جعفریہ پریس کراچی – پاکستان کی معروف علمی مذہبی شخصیت اوراسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا ایسا کوئی آئینی کردار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کام فتویٰ دینا ہے ۔ وہاں تمام مکاتب فکر مل کر بیٹھے ہیں ، ہر شخص اپنے فقہ کی بات کرتا ہے، وہاں کوئی مناظرہ نہیں ہوتا، وہاں کسی کو کافر نہیں کہا جاتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر نے مزید کہا کہ کونسل کے اجلاسوں میں اس پر بحث کی گئی کہ فتویٰ دینے کا حق کونسل کے پاس ہونا چاہیے۔ متفقہ طور پر طے کیا گیا کہ اولاً تو آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور دوسرا فتویٰ دینا اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ہی نہیں۔ باقی ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کے سلسلہ میں اپنا بھرپور کردار کونسل ادا کر رہی ہے، جیسے چاند دیکھنے کا معاملہ ہے،اس میں مفتی منیب اور دوسرے علماء کے درمیان ملاقاتیں کروائی گئیں اور غلط فہمیوں کو دور کیا گیا۔ علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کہا کہ اس کا وجود خود مذہبی ہم آہنگی کا مظہر ہے یہ کونسل ملک میں فتویٰ باز اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کو نصیحت یا مشورہ تو دے سکتی ہے لیکن فتویٰ دینا اس کا کام نہیں ہے-
علامہ سید افتخار حسین نقوی نے کہا کہ آج میلاد و محرم کے جلوسوں پر پابندی لگانی کی باتیں کی جا رہی ہیں، یہ بات ان اذہان کی پیداوار ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ اپنا کوئی مسئلہ ہو تو بڑے بڑے جلوس نکالتے ہیں، اس موقع پر اپنا وہ فتویٰ بھول جاتے ہیں کہ جلوس نکالنا حرام ہے۔ جھنڈے بھی لے کر چلتے ہیں اور نعرہ بازی بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میلاد و عزاداری کے جلوسوں کو ہم عبادت سمجھتے ہیں، جس کی آئین پاکستان مکمل اجازت دیتا ہے ۔ اگر سکھ اپنے طریقے سے عبادت کرتے ہیں تو انہیں اسکی آزادی حاصل ہے۔ عزاداری کے جلوس دنیا بھر میں نکالے جاتے ہیں، چونکہ یہ جلوس ہماری عبادت کا حصہ ہیں اورعزاداری کے یہ جلوس صدیوں پرانے ہیں، آئین پاکستان میں انکی مکمل اجازت کے بعد ہی نو اور دس محرم کو چھٹی دی گئی، چونکہ امام حسین علیہ السلام کی ذات سب کے لئے محترم ہے۔