تازه خبریں

تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ شیعہ علماء کونسل پاکستان نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو یادادشت پیش کردی

تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ شیعہ علماء کونسل پاکستان نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو یادادشت پیش کردی

مکرمی جناب چوہدری پرویز الہی صاحب‘ سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب۔ لاہور
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ!

پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ 2020 ءاور ہمارا موقف گذشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والے ”پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ“ کے عنوان سے بل کے شق وار مطالعہ کے بعد ہم بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بل مختلف حوالوں سے قابل اعتراض ہونے کے سبب ناقابل عمل اور ناقابل قبول ہے۔

(1) نام
ایکٹ کا نام ہی حیرت و تعجب کا باعث ہے کہ دین اسلام کی بنیاد اور اساس تو خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت اور ختمی مرتبت‘ خاتم النبین حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت ہے جبکہ ایکٹ کے مندرجات پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈی نینس کے مطابق نشرو اشاعت سے متعلق مواد پر مشتمل ہیں۔
(2) کتب کی اشاعت
صوبائی حکومت کے بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ ایکٹ بنیادی طور پر قابل اعتراض مواد کی روک تھام سے متعلق ہے جبکہ اس متن کی شقیں کتب سے ہٹ کر تاریخ اسلام کے حقائق سے گریز ‘ مختلف مسلمہ اسلامی مکاتب اور مسالک کے عقائد ونظریات کی نفی اور ملک میں از سر نو فرقہ واریت‘ تعصب و تنگ نظری‘ انتشار و انارکی اور بدامنی پھیلانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
(3) آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 آرٹیکل20 اور آرٹیکل 227
دستور پاکستان کے آرٹیکلز 19,20,227 کی روشنی میں ہر مکتب فکر کو اس کے اپنے عقیدے و نظریے کی بنیاد پر قرآن و سنت کی تشریح کے حق کو تسلیم کیا گیا جبکہ ملک کی ایک صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جانے والا یہ ایکٹ گویا آئین پاکستان کی کھلم و کھلا توہین و خلاف ورزی پر مبنی ہے اور آئین کے ان آرٹیکلز سے متصادم ہے۔
(4) متحدہ علماءبورڈ پنجاب
اگر معاملہ قابل اعتراض مواد کی اشاعت کا ہے تو صوبہ پنجاب میں صوبائی حکومت کا ایک اہم ادارہ ”متحدہ علماءبورڈ پنجاب“ گذشتہ تین دہائیوں سے کام کررہا ہے اور اس بورڈ میں تمام مسلمہ اسلامی مکاتب فکر کی موثر نمائندگی ہے اور وہ ادارہ مختلف کتب کا جائزہ لے کر اب تک قابل اعتراض مواد پر مبنی درجنوں کتب پر پابندی لگاچکا ہے۔ لہذا پہلے سے موجود ادارے کی موجودگی میں کسی ایسے ایکٹ اور اس سے جڑے دیگر اداروں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
(5) پہلے سے موجود قوانین
ایکٹ میں متنازعہ کتب کی اشاعت پر پانچ سال قید و جرمانہ اور خاص مواد کی اشاعت پر پاکستان پینل کوڈ XLV of 1860 کی دفعات کے مطابق ڈیل کرنا‘ گویا پھر ایسے معاملات میں پہلے سے موجود قوانین کی طرف رجوع کرنا ہے۔ تو دانشمندی کا تقاضا یہی ہوا کہ ایک صوبائی اسمبلی ایسے متنازعہ ایکٹ منظورہی کیوں کرے جبکہ آئین پاکستان میں اس حوالے سے پہلے ہی قوانین موجود ہوں۔
(6) بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ
