تازه خبریں

روہنگیا مسلمانوں کو خطرناک جزیرے میں بسانے کی بنگلہ دیش کی کوشش

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے سیاسی مشیر ایچ ٹی امام نے کہا ہے کہ میانمار کی حکومت کے مظالم سے بچ کر فرار ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں آنے سےنہیں روکا جاسکتا- ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیشی حکام نے عالمی اداروں سے درخواست کی ہے وہ  روہنگیا مسلمانوں کے لئے بنگلہ دیش کے جزیرہ تنگرچار میں وقتی رہائش کا انتظام کریں-

واضح رہے کہ جزیرہ تنگرچار صرف گیارہ سال پہلے ہی بنگلہ دیش کے ڈلٹا میں سطح سمندر سے ایک جزیرے کی شکل میں معرض وجود میں آیا ہے اور خاص طور پر موسم گرما میں اس جزیرے میں سیلاب بہت زیادہ آتا ہے جبکہ جزیرے کے اطراف میں سمندری قزاقوں کا آنا جانا بھی بیحد ہے علاوہ ازیں اس جزیرے میں ابھی زندگی گذارنے کا کسی بھی طرح کا کوئی امکان نہیں ہے اس لئے اس کو خطرناک تصور کیا جارہا ہے۔ اسی لئے اس جزیرے میں روہنگیا مسلمانوں کو وقتی طور پر پناہ دینے کی بنگلہ دیشی حکومت کی پیشکش پر علاقائی اور عالمی حلقوں نے شدید تنقید کی ہے-   بنگلہ دیش کی حکومت کوشش کررہی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو اپنے یہاں سے باہر نکال کر اور ان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کر بین الاقوامی اداروں سے امداد حاصل کرے اور پھر اس کے  بعد روہنگیا مسلمانوں کو جزیرہ تنگر چار میں وقتی طور پر رہائش کی اجازت دے –

ہرچند بنگلہ دیش کی  حکومت کا دعوی ہے کہ اس کے ملک میں روہنگیامسلمانوں کی نقل مکانی سے اقتصادی سماجی اور سیکورٹی کی مشکلات پیدا ہوں گی لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کو تنگرچار جیسے خطرناک جزیرے میں منتقل کردیا جائے کیونکہ عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ اس جزیرے میں انسانوں کے لئے زندگی بسر کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے-  بنگلہ دیش نے میانمار کی حکوت کے سیکورٹی اہلکاروں کے ذریعے مشترکہ سرحدوں پر بارودی سرنگیں بچھائے جانے پر بھی اعتراض کیا ہے – میانمار کی حکومت بنگلہ دیش کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحدوں میں بارودی سرنگ بچھارہی ہے تاکہ میانمار سے جان بچاکربنگلہ دیش فرار کرجانے والے روہنگیا مسلمان اب دوبارہ میانمار میں داخل نہ ہوسکیں – بنگلہ دیش کی بارڈر سیکورٹی فورس کے کمانڈر منظور حسن خان نے میانمار کی بارڈر سیکورٹی فورس کے ذریعے بچھائی گئی بارودی سرنگوں سے پیدا ہونےوالے خطرات کا ذکرکرتے ہوئے کہا ہے کہ سرحدی علاقوں میں بارودی سرنگوں کے متعدد دھماکے سنے گئے ہیں –