• شیعہ علماء کونسل پاکستان صوبہ سندھ کا صدارتی انتخاب کل ہوگا
  • اسلامی تحریک پاکستان گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں
  • کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پرحل کیا جائے علامہ شبیر میثمی
  • “شہدائے جے ایس او پاکستان کی قربانیوں اور انکی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔” مرکزی صدر
  • ہم مسلسل گلگت، بلتستان کے عوامی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں علامہ شبیر میثمی
  • ایرانی صدر کی اقتداء میں نماز مغربین شیعہ علماء کونسل کے رہنماؤں کی ملاقات
  • اسلامی تحریک پاکستان کے وفد کا گلگت بلتستان کا دورہ
  • غاصب ریاست مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے علامہ عارف حسین واحدی
  • نوشکی قومی شاہراہ پہ مسافر بسوں پر حملہ افسوسناک ہے علامہ شبیر میثمی
  • قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد نقوی کی اپیل پر ملک بھر میں القدس ریلیوں کا انعقاد

تازه خبریں

امام موسیٰ کاظم ؑ سخاوت ، صبر اورشجاعت کے مظہر تھے، قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی

امام موسی کاظمؑ کی یوم شہادت پر قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد نقوی کا پیغام

 

امام موسی کاظمؑ کی یوم شہادت پر قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد نقوی کا پیغام

راولپنڈی/ اسلام آباد۔ 26فروری 2022 ء( جعفریہ پریس پاکستان)

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم ؑ کے یوم شہادت پر اپنے پیغام میں کہا کہ 35 سالوں پر محیط دور امامت میں آپ کی مسلسل جدوجہد اور جہاد، آپ کی علمی و روحانی زندگی، الہی مقام، آپ کا خاندان، اصحاب اور شاگردوں سے متعلق واقعات اور علمی اور کلامی مباحثوں کے تذکروں کے بغیر آپ کے حالات زندگی کا احاطہ ممکن نہیں اسی طرح امام موسی کاظم ؑ نے اپنے جد امجد پیغمبر گرامی کے عمل و کردار کو اپناتے ہوئے جب یہ محسوس کیا کہ اس وقت کی منحرف قوتیں دین اسلام کے عقائد و نظریات کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں تو آپ نے ان قوتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام نہ لیا چنانچہ انہیں اس عمل کی پاداش میں کئی سال قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا گیا اور بالاخر امام برحق کی شہادت بھی انہی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے ہوئی۔
علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا ہے کہ امام موسی کاظم ؑ نے اپنے آباءو اجداد کی سیرت و کردار پر عمل پیرا ہوکر خالص اسلام محمدی کی تعبیر و تشریح، قرآن مجید کی تفسیر اور اسلامی معارف کی روشن تصویر کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں امامت اور سیاسی حاکمیت کے فلسفے کو واضح کیا اور اسی طرح عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی لئے سعی و کوشش کی جس کی خاطر پیغمبر گرامی اور دیگر انبیائے کرام مبعوث ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ امام موسی ابن جعفر ؑ کی امامت کا آغاز ایک مشکل ترین زمانے میں ہوا جب وہ اپنے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق ؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے تو اس وقت صورتحال یہ تھی کہ بنو عباس اپنی خلافت کی ابتدا میں پیدا ہونے والے داخلی اختلافات اور جنگوں سے فراغت پاچکے تھے اور اپنے مخالفین کی سختی سے سرکوبی کرنے کے بعد انہیں خاموش کررہے تھے۔ چنانچہ جلاوطنی اور اسارت جیسے کٹھن اور مشکل مراحل میں بھی امام ؑ نے عزم و استقلال اور جرات و بہادری سے مصائب کا مقابلہ کیا۔ ایک ایسی شخصیت جو صرف حالات کے مطابق دینی احکام اور اسلامی معارف بیان کررہی ہو انہیں کبھی جلاوطنی، کبھی اسیری اور کبھی روپوشی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے چنانچہ روایت کے مطابق ”ایک مدت تک امام موسی کاظم ؑ مدینہ میں موجود ہی نہ تھے بلکہ شام کے گاﺅں و دیہاتوں میں روپوشی کے عالم میں گزر بسر کرتے رہے،، مزید برآں مورخین کو تاریخ اسلام قلمبند کرتے وقت حضرت کے حالات زندگی کے جس پہلو پر زیادہ دقت سے توجہ دینی چاہیے تھی وہ آپ کی زندگی کا عظم اور بے نظیر ”طویل المدت اسیری،، کا پہلو ہے جس کے پیچھے طویل اور صبر آزما جدوجہد کارفرما تھی۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے ائمہ اطہار ؑ کی سیرت و کردار اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ حق و صداقت کی ترویج اور دین حق کی تبلیغ کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی عظیم المرتبت شخصیت کی زہر سے شہادت کے بعد بھی بدی اور جبر کی قوتیں خائف نظر آئیں چنانچہ ظالم حکمران آپ کے جنازے اور قبر مطہر سے خوفزدہ تھے یہی وجہ ہے کہ جب قید خانے سے آپ کا جنازہ باہر نکالا جارہا تھا تو حکومتی مشینری یہ اعلان کررہی تھی کہ حکومت وقت سے بغاوت کرنے والے کا جنازہ ہے تاکہ آپ کی شخصیت اور کردار کو لوگوں کی نظرو ں میں داغدار کیا جاسکے لیکن اس میں ناکام ہوئے، آپ کا مزار مقدس کاظمین بغداد میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