آئین معاشروں کی اکائیوں کو جوڑنے کا نظام، افسوس دستور ناکام ہوگیا، قائد علامہ سید ساجد نقوی
بتایا جائے کیا آئین تمام طبقات کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرسکا؟آئینی بالادستی کی مالا جپنے والوں نے سوائے نعروں کے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا؟ آج ملک معلق اور قوم خوفزدہ ہے، صرف باتوں سے قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوگی، قائد ملت جعفریہ پاکستان
اسلام آباد07 جولائی 2018 ء(جعفریہ پریس )قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں آئین کسی بھی معاشرے کی اکائیوں کو جوڑنے ، ملکی مضبوطی کا ضامن ہوتاہے،کیا آئین پاکستان بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرسکا، تمام طبقات کے حقوق دیئے گئے، آئین کو چیلنج کرنیوالوں کو کیفر کردار تک پہنچایاگیا؟آئین عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوچکا، افسوس آئین کی بالادستی کی صرف مالا جپی گئی عملاً کوئی اقدام نہیں اٹھایاگیا، مضبوط جمہوری معاشروں کےلئے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانا ہوگی، آج ملک معلق اور قوم خوفزدہ ہے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے سابق چیئرمین سینیٹ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ آئین کہیں یا دستور وہ کسی بھی معاشرے کی اکائیوں کو جوڑنے، ملک کی مضبوطی کا ضامن ہوتاہے لیکن کچھ سوالات ہیںکہ جنہوں نے حقائق کی بنیاد پر جنم لیاہے کیا آئین نے پاکستان کو جوڑے رکھا؟آئین جس نے نظام میں توازن برقرار رکھنا تھا وہ اس کو قائم رکھ سکا ؟آئین جس نے تمام طبقات کو حقوق دینے کا وعدہ کیا تھا، کیا پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے انہیں حقوق میسر آئے؟ کیابنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کا تحفظ کیاگیا؟ آئین کی بہت سی ایسی دفعات معطل نہیں کردیاگیا جن کا براہ راست تعلق عوامی حقوق اور بنیادی انسانی حقوق سے تھا؟آئین جب بالادست تھا تو پھر اسکی بالادستی کو چیلنج کرنیوالوں ، اسے روندنے والوں کے حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی ؟صرف آئین کی بالادستی کی مالا جپنے والوں نے کیونکر کردار ادا نہ کیا ؟ کیا صرف باتوں یادبے دبے انداز سے ہی آئینی بالادستی قائم کی جاسکتی ہے؟ بر سر اقتدار آنیوالوں اور اعلی انتظامی عہدو ں پر تعیناتی کے وقت آئین کی بالادستی اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کےلئے کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایاگیا ؟۔ ان سوالات کا جواب ہر ذی شعور ، سنجیدہ اور حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا محب وطن شہری پوچھتاہے لیکن اس کا جواب کون دے گا ؟۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے مزید کہاکہ میں خود عینی شاہد ہوںکہ کس طرح عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، سرعام انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہاہے، پورا ملک معلق ہوچکاہے، ہر شخص خوف میں مبتلا ہے ، آزادی اظہار پر طرح طرح سے پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ، ان تمام وجوہات کی بنا پر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئین پھر بھی کامیاب ہے جبکہ حقیقتاً آئین ناکام ہوچکاہے، عوام کو تحفظ دینے میں ، عوام کے حقوق کی پاسداری میں،صحیح معنوں میں عوامی شراکت اقتدار سے لے کر بنیادی سہولیات دینے تک کے مراحل میں کہیں بھی کامیاب نظر نہیں آرہا۔انہوںنے کہاکہ کیا کوئی ذمہ داری اٹھانے کےلئے تیار ہے، کیا کوئی واقعتاً آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کا حق ادا کرنے کےلئے تیار ہے ، صرف باتوں سے نہ آئین کی بالادستی قائم کی جاسکتی ہے نہ ہی قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ مضبوط معاشرے اور خصوصاً مضبوط جمہوری معاشرے کےلئے ضروری ہے کہ آئین کی بالادستی کے قیام اور قانون کی صحیح معنوں میں حکمرانی کےلئے سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہونگے اگر مذکورہ بالا سوالات حل کرلئے لئے گئے تو پھر کہا جاسکتاہے کہ واقعتاً آئین کامیاب ہوگیا بصورت دیگر اس کی کامیابی کے امکانات مزید معدوم ہی ہوتے جائیں گے۔