مذکورہ ایکٹ ایک حوالے سے بنیادی انسانی حقوق کے بھی منافی ہے‘ محض ایک مخصوص اور متعصبانہ فکر اور سوچ کی ایماءپر تحقیقی عمل پر قدغن ناقابل فہم ہے۔ بیرون ملک سے تعلیمی حوالوں سے کتب کی فراہمی‘ مختلف مسلمہ اسلامی مکاتب فکر کے مسلمہ منابع و مدارک‘ کتب اولیہ و تفاسیر کا باہر سے شائع ہوکر ملک میں آنا علمی تحقیق و استفادہ کا سبب ہیں ۔ اسی طرح پرنٹرز‘ پبلشر‘ سپلائرز کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین کی موجودگی میں ایک صوبائی حکومت کا ایکٹ منظور کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ کچھ نہیں۔
(7) تاریخ اسلام کے حقائق کا انکار
ایکٹ کے مندرجات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک مخصوص متعصب‘ تنگ نظر‘ تکفیری اور سطحی سوچ کو پروموٹ کرتے ہوئے تاریخ اسلام کے ناقابل تردید حقائق سے بھی انکار کرنے کی جسارت کی گئی ہے گویا تاریخی نوعیت کے مسلمہ اختلافی امور کا سرے سے انکار کیا گیا۔
(8) اہلبیت پیغمبر اکرم کی تنقیص کا پہلو
اس ایکٹ میں ایک اور جسارت اور گستاخی بھی سامنے آئی ہے کہ تمام اسلامی مکاتیب فکر میں نماز میں حضرت محمد مصطفی ؒ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آل رسول پر درود لازم قرار دیا گیا ہے اور یہاں پر ایکٹ کی شق 8 میں سب سے آخر میں اہل بیت ؑ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تذکرہ کرکے دانستہ طور پر توہین و تنقیض کی گئی جو کسی متعصب تکفیری سوچ کی عکاس ہے۔
(9) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت علیہ السلام
تمام مکاتب فکر نماز کے تشہد اور اسلام میں رسول اکرم پر درود و سلام کو لازم خیال کرتے ہیں جبکہ اس بل میں ” صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ سے بھی گویا روکنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح صدیوں سے جارری قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں علیہ السلام اور سلام اللہ علیہا لکھا جاتا رہا اور اس بل میں اس سے بھی منع کرنا آل رسول سے بغض و مخالفت کو ظاہر کرتا ہے۔
(10) اسلامی مکاتب و مسالک کی تکریم
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ایکٹ میں کہیں بھی کوئی ایسا نکتہ نہیں دکھائی دیا جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا کہ اس کی فلاں شق کی روشنی میں کسی بھی مسلک و مکتب فکر کی توہین اور دل آزاری نہ ہو۔
ہمارا موقف
ہمارا ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ ہم اس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے خواہاں رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ‘ اتحاد و وحدت‘ امت مسلمہ کی یکجہتی کی خاطر ملی یکجہتی کونسل‘ متحدہ علماءبورڈ اور متحدہ مجلس عمل پاکستان جیسے عالمی سطح کے فورمز کے بانیان میں سے ہیں۔ ہمارا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ مختلف اسلامی مکاتب و مسالک کے مابین وحدت و یگانگت ایجاد کرنے کے لئے سینکڑوں مشترکات کی روشنی میں چند ایک جزوی و فروعی اختلافات کو پس پشت ڈالا جائے اور کسی کا عقیدہ چھیڑو نہیں اور اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں کہ اصول پر کاربند رہا جائے۔
مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ مذکورہ بالا ایکٹ کے مندرجات کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ایکٹ کا محرک بعض شرپسند‘ تنگ نظر‘ فتنہ پرست اور تکفیری گروہ کی جانب سے سوچی سمجھی سازش اور شرارت کا حصہ ہے جس کے ذریعہ وطن عزیز کو دوبارہ فرقہ واریت‘ نفرت و تعصب اور تکفیریت کی آگ میں جھونکنے کی مذموم کوشش ہے جسے محب وطن حلقے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اسی لئے اول روز سے ہم نے اسے مسترد کردیا۔

