کی طرف ہجرت کرگئی۔لندن سے چھپنے والے اخبار”دی آرگس” کے مطابق امیرعبدالرحمن نے بغاوت پراٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کیلئے10ہزارسے زیادہ قیدی ہزارہ مردوخواتین اوربچے بطورغلام فروخت کردئیے۔اُس وقت تقریباً 35ہزارخاندان ملک بدری کاشکارہوئے۔ نصف سے زیادہ ایران میں امام ضامن کی شہرمشہد مقدس پناہ کی غرض سے ہجرت کر گئے اور باقی برطانیہ کے زیرتسلط ہندوستان کے علاقے بلوچستان کے شہرشال کوٹ جواَب کوئٹہ کے نام سے جاناجاتاہے جان بچانے کی غرض سے آ گئے ۔کسی کوبھی معلوم اِس کے بعدعبدالرحمن کے بیٹے امیرحبیب اللہ نے 20ویں صدی میں اپنے والد کے ظلم وستم کی وجہ سے ملک بدرہونے والے ہزارہ لوگوں کیلئے عام معافی کااعلان کردیا۔لیکن افغان حکومت اورہزارہ برادری کے درمیان خلیج اتنی وسیع ہوچکی تھی کہ پوری صدی میں ہزارہ برادری کو سیاسی، سماجی کردیا۔امریکہ نے ویت نام جنگ کابدلہ لینے کیلئے سعودی عرب سے مالی اورپاکستان سے افرادی قوت کاسہارالیا ۔یہی وہ مقدس جنگ تھی جس کے منحوس اثرات نے دہشت گردی کے آسیب کی شکل میں ہماری پاک سرزمین کوتین عشروں سے جکڑاہواہے۔ ہزارہ لوگوں نے بھی اپنے مسلح دستوں کے ساتھ اپنے علاقوں میں روسی فوجوں کے خلاف دس سال تک خوب جنگ لڑی ۔روس پسپاہوا،پھرعالمی چال بدلی ، پاکستان اورافغانستان کے سرحدی علاقوں سے مسلح طالبان کی شکل میں بہت بڑے لشکر کو پاکستانی فوج کی مددسے افغانستا ن میں داخل کردیاگیا۔جس نے کافی قتل وغارت کے بعد منتخب حکومت کاتختہ اُلٹ دیا۔دس سالہ روس کی جنگ میں اتناجانی اورمالی نقصان نہیں ہواتھا جتناان وحشی طالبان نے آکرکیا۔مارچ1995ء میں طالبان دہشت گردوں نے ہزارہ پارٹی حزبِ وحدت کے سربراہ پیربابا عبدالعلی مزاری کومذاکرات کے بہانے بلاکرتشددکرکے شہید کر دیا اور 5 رہنما ساتھیوں سمیت اُنہیں اُڑتے ہیلی کاپٹرسے غزنی کے علاقہ میں پھینک دیا۔پھر مزارشریف میں 8ہزارہزارہ لوگوں کو بیدردی سے تہہ تیغ کرنے کے بعد 1998میں ہزارہ اکثریتی علاقے بامیان کارخ کیاجہاں درجنوں گاؤں سے سینکڑوں ہزارہ مومنین کی گردن زنی کی گئی۔ اِس قتلِ عام کے نتیجہ میں 70 ہزار کے قریب ہزارہ لوگوں نے کوئٹہ کی دنیابھرمیں ہزارہ لوگوں کی کل آبادی85لاکھ سے زائد ہے۔افغانستان میں65لاکھ، پاکستان میں8لاکھ، ایران میں 12 لاکھ ، آسٹریلیامیں 50 ہزار، کینیڈامیں 5ہزاراورانڈونیشیامیں 4ہزارسے زائدہزارہ لوگ آبادہیں۔اِن کی مادری زبان آزارگی ہے جوفارسی سے ملتی جلتی ہے ۔ہزارہ اکثریت شیعہ اسلام سے تعلق رکھتی ہے جس میں کچھ اسمٰعیلی بھی ہیں لیکن افغانستان میں اڑھائی لاکھ کے قریب ایمک ہزارہ سنی مسلم بھی آباد ہیں ۔ ہزارہ کا لفظ فارسی زبان کے لفظ ہزارسے نکلاہے جوکہ چنگیز خان کے دورِحکومت میں ایک دہشت گردی سے پہلے صوبہ بلوچستان کے ہرشہرمیں ہزارہ لوگ آبادتھے لیکن سب سے زیادہ کوئٹہ شہر میں آبادتھے۔جب سے ملک پاکستان میں ہزارہ نسل کشی کاپروگرام لانچ کیاگیاہے تب سے باقی تمام کوخیربادکہہ چکے ہیں۔کوئٹہ شہرمیں علمدارروڈکے علاقے میں پانچ لاکھ اورہزارہ ٹاؤن میں دولاکھ کے نہیں تھاکہ کچھ عرصہ بعد کوئٹہ اُن کیلئے” آسمان سے گراکھجورمیں اٹکا”ثابت ہوگا۔ اورمعاشی امتیازات کاسامنا کرناپڑا۔وقت گزرتارہااور 1979ء میں روس نے افغانستان پرحملہ طرف ہجرت کی اورہزارہ ٹاؤن میں آبادہوئے۔ ہزارفوجیوں پر مشتمل یونٹ کیلئے بولاجاتاتھا۔ شہروں اورکوئٹہ سے ہزارہ لوگ اپنی جان بچانے کیلئے جائیدادیں چھوڑکراپنے ملک پاکستان قریب اب بھی ہزارہ لوگ آبادہیں۔جب سے نسل کشی کاباقاعدہ آغازہواہے ایک سے ڈیڑھ لاکھ لوگ آسٹریلیااوردوسرے یورپی ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ملک چھوڑنے والوں کی تعدادشایداِس سے دوگناہوتی اگرحکومت وقت کوعالمی برادری سے شرم اور ذلالت کا احساس نہ ہوتا۔وہ ہزارہ لوگوں کوسفارتی سطح پراب باہر اِس لئے نہیں جانے دے رہی کہ عالمی برادری میں پاکستان کی تذلیل ہوتی ہے ۔کاش ایساہی سمجھ کرہزارہ کی ٹارگٹ کلنگ کوبھی روکاجاتا۔تاریخ ایک بارپھر ہزارہ لوگوں کوپاکستان سے ہجرت کرنے پرمجبورکررہی ہے۔حالانکہ پاکستان بننے کے بعدہزارہ برادری نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ہزارہ برادری نے ہندوستان آکر تحریک پاکستان میں نمایاں کرداراداکیا۔تحریک پاکستان میں اہم کرداراداکرنے پر 4 گولڈ میڈلسٹ شخصیات میں سرداریزدان خان، محمد،سردارمحمداسحق خان، حاجی ناصرعلی ہزارہ شیر کشمیر شامل ہیں۔1948ء سے لیکر انڈیاکی طرف سے مسلط کی گئی کوئی بھی جنگ ہوہزارہ برادری نے اپنی جان پر کھیل کرپاکستان اوراہل وطن کادفاع کیا۔جنرل محمد موسیٰ ،تمغہ ہلال جرات حاصل کرنے والے وہ پاکستانی ہیرو ہیں جن کی کمان میں 1965ء میں پاک فوج نے ہندی فوج کے لاہورمیں چائے پینے کے خواب کو چکناچور کر دیا تھا،یہ اوربات ہے کہ ہزارہ نسل کشی کاآغازاِسی قومی ہیروکے فرزندسردارمحمدحسن موسیٰ کودسمبر1997ء میں شہیدکرکے کیاگیا۔ فلائٹ لیفٹیننٹ صمدعلی چنگیزی ، تمغہ ء ستارہ ء جرات کے مالک ، 1971ء کی جنگ میں منتخب شدہ9سکوارڈن میں سے ایک تھے اورانہوں نے اس جنگ کے 11ویں مشن کے دوران جام شہادت نوش کیا۔ائر مارشل شربت علی چنگیزی وہ ہزارہ شخصیت ہیں جنہوں نے 1965اور1971ء انڈو پاک دونوں جنگیں لڑیں اوروہ خوددارہزارہ فوجی تھے جنہوں نے1955ء میں پاکستان کے سرکاری دورے پرآئے افغانستان کے بادشاہ ظاہرشاہ سے اِس لئے ملنے سے انکار کردیا تھاکیونکہ اِس کا سلوک ہزارہ لوگوں کیساتھ اچھانہیں تھا۔ لیفٹیننٹ کرنل یوسف چنگیزی جوفٹ بال کے میدانوں میں ٹارزن کے نام سے مشہوررہے وہ ہزارہ شخصیت ہیں جوقومی فٹ بال ٹیم کے قومی کوچ کے فرائض انجام دیتے رہے۔1960ء میں جاپان کوتین ایک سے شکست دے کرفٹ بال ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان قیوم جانبازاورسرفروش خاتون ہے جوپاکستان ائر فورس کی تاریخ میںآنے والی پہلی چارخواتین میں سے ایک فائٹرپائلٹ ہے۔حیدرعلی وہ ہزارہ باکسر ہیں جوکامن ویلتھ گیمزمیں گولڈمیڈلسٹ ہیں اورعدم تحفظ کی بناپر آجکل برطانیہ میں ہیں۔ میناہزارہ وہ عظیم خاتون ہے جس نے ساؤتھ ایشین گیمزمیں کراٹے کے مقابلوں میں گولڈمیڈل حاصل کررکھاہے اورکلثوم ہزارہ قومی مارشل آرٹس چمپئن ہیں۔ حسین شاہ شہید وہ ہزارہ اولیمپک باکسر تھے جو 11 گولڈ میڈلز، 6سلورمیڈلزاور5کانسی کے تمغے،ستارہ امتیازاورپرائیڈآف پرفارمنس کے اعزازات کیساتھ پاکستان سپورٹس بورڈکے ڈپٹی ڈائریکٹر اور صوبائی سپورٹس بورڈ کے چیرمین تھے ۔لیکن یہ قومی اثاثہ اور ہیرو 2011ء میں پاکستان کی عظمت پرکوئٹہ کی سڑکوں پر ٹارگٹ ابھی حال ہی میں 7جون کوہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں 5ہزارہ چائے فروش اورمصالحہ فروش دکاندارجاں بحق ہوئے ۔ ہزارہ تنظیم HOPEکے مطابق پاکستان میں ہزارہ برادری پریہ177واں حملہ تھا۔1997ء سے لیکر اب تک اِن انسان سوز واقعات میں 1500سے زائدقیمتی جانیں حکومتی ،عدالتی اورریاستی اداروں کی مسلسل خاموشی پرقربان ہوچکی ہیں اورمعاشرے کے4ہزارقابل اوراہل افراد زخمی ہوئے جس میں سے اکثریت چلنے پھرنے سے معذورہوچکی ہے۔لیکن کسی بھی چھوٹے یابڑے سانحے میں ایک بھی دہشت گردنہیں پکڑا گیااورنہ ہی کوئی نیٹ ورک پکڑاگیا۔اِس دہشت گردی کے سونامی نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افرادکوکوئٹہ چھوڑنے پرمجبورکردیاہے اورسیکورٹی کے نام پر علمدار روڈ سردار محمدعیسیٰ خان، حاجی صفدرعلی خان، سید حسین شاہ اور3سلورمیڈلسٹ میں کیپٹن گل چنگیزی عرف پاپابھی ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔سائرہ بتول ہزارہ برادری کی وہ کلنگ میں ناک آؤٹ ہوگئے۔ اورہزارہ ٹاؤن کوایک جیل کی شکل دی جاچکی ہے جس میں لاکھوں افراد محصور ہو چکے ہیں ۔زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افرادخوف وہراس اورعدم تحفظ کا شکار ہیں لیکن ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجودانہوں نے کبھی قانون کواپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی، ہمیشہ عدل وانصاف کادروازہ کھٹکٹھایااورجواب میں صرف باتیں ، مذمتی بیان،حکومتی واقعی یہ تسلیم ہے کہ برمامیں روہنگیامسلمانوں پربدھ مت پادریوں کی جانب سے عذاب ٹوٹ پڑاہے اوروہ راکھائین ریاست میں بے یارو مدد گاراورمجبورولاچارہیں اورحکومتی سرپرستی میں ہونے والے اِس ظلم وستم کیوجہ سے ہزاروں کی تعدادمیں روہنگیا مسلمان صرف اپنی جان بچانے کی خاطر اپناوطن،جائیداد اور اپنے بزرگوں کی یادگاروں کو چھوڑنے پرمجبورہیں اوردرجنوں کشتیوں پرسواروہ سمندرمیں بھٹک رہے ہیں ۔