• گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
  • حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
  • جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
  • پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
  • رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
  • مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
  • گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
  • فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
  • شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
  • علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات

تازه خبریں

1973ء کے متفقہ دستور پاکستان کی 43 ویں سالگرہ کے موقع پر قائد ملت جعفریہ کا پیغام

,آئین پر عملدرآمد ہی میں ملک کی مشکلات کا حل مضمر ، افسوس بالادستی کی بات تصور تک محدود،
مضبوط و مربوط نظام نہ ہونے کے باعث آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی جگہ طاقت نے لے لی، قائد ملت جعفریہ پاکستان

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجدعلی نقوی نے 1973ء کے متفقہ دستور پاکستان کی 43 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں کہاہے کہ آئین پاکستان پر عملدرآمد ہی میں ملک کی مشکلات کا حل مضمر ہے، افسوس ملک میں مضبوط نظام نہ ہونے کے باعث آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی جگہ طاقت نے لی، متفقہ دستاویز کے باوجود ایسا محسوس کیا جارہاہے جیسے دستور کو یرغمال بنا دیا گیا ہے اورآئین کی اکثر شقوں کو چھیڑاتک نہیں گیا اور بعض درخوراعطناء نہیں سمجھا گیا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ دستور کسی بھی ملک کے مختلف حصوں، طبقوں اور ثقافتوں کوآپس میں جوڑتاہے، ان کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ فراہم کرتاہے ، جمہوریت ، جمہوری رویوں ،انسانی حقوق اور انصاف کی اساس فراہم کرتاہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انتظامی ڈھانچے کی حدودوقیود کا تعین کرنے کے ساتھ ملکی ترقی اور اس کی پیش رفت بھی آئین پر ہی موقوف ہوتی ہے ۔1973 ء میں چھبیس سال کے صبرآزما لمحات کے بعد بالآخر ماہ اپریل میں وہ تاریخی دن آگیا جب تمام سنجیدہ طبقات متفقہ آئین پر متحد ہوئے اور 1973ء کے متفقہ دستور پاکستان کے نام سے دستاویز مکمل ہوئی، لیکن بدقسمتی سے 43 سال قبل ہم نے جس متفقہ آئین کی نوید سنی اس پر چار دہائیوں سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد بھی مکمل عملدرآمد نہ ہوسکا بلکہ بعض اوقات جزوی عمل بھی تعطل کا شکار ہوگیا اور آخر حکیم امت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کا یہ شعر بے ساختہ لبوں پہ آجاتاہے کہ مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پراناپاپی ہے برسوں میں نماز ی بن نہ سکا
دستور پاکستان بننے کے بعد آج تک اس کو نظر انداز کیا جاتا رہاہے ، آئین کی بہت سی ایسی دفعات ہیں جنہیں چھیڑا تک نہیں گیا اور بعض شقوں کو ہر دور میں اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ آئین کی بالادستی کی بات تصور کی حد تک ہی محدود رہی اور ا س پر عملدرآمد میں تعطل کی ایک لمبی تفصیل ہے ۔ آئین و قانون کی حکمرانی فقط سیاسی جماعتوں کے منشور تک ہی رہی ، آج ملک میں آئین کی حکمرانی کی جگہ طاقت کی حکمرانی نے لے لی۔ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مضبوط نظام ہی مرتب نہ ہوا اور اسی کمزوری کا فائدہ طاقت کی حکمرانی نے بھرپور طریقے سے اٹھایا جس کے کئی مظاہر سے ہمارے ملک کی تلخ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح سرعام کوڑے مارے جاتے رہے، انسانیت کی تذلیل کی جاتی رہی، منتخب حکومتوں کو چلتا کیا جاتا رہا ، بنیادی انسانی حقوق پامال کئے جاتے رہے ، بڑے بڑے سیکنڈلزسامنے آئے لیکن طاقت کی حکمرانی کے باعث کسی نے لب کشائی کی جرات تک نہ کی اور اگر کسی نے کوئی لفظ بولنے کی جسارت ہی کردی تو وہ نشان عبرت بنادیاگیا اسی باعث آج بھی طاقت و ر طبقہ محفوظ ہے اور اگر کوئی غریب یا کمزور ہتھے چڑھ گیا تو اس کا حشر نشر کردیاگیا ۔آئین و قانون پر عملدرآمدنہ ہونے کے باعث ملک عدم استحکام کا شکار ہو ا تو تباہی و بربادی نے ہمارے گھروں میں ڈیرے ڈالے ، ایسا محسوس کیا جانے لگا کہ جیسے ملک میں امراء کیلئے اور اور غرباء کیلئے اور قانون ہے ، ملک میں انصاف کیلئے آنکھیں ترس گئیں۔بے گناہ عوام کا قتل عام ہو ا ،قاتل انصاف کے کٹہرے میں نہ لائے جا سکے ۔ہمیں آج کا دن جہا ں یہ اس عظیم کارنامے نمایاں کی یاد دلاتاہے وہیں یوم تجدید عہد بھی ہے کہ پاکستان اور آئین پاکستان کا تحفظ ہم سب کی یکساں ذمہ داری اور آئین پاکستان کی تمام شقوں پر عملدرآمد ہمارا فریضہ ہے ، اسی میں ملک کے تمام بحرانوں اور مشکلات کا حل مضمر ہے۔