تازه خبریں

یمن تنازعہ۔۔۔پاکستانی قراداد۔۔۔ مفاد پرست عناصر سید اظہار مہدی بخاری

یمن کے تنازعہ کے حوالے سے پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد بہت تیزی کے ساتھ مختلف ملکوں کی اصلی پالیسیوں اور ان کے حکمرانوں کے دلوں میں موجود حقیقی جذبات کو طشت از بام کررہی ہے۔ پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد اگرچہ کماحقہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی لیکن پھر بھی داخلی و خارجی حالات اور مصلحتوں کے پیش نظر اسے ایک معتدل اور نپا تلا موقف کہا جاسکتا ہے اور پاکستانی عوام کے قلوب کی کسی حد تک ترجمانی بھی شمار کی جا سکتی ہے۔ اس قرارداد سے لاٹھی بچانے اور سانپ مارنے کی کوشش بھی مہارت سے کی گئی ہے اور ماضی قریب و بعید میں حاصل کئے گئے مفادات اور منافع کا حسب برابر کرنے کی سعی بھی کی گئی ہے۔ منصف ملکوں اور انصاف پسند طبقات نے پاکستانی قرار داد کو سنجیدہ اور غیرجانبدارانہ موقف قرار دیتے ہوئے حمایت کی ہے جبکہ پاکستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کے خواہشمند بہت سے بڑے اور چھوٹے ملکوں کے شکم میں درد اور چہرے زرد ہوئے ہیں۔
پاکستان کے موقف پر اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ‘ ترکی ‘ ایران اور سعودی عرب کا محتاط ردعمل سامنے آچکا ہے جبکہ دیگر کئی ممالک ابھی سوچ سمجھ کر موقف دینے کے تیاری میں مصروف ہیں۔ عالم اسلام میں جہاں بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہیں کوئی تحریک رونما ہوتی ہے کہیں کوئی انقلاب سر اٹھاتا ہے تو اس کا اثر کسی نہ کسی طرح پاکستان پر مرتب ہوتا ہے۔ کسی دوسرے ملک سے کوئی مثبت یا منفی ردعمل سامنے آئے یا نہ آئے مگر پاکستان میں موجود سیاسی و دینی جماعتوں اور گروہوں کی طرف سے ہر صورت ردعمل سامنے آتا ہے۔ یہ پاکستانیوں کے آگاہ ‘ مخلص یا درد مند ہونے کی دلیل بھی ہو سکتی ہے اور بعض اوقات مختلف ملکوں کے سجائے ہوئے اسٹالز پر سیلز مینوں کا شور بھی ہوسکتا ہے یہ تجزیہ معاملے کی نوعیت کے مطابق ہی کیا جاسکتا ہے۔ بحر حال بات یمن کی ہے تو ہمارے پیارے دیس میں تمام سیاسی و دینی جماعتوں کے مشترکہ موقف پارلیمنٹ میں آجانے کے باوجود بعض مذہبی گروہ اب بھی حرمین شریفین کے نام پر نہ صرف فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں بلکہ سادہ لوح عوام کے جذبات سے کھیل کر سعودی خوشنودی کی خاطر اپنا ایمان داؤ پر لگا رہے ہیں اور لوگوں کو نفرت کا سبق سکھا کر حسب سابق جنگ اور قتل و غارت گری کے لیے استعمال کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔
ہماری حکومت اور ہماری ریاست ابھی تک لوگوں کو اس معمے کا شکار رکھے ہوئے ہے کہ معاملہ سعودی عرب کے حکمرانوں کا ہے یا اللہ کے گھر اور روضہ رسول ؐ کا؟؟ ماضی میں بھی ایسے ہی معموں کی وجہ سے جہاد واجب کرایا گیا اور پھر قتل و قتال کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک دنیا بھر میں جاری ہے۔ یہ صدائیں بھی بازگشت کررہی ہیں کہ پارلیمنٹ کی قرارداد محض عالمی دنیا اور ہمسایہ ممالک کے علاوہ اکثریتی پاکستانی عوام کو راضی کرنے کے لیے منظور کی گئی ہے ورنہ اس قرارداد سے قبل ہی سعودی عرب کے ساتھ حق دوستی ادا کرنے کا سلسلہ عملی طور پر شروع کردیا گیا ہے اور مستقبل میں بھی اگر سعودی دوست قوتوں نے محسوس کیا کہ اس حد سے مزید آگے جانا ہے تو وہ اس قرارداد کو رد کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے وہ سب کچھ کر گذریں گی جو وہ چاہیں گی۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ عرب حکمران بالخصوص سعودی عرب ایک عام مسلمان کے اس سادہ سے سوال کا جواب کیوں نہیں دے سکتا جو اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تعلق سے متعلق ہے۔ حالانکہ جواب تو آسان سا ہے کہ مسلمانوں کے پہلے قبلہ و کعبہ بیت المقدس پر صیہونی قابض ہیں اور مسلمانوں کے دوسرے قبلہ و کعبہ پر مسلمانوں کے اندر موجود صیہونی فکر کے حامل عرب قابض ہیں اس لئے دونوں ممالک پچھلے ساٹھ سال سے ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے چلے آرہے ہیں اور یہ دونوں ہر اس قوت یا انسان کی مخالفت میں ایک ہوتے ہیں جو ان دونوں کے قبضے کے خلاف بات کرے۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ اگر آج کعبتہ اللہ اور حرم رسل ؐ موجودہ خادمین کے ہاتھ سے نکل گیا تو اگلے ہی روز میرا انجام اس سے بھی بدتر ہوگا۔اس لئے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرنے اور ایک دوسرے کی پشتیبانی کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں اور ان دونوں کے آقا و مولا اور مرجع و ماوی عالمی ٹھیکیدار امریکہ بہادر ان دونوں کو تھپکیاں دیتے رہتے ہیں۔