چونکہ
پاکستان نے انسانی حقوق کے عالمی منشور پر دستخط کئے اس منشور کے آرٹیکل 18 میں درج ہے کہ ہر شخص کو فکر‘ ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہے اس حق میں مذہب اور عقیدے کو تبدیل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے اور یہ آزادی بھی کوئی شخص تنہا یا کچھ افراد مل کر اجتماعی طور پر ‘ نجی حدود میں یا سرعام‘ تعلیم و تبلیغ‘ اعمال و عبادات کے ذریعہ اپنے مذہب کا اظہار کریں۔

لہذا

﴾﴿ ملک کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں دانشمندی کا تقاضا ہے کہ شدت پسند عناصر کی موجودگی اور تحریک پر پاس ہونے والے
اس ایک ایکٹ کو سرے سے واپس لیا جائے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس سے اسلام و پاکستان کا چہرہ داغدار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی
﴾﴿ حکمت و دانائی اور ملکی آئین کی بالادستی کو تسلیم کرنے کا بھی بہترین طریقہ یہی ہے کہ پہلے سے موجود قوانین کی موجودگی میں کسی نئی قانون سازی کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔
﴾﴿ متحدہ علماءبورڈ پنجاب جیسا اہم ادارہ گذشتہ کئی سالوں سے صوبے میں اسی عنوان سے کام کررہا ہے اس کی موجودگی میں کسی نئے ایکٹ کی ضرورت باقی نہیں رہتی
﴾﴿ عوام کے بنیادی ‘ قانونی‘ شہری اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا لازم و ناگزیر ہے
﴾﴿ ایسے ہی غیر ذمہ دارانہ عمل کی بدولت ماضی میں آئین پاکستان کے آرٹیکلز 295A-B, 298,298A,B,C کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے
﴾﴿ بعض صوبائی ذمہ داران اور اراکین اسمبلی کی جانب سے ایسے متنازعہ اور قابل اعتراض بل کو تاریخی کارنامہ قرار دیئے جانے کے بیانات سے بھی مختلف طبقات میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے
﴾﴿ اگر اس کے باوجود بھی ایسے کسی ایکٹ کی ضرورت محسوس ہو تو تمام مسلمہ اسلامی مکاتب و مسالک سے مشاورت کی جائے
نیک تمناﺅں کے ساتھ
والسلام

عارف حسین واحدی (علامہ) محمد افضل حیدری (علامہ) سید سبطین حیدر سبزواری (علامہ)
مرکزی سیکریٹری جنرل مرکزی سیکریٹری جنرل صوبائی صدر
شیعہ علماءکونسل پاکستان وفاق علماءشیعہ پاکستان شیعہ علماءکونسل شمالی پنجاب
27 جولائی 2020 ء

ضمنی نکات ( جن پر بوقت ضرورت بحث کی جاسکتی ہے)

1 ۔ امہات المومنین کو مانتے ہیں‘ قرآن میں ذکر ہے‘ احترام ہونا چاہیے‘ توہین نہ ہو اس حوالے سے قوانین پہلے موجود ہیں
2۔ صحابہ کرام اور امہات المومنین قابل احترام مگر شیعہ مکتب فکر کے نزیک خلفائے راشدین مسلمانوں کے لئے جبکہ امیر المومنین خلیفہ بلا فصل ہیں یہ عقیدہ کسی دوسرے مسلک کی توہین نہیں
3۔ تشہد اور سلام میں پیغمبر اکرم کے ساتھ آل پیغمبر کا ذکر اور سلام حتی کہ صالحین اور نیک بندوں پر بھی سلام بھیجا جانا
4۔ آپ تاریخ اسلام کے حقائق کو کیوں چھیڑتے ہیں جبکہ ہم تاریخ اسلام کے حقائق میں اختلافی امور سے گریز کرتے ہیں حالانکہ ہمارے نزدیک صحابی کی تعریف وہ شخصیت جنہوں نے پیغمبر اکرم کو دیکھا‘ ان کی اطاعت کی‘ آخری دم تک ان کا ساتھ دیا اور ان کے بعد ان کے فرامین پر عمل کیا۔ چار بیٹیوں کی باتیں
5۔ فقہی آداب کو قانون سازی میں کیوں لاتے ہیں؟
6۔ تین خلفائے راشدین کے ساتھ اگر کوئی جنگ کرے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟؟؟ اور جو چوتھے خلیفہ راشد کے خلاف جنگ بھی کرے….80 سال تک منبروں سے سب و شتم بھی کرائے جو بعد میں حضرت عمر بن عبد العزیز آکر ختم کرائیں ان کے خلاف کوئی بات ہوتو اس پر فوری واویلا اور سزا ﺅں کے مطالبے؟؟؟؟؟
7۔ جنگ صفین و جمل میں برگذیدہ صحابہ کرام کے مقابل کون آیا ؟ اور کس نے انہیں شہید کرایا؟
8۔ قرآن کریم نے کن کو منافق کہا ؟؟
9۔ انہی باتوں کو بنیاد پر اکثر اوقات ہمارے خلاف 295A-B, 298,298A,B,C کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں سزائیں دی جاتی ہیں
10۔ علیہ السلام کے معاملہ پر دیگر مسلمہ مکاتب فکر کے جید علماءکرام کی تقاریر‘ مستند حوالوں کے ساتھ نقطہ نظر بھی یہی ہے جیسے مولانا طارق جمیل صاحب‘ مولانا طاہر اشرفی صاحب‘ مولانا طاہر القادری‘ مولانا اسحاق مدنی مرحوم وغیرہ