سہون شریف میں جن بزرگ ہستی کے مزار پردہشت گرد حملہ ہوا وہ سخی لعل شہباز قلندر کے نام سے مشہور تھے ان کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا جو سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ تھے۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں واقعہ ہے۔آپ کی ولادت 538 ہجری بمطابق1143 عیسوی آذر بائیجان کے علاقے مروند میں ہوئی۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔13 واسطوں سے جعفر صادق تک پہنچتا ہے سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نور شاہ بن سیدمحمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریبا ہم عصر تھے
آپ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر “لعل” کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی اس وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔شہبازکا لقب امام حسن نے ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا کہ ہم تمہیں اپنے ناناسے عطا ہوا تھا اس وجہ سے “شہباز لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔
۔ حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کا عرس مبارک ہر برس شعبان کی اٹھارہ تاریخ سے سیہون شریف میںعقید ت واحترام سے منایا جاتا ہے۔ حضرت شیخ عثمان مروندی کے آبا ئو اجداد بغداد سے ہجرت کرکے افغانستان کے علاقے مروند میں آباد ہوئے تھے اور ان کے والد سید حسن کبیرالدین سلسلہ سہروردیہ کے مشایخ میں شمار ہوتے تھے خود حضرت شیخ عثمان مروندی بھی سلسلہ سہروردیہ سے وابستہ تھے۔شیخ عثمان مروندی شہباز قلندر 1196 کے آس پاس افغانستان سے صوبہ سندھ آئے اور انہوں نے اس دوران سیہون میں قیام کیا اور یہ زمانہ محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے خاندانوں کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ شیخ عثمان مروندی صاحب جذب و وجدان تھے اور انہوں نے سندھ میں قیام کے ساتھ ہی سندھ کی عوام کے درمیان محبت ،امن، آشتی ، مل جل کر ر ہنے اور صلح کل کا پیغام عام کیا۔ شیخ عثمان مروندی لال شہباز قلندر کو سندھ میں صوفیانہ شاعری ، صوفی کلچر اور سندھ کو عدم تشدد کے راستے پر گامزن کرنے والے وہ صوفی تھے جن کی وجہ سے سندھی کلچر ایک واضح شکل وصورت اختیار کرپایا۔ ان کے شاگردوں میں مخدوم بلاول ، شاہ لطیف بھٹائی اور سچل سرمست شامل تھے جن کے بنا سندھی ثقافت و صوفی شاعری کے خدوخال ترتیب نہیں پاسکتے تھے۔ شیخ عثمان مروندی رحمت اللہ علیہ نے 1214 کے درمیان ہی کسی سال ملتان اچ شریف اور پاکپتن کا دورہ کیا اور اس دوران اپنے زمانے کے تین بڑے ہم عصر صوفیوں سے ملاقات کی جن حضرت سید جلال بخاری اچ شریف ، حضرت بہاؤا لدین زکریا ملتانی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر شامل ہیں اور یہ ملاقات بعد ازاں گہری دوستی میں بدل گئی۔شیخ عثمان مروندی اکثر سرخ لباس زیب تن کیے رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کا نام لعل شہباز قلندر پڑگیا۔
لعل شہباز قلندر اہلیبت علیہ سلام کے عاشق اور انکے سچے پیروکار تھے انہوںنے اہلیبت علیہ سلام کی تعلیمات کو سندھ میں عام کیا جبکہ روایت کے مطابق شہباز قلندر کے والد بزرگ وار کربلا میں امام حسین علیہ سلام کے مجاور بھی رہے ہیں۔