انقلاب نے ایران کو طاقت بنا دیا
شہباز حسنین
آج کی دنیا سائنس کی دنیا ہر آنےو الا دن سائنس کی دنیا میں نت نئی ایجادات لا رہا ہے۔ایک وقت تھا دنیا میں جنگیں پتھروں اور لکڑی کے ڈنڈوں سے لڑی جاتی تھیں،اس کے بعد تیر،تلوار اور نیزے کا زمانہ آیا۔جس قوم نے لکڑی ڈنڈوں اور پتھروں سے جتنا جلد تلوار،تیر اور نیزے کا استعمال سیکھا اور اس میں مہارت حاصل کی وہ قوم اتنی جلدی ہی میدان جنگ میں کامیابیاں سمیٹنے لگی۔جو قوم خودکو بدلتے حالات کے مطابق نہ ڈھال سکی وہ جلد ہی محکوم ہو گئی یا تلوار کے کام آئی۔ایک زمانے تک یہی جنگی ٹیکنالوجی رہی،منجنیق کا استعمال ، لشکر بندی کی بہتر ترتیب اور باضابطہ فوجیں کامیابی کی ضمانت بننے لگیں۔ جنہوں نے نئی جنگی اقدار کو سیکھا اور اس میں ترقی کی وہ دنیا میں چھا گئے۔جنگ خندق سے پہلے عرب خندق کھود کر اپنا دفاع کرنے کے فن سے آشنا نہیں تھے حضرت سلیمان فارسیؓ کے مشورہ پر ایرانی طریقہ جنگ کو نبی اکرمﷺ نے پسند کیا اور پہلی بار خندق کھودی گئی۔یہ اس وقت کی اتنی موثر چیز تھی کہ پورے عرب کا لشکر جو اس برے ارادے سے نکلا تھا کہ پورے مدینہ کو تہس نہس کر دے گا وہ خندق کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور ان کے پاس اس خندق کا کوئی توڑ نہیں تھا۔اسی طرح ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں پہلی بار مسلمانوں کے سامنے ہاتھی کی صورت میں دیواریں کھڑی ہو گئیں اور بعد میں وہ دیوہیکل ہاتھی مسلمان لشکر پر چڑھ دوڑے ۔ بہت سے مسلمان شہید ہو گئے اور مسلمان لشکر کا بڑا نقصان ہوا۔بعد کی جنگوں میں مسلمانوں نے اس کا توڑ نکال لیا مگر وقتی طور پر بڑا نقصان ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ مسلمان بحری جنگ میں پیچھے تھے پھر مسلمان حکمرانوں نے اس طرف توجہ دی اور پہلی صدی ہجری کے اختتام تک بہترین جنگی بحری بیڑا قائم ہو چکا تھا جس کی دھاک قسطنطنیہ تک جا پہنچی تھی۔مسلمانوں نے بحریہ کو بہت زیادہ ترقی دی اور آج کی جدید بحریہ کی اکثربنیادی اصطلاحات مسلمان بحری ماہرین کی وضع کردہ ہیں۔
منگول لشکر کے بارے میں ہے کہ انہوں نے جنگوں میں گھوڑوں کا استعمال اس حکمت سے کیا کہ وہ ایک ماہ کا سفر لشکر کے ساتھ ایک ہفتے میں کر لیتے تھے اور فوجیوں کی تربیت ایسے کی کہ وہ چلتے گھوڑے کی پشت پر سو لیتے تھے کچھ چیزیں بہت مبالغے کی لگتی ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص چلتے گھوڑے کی پشت پر سو جائے یا ایک آنکھ بند کر کے سوئے اور پھر دوسری آنکھ کو بند کرے؟
ترک حکمران قسطنطنیہ پر قبضے کے خواب لیے ہی دنیا سے رخصت ہوتے رہے۔کہا جاتا ہے کہ سلطان محمد کی کامیابی کی وجہ ان کا توپ خانہ تھا اگرچہ بارود پہلے سے موجود تھا مگر اتنی بڑی تعداد میں اور اتنی بڑی توپ کہیں نہیں دیکھی گئی تھی۔وہ توپیں جب چلیں تو قسطنطنیہ کی مضبوط فصیلیں ٹوٹ گئی اور مسلمان لشکر قسطنطنیہ میں داخل ہو گئیں ۔
آج بھی کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے ،روایتی جنگ کے تصورات تبدیل ہو رہے ہیں۔اب فوجیں بھیجنا اور انسانی جانوں کو ضائع کرنا مستقبل قریب میں قصہ پارینہ بن جائے گا۔اب ڈرونز کا زمانہ آ چکا ہے جو اس میدان میں آگے بڑھے گا وہی طاقتور ہو گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کو ڈرونز ٹیکنالوجی میں مسلسل ورطہ حیرت میں ڈال رہا ہے۔بین الاقوامی میڈیا پر ایرانی ڈرونز کا معاملہ اس وقت اٹھا جب چند سال پہلے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی باتیں ہورہی تھی تو ایران نے امریکی بحری بیڑے کی آبنائے ھرمز سے گزرتے ہوئے ڈرون ویڈیو جاری کر دی تھی کہ ہم کہاں تک جانتے ہیں۔اس ڈرون کی ویڈیو اتنی اچھی تھی کہ جہاز پر لکھے انگریزی کے حروف بھی سمجھ میں آ رہے تھے۔
