اسلام آباد:امام خمینی ٹرسٹ کے سربراہ و اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید افتخار حسین نقوی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رٹ دائر کی تھی کہ پاکستان کے فیملی لاء میں بہت سی ایسی کمزوریاں موجود ہیں، جن کی وجہ سے فقہ جعفریہ کے لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جیسے اول، پاکستان میں خلع کا جو نظام رائج ہے، جس میں عدالت تین ماہ میں بغیر کسی تحقیق کے اور خاوند کی حاضری کے خلع جاری کر دیتی ہے، یہ فقہ جعفریہ کے خلاف ہے۔ دوم، اسی طرح طلاق کے حوالے سے شیعہ نقطہ نظر کے مطابق گواہ اور دیگر شرائط کا ہونا ضروری ہے مگر عدالتوں میں فیصلے اس کے خلاف ہو رہے ہیں۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ فیملی لاء ہر مسلک کے نقطہ نظر کے مطابق ہوگا مگر عملی طور پر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے فیصلے ہو رہے ہیں، جس کے وجہ سے فقہ جعفریہ کے لوگ کئی مسائل کا شکار ہیں۔ عدالت خلع دے دیتی ہے مگر فقہ جعفریہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں، بچیاں پریشان ہوتی ہیں اور شوہر بھاری پیسے لیکر طلاق دیتے ہیں یا دیتے ہی نہیں اور بچی کا مستقبل تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جو فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کے لئے ان کی فقہ کے مطابق ، سپریم کورٹ ریاست کو حکم دے کہ وہ یہ قانون سازی کرے۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے یہ تسلیم کر لیا کہ پاکستان کے فیملی لاء میں سقم موجود ہیں، جن کو دور کیا جانا چاہیے، البتہ ہم ریاست کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے۔ عدالت نے اپنی آبزرویشن میں اس حق کو تسلیم کیا، تاکہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتے وقت اسے مدنظر رکھے۔ اس فیصلے سے علماء کے پاس پارلیمنٹ میں جانے کی راہ ہموار ہوگئی، کیونکہ سپریم کورٹ نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ قانون میں سقم موجود ہیں۔ اس فیصلے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس صاحب نے کہا حضرت علیؑ کو ہر مسلمان مانتا ہے، حضور اکرم نے فرمایا تھا کہ میں علم کا شہر ہوں علیؑ اس کا دروازہ ہے۔
سماعت کے موقع پرسپریم کورٹ میں مکتب تشیع کے جید علماء کرام کی بڑی تعداد موجود تھی، جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شیعہ علما کونسل پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ عارف حسین واحدی پوری عدالتی کاروائی کے دوران عدالت میں موجود رھے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے علامہ افتخار نقوی نے کہا کہ پاکستان قرآن و سنت کا نظام نافذ کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا مگر قائد اعظم ؒ اور علامہ قبالؒ کا یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ پارلیمنٹ کا یہ کام تھا کہ قانون سازی کرتی اور جہاں سقم موجود ہیں، انہیں دور کیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا پاکستان کا آئین اور انسانی حقوق اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہر شخص کی فیملی کے فیصلے پرسنل لاء کے مطابق ہوں، قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا، اب ہم سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اس کیس میں علامہ افتخار نقوی کی طرف سے مشہور ایڈووکیٹ سردار فیض رسول جلبانی صاحب پیش ہوئے، انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ اس قانون میں کمزوریاں موجود ہیں، جن کو دور کیا جانا چاہیے، اب اگلے مرحلے میں پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوگی، جس میں سپریم کورٹ کی اس آبزرویشن کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے مسلم فیملی قوانین اور قومی اسملبی میں فقہ جعفریہ کے لئے قانون سازی سے متعلق علامہ سید افتخار حسین نقوی کی درخواست پر سماعت کے دوران کہا ہے کہ وراثت، طلاق اور دیگر معاملات سے متعلق ہر فرقے کے لئے مناسب قانون سازی ہونی چاہیئے، قانون سازی قومی اسمبلی کا اختیار ہے، درخواست گزار اپنے نمائندوں کے ذریعے معاملے کو قانون سازی کے لئے اسمبلی میں اٹھائیں، دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل فیض رسول نے دلائل میں کہا شریعت ایکٹ کی سیکشن 2 غیر منصفانہ ہے، ہر فرقہ کے مطابق وراثت اور طلاق سمیت دیگر معاملات پر قانون سازی ہونی چاہیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ مقننہ کو قانون سازی کی ہدایت کیسے کرسکتی ہے، سپریم کورٹ کا کام قانون کی تشریح کرنا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس میں کہا مسلم فیملی قوانین تمام فرقوں پر لاگو نہیں ہوتے، سیکشن فور کو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اس پر فیصلہ بھی ہوا، سیکشن فور پر فیصلہ ہوسکتا ہے تو سیکشن 7 کیوں چیلنج نہیں ہوسکتا؟ قوانین کے مطابق فقہ جعفریہ کے پیروکاروں پر ان کا ہی قانون لاگو ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت میں مقدمہ بازی میں فقہ جعفریہ کے قوانین کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلے کئے جاتے ہیں، آئین ہر فرقے کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے، عدالت نے کہا قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، عدالت قانون کی تشریح کرتی ہے، آپ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اس معاملے کو قانون سازی کے لئے اسمبلی میں اٹھائیں، عدالت نے یہ کہتے ہوئے درخواست نمٹا دی کہ جہیز وراثت طلاق سمیت دیگر معاملات پر ہر فرقے کے لئے مناسب قانون سازی ہونی چاہیے۔ علامہ سید افتخار حسین نقوی نے سپریم کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1973ء کے آئین کی رو سے قوانین قرآن و سنت کے مطابق بننے چاہئیں، قومی اسمبلی نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی اور قرآن و سنت کے مطابق قوانین نہیں بنائے۔ علامہ افتخار حسین نقوی کا مزید کہنا تھا کہ معاملے پر سپریم کورٹ کے حکم نامے کے ساتھ قومی اسمبلی سے رجوع کیا جائے گا۔ علامہ افتخار حسین نقوی کے وکیل فیض رسول جلبانی نے کہا اس معاملے پر مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے، عدالت نے تفصیل سے دلائل سنے اور جرح کا موقع دیا، ھم عدالت کے فیصلے پر مطمئن ھیں ،علامہ افتخار نقوی اور علامہ عارف حسین واحدی کے علاوہ کثیر تعداد میں علمائ کرام موجود تھے۔خاص کر جامعۃ الکوثر کے علمائ کرام علامہ محمد اسحاق نجفی،علامہ ظفر عباس شہانی،علامہ افتخار حسین جعفری،علامہ انتصار حیدر جعفری،علامہ غلام محمد،علامہ زاھد حسین زھدی،علامہ علی حسین عارف،موجود تھے ان کے علاوہ علامہ سید نصیر حسین موسوی،ڈاکٹر ندیم عباس،ڈاکٹر فرحت عباس اور بڑی تعداد میں ذمہ داران موجود تھے۔
علامہ عارف حسین واحدی نے اپنے بیان میں کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز ممبر حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید افتخار حسین نقوی پرسنل لا کے حوالے سے مسلسل کاوشیں کر رھے ھین قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی اور سب بزرگ علما کرام کے ساتھ مشاورت کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھا رھے ھیں ھم ان کی زحمات کی قدر دانی کرتے ھیں اور آج کی کامیابی پر ان کو مبارک باد پیش کرتے ھیں اس سے صرف کسی ایک مسلک کا نہیں بلکہ تمام مسالک کا فائدہ ھو گا اور تمام مسالک کے لئے پرسنل لا پر باقاعدہ قانون سازی کی راہ ھموار ھو گی۔