یمن کے خلاف بننے والے اتحاد پر بھی دنیا بھر کے عوام جہاں حیرت زدہ ہیں وہاں یقین کے ساتھ اس ڈرامے سے لطف اندوز ہورہے ہیں کیونکہ انہیں اس اتحاد کے سکرپٹ اور ڈراپ سین کا پہلے سے علم ہے۔ بطور پاکستانی میں بہت شرمندہ ہوں کہ ایک ایسے اتحاد میں میرا ملک بھی شمولیت کے لیے پر تول رہا ہے جس میں اس زمانے کے سب
سے جارح اور اسلام دشمن و انسانیت کش ملک یعنی امریکہ و اسرائیل بالخصوص اسرائیل شامل ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کا سعودی عرب اور اس جیسے دیگر عرب ممالک کے ساتھ اتحاد تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ یہ سب مفادات کا کھیل ہے ان سارے اتحادیوں کے بھر پور کوشش ہے کہ عرب خطے میں انقلاب کی بہار سے محفوظ رہا جائے لیکن یمن کے حالات بتا رہے ہیں ۔
اک ذرا صبر ‘ کہ اب صبر کے دن تھوڑے ہیں۔
یہ مفاداتی اتحاد آخر کب تک ؟؟ ترکی بھی اب تائب ہوکر واپس پلٹ چکا ہے۔ پاکستان بھی غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرچکا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ فقط پشت پناہی کرنے اور اپنا اسلحہ مہنگے داموں بیچ کر مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو مراونے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس عمل میں پاکستان کا ہچکچاہٹ پر سعودی عرب کو خوب شہہ دے رہے ہیں کہ پاکستان عین وقت پر دھوکہ دے رہا ہے۔ باقی اتحادی بے چارے تو اپنی اپنی دھوتیاں بچانے کے چکر میں ہیں کہ اگر کہیں دھوتی کھل گئی تو اگلی بات صاف ظاہر ہے۔
یمن کے معاملے میں جہاں اس اتحاد کا وجود موجود ہے وہاں تازہ حالات میں ایک نیا اتحاد اور ہم آہنگی بھی وجود میں آرہی ہے۔ ترکی کے صدر کا دورہ ایران اور ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان بہت ساری نئی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہورہا ہے ۔ ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہے اور ان تینوں ممالک کی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے اکثر ممالک اس بات پرمتفق ہو چکے ہیں کہ یمن کا تنازعہ سیاسی ہے مذہبی نہیں اور اس کا حل بھی سیاسی انداز میں نکالا جانا چاہیے جس کا بہترین ذریعہ مذاکرات ہی ہیں۔ لہذا فوری جنگ کراکے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے اور ثالثی و مصالحت کرانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
حرمین شریفین کا نام استعمال کرنے والے حرمین کے مخلص کم اور ریال کے مخلص زیادہ ہیں حالانکہ اگر حرمین شریفین کے تحفظ کا مطلب شاہ عبداللہ یا شاہ سلمان ہے تو قبلہ اول کے تحفظ کا مطلب نیتن یاہو کو بچانا ہے۔ اجمیر شریف کو بچانے کا مطلب نریندر مودی کو بچانا ہے اور داتا علی ہجویری کے مزار کو بچانے کا مطلب نواز و شہباز شریف کو بچانا ہے۔ اگر حکمرانوں کو بچانے کا مطلب مقامات مقدسہ کو بچانا ہے تو کس کس ملک میں کس کس کو بچایا جائے گا؟؟ دنیا میں موجود مسلم ممالک میں سے کسی نے یہ بوگس موقف اختیار نہیں کیا کہ ہم حرمین کو بچانے کے لیے موجودہ حکمرانوں کا ساتھ دیں گے اور سعودی حکمرانوں نے بھی اس قدر امیدیں کسی اور مسلم ملک یا جماعت سے وابستہ نہیں کیں جتنی اپنے پاکستانی حامیوں سے لگا لی ہیںآخر ہمیں ہی استعمال ہونے کا فن کیوں آتا ہے؟؟ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اگر واقعی حرمین شریفین کو کسی سے کوئی خطرہ لاحق ہے تو سعودی حکمرانوں سے حرمین کا چارج لے کر مستقل طور پر پاکستان اور اس کی افواج کے حوالے کیا جائے باقی ملک کا نظام وہاں کے حکمران سنبھالیں جبکہ حرمین کا نظام ہم پاکستانی سنبھال لیں گے۔ خدارا مذہب کا استعمال اب بند کیا جانا چاہیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں صرف وہی لوگ سعودی حکمرانوں کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں جو ہمیشہ سے کسی نہ کسی بیرونی قوت یا کسی اندرونی خفیہ قوت کے آلہ کار اور عسکری اتحادی رہے ہیں لہذا اس سارے ہنگامے اور طوفان کا مطلب کیا لیا جائے؟؟؟ بہت گہرا سوال ہے لیکن جواب بہت آسان۔۔۔۔