امریکی نیوی کے ڈرون آر کیو-4 گلوبل ہاک کو ایران نے مار گرایا تھا یہ امریکہ کا جدید ترین ڈرون تھا جو ہر طرح کے موسم میں تیس گھنٹے مسلسل پرواز کر سکتا ہے۔اس پر دنیا بھر میں ایرانی ٹیکنالوجی پر بات ہونے لگی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پابندیوں کا شکار ملک دنیا کا سب سے اچھا جاسوس ڈرون نا صرف تلاش کرے بلکہ اسے مار گرائے۔
ٹرمپ کے دور میں ہی یو ایس ایس باکسر نامی امریکی جنگی بحری جہاز نے ایرانی ڈرون کو بحری جہاز کے 1000 گز تک قریب آنے پر گرانے کا دعوی کیا تھا جس کی تردید ایرانی فوج کے بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل شیخراچی نے کی تھی کہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں موجود تمام ایرانی ڈرون نگرانی کے مشن مکمل کرنے کے بعد بحفاظت اپنے اڈوں پر واپس آئے ہیں۔یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایران نا صرف ڈرون ٹیکنالوجی پر کام کر رہا تھا بلکہ اسے مسلسل چیک بھی کر رہا تھا۔
ایران کے چھ ادارے ڈرون سازی کر رہے ہیں جہاں اب تک ہزاروں کی تعداد میں ڈرونز بنائے جا رہے ہیں۔یوکرین روس جنگ میں مغربی اسلحے کی بنیاد پر جنگی توازن روس کے خلاف جا رہا تھا اور یوکرینی دوبارہ روسیوں پر حملے کرنے لگےتھے۔ ایسے میں پہلے یوکرین کا اور پھر امریکہ یورپ کا مسلسل واویلا میڈیا پر چلنے لگا کہ ایرانی ڈرونز یوکرین کی نہتی عوام کو قتل کر رہے ہیں اور ایرانی ڈرونز پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایران کو ڈرونز نہیں دینے چاہیں۔یہ ایرانی ساختہ شاہد-136 (Shahed-136) ڈرونز بتایا جا رہا ہے۔شاہد-136 کے پروں کا پھیلاؤ تقریباً 2.5 میٹر ہے اور دشمن کے لیے ریڈار پر اس کا پتہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔ایک ڈرون کی قیمت بیس ہزار ڈالر بنتی ہے۔یہ غول کی صورت میں حملہ کرتے ہیں جسے روکنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران فاتح اور ذوالفقار نام کے ڈرونز بھی بنا رہا ہے۔جنگ ہی نہیں ڈرونز تفتیش اور تحقیق کا پورا تصور ہی تبدیل کر ہے ہیں۔ تہران میں ایک علاقے میں دنگا ہوا اور ایک قتل ہو گیا۔ایرانی پولیس نےپورے علاقے کی فضائی نگرانی کے لیے ڈرون لگائے ہوئے تھے جن کی مدد سے مجرم کو آسانی سے گرفتار کر لیا تھا ۔ایران بڑی تیزی سے اس ٹیکنالوجی کا ایکسپورٹر بنتا جا رہا ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ اگر آپ وقت کی رفتار کے ساتھ چلتے ہیں تو ایسا ہوتا ہے پہلے ایران اسلحہ خریدتا تھے اور ایران کو اسلحہ بیچنے والوں پر پابندیاں لگائی جاتی تھیں اور آج روس جیسا طاقتور ملک ایرانی ڈرونز خرید رہا ہے اور یورپ ڈرونز بیچنے پر پابندی لگا رہا ہے۔اس میں ہمارے لیے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے کہ ہم جس قدر جلد ممکن ہو اپنے دفاع کو سائنس سے متعلق کر دیں،اس میں نا صرف ہم بہت سرمایہ بچا سکتے ہیں بلکہ کما بھی سکتے ہیں۔