مہتمم :حوزہ علمیہ امام حسن مجتبیٰ
اس وقت عالم کفر عالم اسلام کے خلاف جنگی جنون میں مبتلاء ہے۔ عالم اسلام پر کفر کی جنگی یلغار سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اپنے اندر اتحاد و حدت کی فضا قائم رکھنا چائیے، ایسی صورتحال میں ہمیں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی، تہمت اور کفر کے فتوے صادر کرنے کی بجائے متحد ہو کر ظالم قوتوں کا اسی انداز میں مقابلہ کرنا ہوگا، جس طرح وہ عالم اسلام کے خلاف متحد ہیں۔ جب تلک امت مسلمہ متحد نہ ہو گی، عالم کفر کا یہ جنگی جنون ایک ایک مسلم ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتا رہے گا۔ عراق، افغانستان، شام، ساؤتھ افریقہ، برما، کشمیر اور فلسطین میں بھڑکتی ہوئی جنگی آگ درحقیقت عالم کفر کی مکارانہ سازشوں کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل کی طرف سے حالیہ جارحیت اسی جنگی جنون کا اظہار ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر بمباری، بچوں کو دودھ پلاتی ماؤں پر میزائل۔۔۔ گلی محلے میں کھیلتے بچوں پر بارود، شہری آبادیوں پر فضائی حملے، اسرائیل کے غلیظ اور بھیانک مقاصد کا پتہ دے رہے ہیں۔
اس سال یوم القدس کو بیت المقدس پر ’ناجائز قبضے کے خلاف‘ منانے کے ساتھ ساتھ حالیہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف بھی یوم مذمت اور احتجاج کے طور پر منایا جانا چاہیے۔ اگر امت مسلمہ ایک زبان ہو کر اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کے خلاف موثر آواز اٹھائے تو یہ آواز فلسطینیوں کے دکھوں کا مداواکر سکتی ہے۔
استکباری طاقتیں مسلمانوں پر غلبہ، ان کے قدرتی وسائل پر قبضہ اور مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کرنا چاہتی ہیں۔ خصوصاً بیت المقدس پر قبضہ اور اس کی توہین ان کی اولین ترجیح ہے جبکہ بیت المقدس صرف مسلمانوں کا قبلہ اول ہی نہیں بلکہ بہت سے انبیائے الٰہی کی جائے ولادت اور عبادت گاہ بھی ہے۔ بطور مسلمان ہماری امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ ہم تمام انبیائے کرام کا احترام کرنا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ باقی ادیان کے پیروکاروں کی طرح ہم کسی نبی یا رسول کی توہین کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ لہٰذا بیت المقدس ہمارے لیے صرف اسی لیے محترم نہیں کہ یہ مسلمانو ں کا قبلہ اول ہے بلکہ اس لئے بھی محترم ہے کہ یہ مقام انبیائے الٰہی کا گہوارہ اور پیغام حق کا مرکز ہے۔ اس بنیاد پر بیت المقدس مسلمانان عالم کے لیے ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس پر قبضہ مسلمانوں کی عزت اور جذبہ ایمانی پر کاری ضرب ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیل کی طرف سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مشترکہ مقدس مقامات پر قبضے سے اسے ایک عالمی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور دوسرے تمام مذاہب کے پیروکار ان مقدس مقامات کی زیارت کے لیے اسرائیل کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ یہودی عقیدے میں بیت المقدس پر قبضہ تمام مذاہب کے مقدس مقامات اور سیاست پر قبضہ ہے۔ لہٰذا یوم القدس مسلمانوں کے لیے سیاسی، مذہبی، سماجی اور ثقافتی حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان بیت المقدس کی موجودہ حیثیت کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی آزادی کے لیے بھرپور انداز سے اپنی جد و جہد کو جاری رکھنا چاہیے اور اپنی آیندہ نسلوں کو القدس کی تاریخی حقیقت اور یہودیوں کی سازشوں سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آزادی قدس کی تحریک مزید مضبوط و منظم ہو سکے۔
اگر ہم نے آج بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتی تو نہ صرف آیندہ نسلوں کے مجرم ہوں گے بلکہ استکبار و استعمار کی طرف سے ہونے والے مظالم میں شریک گناہ بھی سمجھے جائیں گے۔
آج ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا کے حکم الٰہی پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ کی وحدت کے
لیے کوشاں رہیں۔ ایسے گروہ کی تشکیل میں کامیاب ہو جائیں جس گروہ کا وجود خدا دیکھنا چاہتا ہے۔ یعنی ایسا گروہ بن جاؤ جو نیکی کی طرف دعوت دینے والا اور برائی سے روکنے والا ہو۔ اسرائیل اور دیگر استعماری و استکباری طاقتیں صرف برائی نہیں بلکہ برائی کی جڑیں ہیں۔ ان جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے والا گروہ تیار کرنا نیکی اور معروف کا مصداق ہے۔