ہررحم دل انسان اورمیڈیااُن کی مددکیلئے چیخ رہاہے لیکن یہی حال ہزارہ 21جون2012ء میں ایک کشتی 204ہزارہ لوگوں کولے کر کراچی سے آسٹریلیاروانہ ہوئی۔اِس 6ہزارکلومیٹر کے سمندری فاصلہ میں 94لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے اور 110 افراد غیرمسلم ملک آسٹریلیاکی کوششوں سے بمشکل بچ پائے۔اِس طرح کی متعددکوششوں میں 300 سے زائد ہزارہ مسلمان نام نہادمسلمانوں سے جان بچانے کی کوشش میں سمندرمیں جان کی بازی ہارگئے لیکن حکومتی حلقوں اورریاستی اداروں کے کانوں پرجوں تک نہ رینگی۔ روہنگیامسلمانوں کے ساتھ حکومتی ،سیاسی اورمذہبی جماعتوں کے اظہارجہتی اورکراچی کے قرب میں” اراکان آباد “کے نام سے بسنے والی نئی آبادی میں تین سے پانچ لاکھ روہنگیاؤں کی آمداورکوئٹہ سے یورپی ممالک کی طرف جانے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائدہزارہ شیعوں کوہزارہ برادری حسرت بھری نگاہوں سے کئی جواب طلب سوال لئے دیکھ رہی ہے کہ ایک طرف ہزارہ شیعہ مسلمانوں کی روزانہ کی بنیادپر نسل کشی کرکے لاکھوں کی تعدادمیں اُن کواپنے ملک سے نکالاجارہاہے اور دوسری طرف روہنگیا مسلمانوں کوجھوٹی تصاویرسوشل میڈیاپرشائع کرکے اورہمدردی کاماحول پیداکرکے لاکھوں کی تعدادمیں یہاں لا کر آباد کیا جارہاہے ۔اِس دعوے،تحقیقاتی کمیشن، نیشنل ایکشن پلان، معلوم نہیں اور کیاکیاکاغذی گھوڑے۔۔۔ برادری کابھی ہواتھااوراُس وقت توکسی کے حلق سے احتجاجی چیخ بھی نہیں نکلی تھی جب طرزعمل پر بس یہی جاسکتاہے)اپنے روہنگیا کیوں نظر نہیں آتے ؟) تیرے خون پہ واویلا،میرے خون پہ خاموشی تُو برما کا روہنگیاہے، مَیں ہزارہ پاکستان کا
- گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
- حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
- جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
- پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
- رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
- مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
- گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
- فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
- شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
- علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات