شدت عدل کی وجہ سے شہید ہونے والے جانشین رسول ﷺ ‘ خلیفۃ المسلمین اور امیرالمومنین حضرت علی ؑ ابن ابی طالب نے فرمایا تھا ’’کسی غیر کی غلامی قبول نہ کر (کیونکہ) خدا نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے‘‘۔ شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے آزادی کی ماہیت وکیفیت کو اس انداز میں بیان کیا
پہلو میں ہو دل ‘ دل میں ہو یقین ‘ سر پہ ہو کفن ‘ کف میں ہو سناں
جب جمع یہ اجزاء ہوتے ہیں بنتا ہے قوامِ آزادی
۱۹۴۷ ء سے پہلے مسلمانان ہند کے اندر غیر کی غلامی قبول نہ کرنے کا جذبہ موجود تھا اور وہ غیر کی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے بے چین و منتظر تھے اسی جذبے نے انہیں تحریک چلانے پر متحرک کیا جبکہ اقبال کے دئیے ہوئے اجزاء بھی ان دنوں کارکنانِ تحریکِ پاکستان کے اندر پیدا ہوچکے تھے ۔ ان کے پہلو میں بایقین و باایمان قلب بھی موجود تھا اور انہوں نے آزادی کے حصول کے لیے سیاست کے میدان سے لے کر میدان جنگ تک ہرمقام اور ہر محاذ پر لڑنے کے لیے سر پہ کفن باندھا ہوا تھا۔ اسی قوامِ آزادی کے سبب ہی انہیں ظاہری اور جغرافیائی آزادی نصیب ہوئی جس کا نام پاکستان رکھا گیا۔
انسانی تاریخ مثبت و متضاد ‘ صحیح وغلط ‘ تلخ و شیریں اور حق و باطل حوالوں اور واقعات سے لبریز ہونے کے باوجود ہمیشہ سے حقائق سے کوسوں دور ‘ سچ کو مخفی رکھے ہوئے اور مصلحت کے نام پر گریز کی پالیسی کی حامل رہی ہے۔ یہی مزاج پاکستان کی تاریخ کے ساتھ ہے ہم اگر اس سخت اور کٹھن موضوع پر عرض کریں گے تو ممکن ہے ظروف کی کم ماہیتوں کے سبب ہزار معنی نکالے جائیں اور وہ بھی منفی۔ ہزار شاخسانے ابھارے جائیں اور وہ بھی خطرناک اور ہزار نتیجے نکالے جائیں اور وہ بھی اپنی مرضی اور حق میں۔ لیکن اتنی حقیقت تو عرض کئے بغیر چارہ نہیں ہے کہ آزادی کا جو مفہوم اللہ تعالے نے قرآن کریم میں ‘ نبی اکرم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں ‘ اہلبیت ؑ و صحابہؓ نے اپنی سیرت میں ‘ بانی پاکستان نے اپنی تقاریر میں ‘ مصور پاکستان نے اپنے خواب میں ‘ شہدائے تحریک آزادی نے اپنی شہادتوں میں ‘ کارکنانِ تحریک پاکستان نے اپنی قرباینوں میں رقم کیا تھا وہ مفہوم آج چونسٹھ سال گذرنے کے باوجود بھی حاصل نہیں ہوسکا بلکہ روز بروز ہم اس مفہوم سے دور تر ہوتے جارہے ہیں اور آزادی کی حقیقت سے ناآشنائی ہوتی جارہی ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے اوربعد میں قائم ہونے والے ممالک حتی کے ریاستوں میں آزادی کی کیفیت اور اسی آزادی کے نتیجے میں ترقی کی حالت دیکھیں تو ہمیں اپنی آزادی کی اصلیت واضح نظر آجاتی ہے۔لوگ کہتے ہیں اور شاید بجا کہتے ہیں کہ ہم روز اول سے کسی بھی لحاظ سے آزاد نہیں رہے سوائے اس کے ہماری جغرافیائی سرحدوں کا قیام عمل میں آگیا جس سے یہ تو ہوا کہ دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک نمودار ہوا اور خطہ ارض پر پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک متعارف ہوا۔ لیکن کیا اسی تعارف اور ظہور کو آزادی کہا جاسکتا ہے یا آزادی کے تقاضے کچھ اور ہیں؟؟کیا یہ سچ نہیں کہ غلط جغرافیائی تقسیم نے ہماری آزادی کو نامکمل رکھا جس کا آخری مرحلہ تقسیم پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کی شکل میں رونما ہوا؟؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ارض کشمیر کو پہلے دن سے متنازعہ حیثیت میں ہمارے حوالے کرکے ہماری آزادی کو دائمی طور پر پریشان کردیا گیا؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تحریک پاکستان کے بعد پاکستان کے اقتدار پر ایک خاص طبقہ یعنی جاگیر دار مسلط ہوگیا جو اب تک چلا آرہا ہے جس کا پاکستان کے اکثریت غریب اور متوسط عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ انگریزوں کی وفا داری کے نتیجے میں انعام یافتہ طبقات نے ہی ملک کے تمام معاملات پر زبردستی قبضہ کرکے آزادی کی حیثیت واضح کردی؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جس انگریزی نظام سے آزادی کے نعرے لگے تھے وہی نظام ابھی تک اپنی اصل شکل میں موجود اور ائج ہے؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جس ہندوستان سے دو قومی نظریے کی بنیاد پر علیحدگی اختیار کی گئی تھی اسی ہندو قوم کے عادات و اطوار اور تہذیب و ثقافت کے بغیر ہمارا گذارا نہیں ہوتا؟؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزاد ملک کی تشکیل پانے والی اسمبلی کی اکثریت جاگیرداروں یا اس قسم کے طبقات پر مشتمل تھی جس کا درد اپنے سینے میں لے کر تحریک پاکستان کے سچے رہنما مولانا حسرت موہانی یہ کہہ کر پاکستان سے چلے گئے تھے کہ ہم نے اس طبقے کے لیے تو پاکستان نہیں بنایا تھا؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ظاہری آزادی کے باوجود کبھی ذاتی طور پر ‘ کبھی جماعتی طور پر‘ کبھی مسلکی طور پر ‘ کبھی فکری طور پر ‘ کبھی ثقافتی طور پر ‘ کبھی صحافتی طور پر ‘ کبھی سیاسی طور پر‘ کبھی قومیتی طور پر ‘ کبھی گروہی طور پر‘ کبھی عسکری طور پر اور کبھی مذہبی طور پر ہم کسی نہ کسی بیرونی طاقت کے اسیر ‘ غلام ‘ ایجنٹ ‘ آلہ کار یا پھر غلافی لفظ میں ’’دوست یا پیروکار‘‘ رہے ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسی آزادی کے آغاز میں ہی بانی پاکستان کے قتل کی سازش (یا بقول تاریخ واقعی قتل)اور پہلے وزیراعظم کے قتل کا واقعہ رونما ہوا؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزادی یافتہ ملک کے پہلے دس سال بمشکل گذرے تھے کہ بیرونی غلامی کے رسیا لوگوں نے آمریت کا آغاز کردیا اور موجودہ لمحات تک ملک میں آمریت نافذ ہونے کی افواہیں زوروں سے گردش میں ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے مذہبی رہنما آج بھی اسلام اور اسلامی تعلیمات قرآن و حدیث کی بجائے کسی نے کسی طرح بیرون پاکستان سے لیتے ہیں؟؟ کیایہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما سیاست نبوی ؐ اور سیاست علوی ؑ کو اپنا آئیڈیل بنانے کی بجائے لینن‘ ماؤزے تنگ‘ کمال اتاترک اور ان جیسے دیگر رہنماؤں سے فیض حاصل کرنا اعزاز سمجھتے ہیں؟؟کیا یہ سچ نہیں کہ ہماری تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا گن گانے والے خود یورپی اور ہندوستانی کلچر کے عامل ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے ماہرین اقتصادسود و حرام سے مبری اسلامی نظام معیشت پر بھروسہ کرنے اور اسے رائج کرنے کی بجائے دنیا میں موجود غیرحلال اور منافع کے نام پر سود دینے والے نظام کے حمایتی اور مروج ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزادی سے پہلے اور اب تک اسی آزاد ملک میں رہنے والے بہت سارے طبقات اسی ملک کے خلاف برسرپیکار ہیں اور ان میں بعض تو آزادی کے بھی خواہاں ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ سیاست سے لے کر صحافت تک ہر میدان میں ہم چھوٹی سی آزادانہ پالیسی بھی تشکیل نہیں دے سکتے بلکہ ہمیں کسی نہ کسی کے احکامات کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ڈرون اور خود کش حملوں کے آگے بے بس و مجبور ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خارجہ پالیسی تشکیل دیتے وقت ہمیں اپنے قریبی ہمسایہ ممالک سے بھی تعلقات بنانے اور بگاڑنے کے لیے عالمی طاقتوں کی خواہشات کا خیال نہیں بلکہ ان پر عمل کرناپڑتا ہے چاہے ملک تباہی کے سمندر میں ہی کیوں نہ غرق ہو جائے؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس آزاد ملک میں حکومتوں پر قبضے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بیرونی قوتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس آزاد ملک کے عوام غلام اور خواص آزاد ہیں؟؟بات کہیں شریعت کے تناظر میں لے جائی گئی تو بڑا مسئلہ ہوجائے گا لیکن بات کرتے ہوئے ہنسی آتی ہے کہ کیا سچ نہیں ہے کہ ہم چاند دیکھنے میں بھی آزاد نہیں ہیں بلکہ باہر کے ماحول کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزاد ملک میں آزاد رہنے کے خواہش مند لوگوں کو غلامی نصیب ہے اور بیرونی غلاموں کو آزادی کی ساری لذتیں میسر ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آزاد ملک میں اظہاررائے کی آزادی پر پابندی اور مادرپدر آزادی کی اجازت موجود ہے؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزاد ملک میں مقتول اور ان کے ورثاء قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جبکہ قاتل اور ان کے سرپرست آزادی سے دندنا رہے ہیں؟؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسی آزاد ملک میں توازن کی ظالمانہ اور غیر عادلانہ پالیسی کے تحت قاتل و کمزور‘ ظالم و مظلوم‘ نیک و بد ‘ شریف وبدمعاش‘ کافر کہنے اور کافر قرار دئیے جانے والے طبقات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے؟؟
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
آزادی کا نوحہ طویل ہے درد سے لبریز ‘ دکھ سے بھرا ہوا۔ سچ اور حقیقت عموماًقابل برداشت نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر کوئی قوم حقائق کو تسلیم اور سچ کو برداشت کرلیتی ہے تو اس کے سارے درد ‘ سارے دکھ ‘ سارے المیے اور ساری پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔ سچ وقتی طور پر تلخ بھی ہوتا ہے اور تلخی بھی دیتا ہے لیکن فطری طور پر یہی اصول مصدقہ اور مسلمہ ہے کہ بڑی سے بڑی کہنہ امراض کا شافی علاج صرف اور صرف تلخ اور تلخی سے ہی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا علاج بھی انہی اصولوں کے مطابق ہونا ضروری ہوچکا ہے۔ مسلط طبقات سے کم ہی امیدیں ہیں کہ وہ پاکستان میں موجود غلامی کی ساری امراض کا علاج کریں ۔ عوامی شعور کی بیداری اور اپنی غلامانہ بیماریوں سے آگاہی اس وقت پاکستانی عوام کے لیے لازم ہوچکی ہے۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں آزادی عطا کرنے کے لیے نچلی سطح پر آگاہی اور شعور کا پہنچنا ضروری ہے۔ آئیے یوم آزادی کے موقع پر آزادی کے دنوں میں آزادانہ عہد کریں کہ پاکستان کا یوم آزادی منانے سے پہلے ملک کو حقیقی معنوں میں آزاد کرانے کی جدوجہد کو تیز کریں گے اور پاکستان کو ہمہ قسمی غلامی سے آزاد کراکے امیرالمومنین حضرت علی ؑ کے ارشاد ‘ قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان اور علامہ اقبال کے خواب کے مطابق آزادی عطا کریں گے۔