دربار شام میں امام زینُ العابدین کا پیغام / مریم رباب
یزید کے کہنے پر خطیبِ مسجد نے حضرت علی (ع) کی برائیاں بیان کرنا شروع کیں اور رسول [ص] سے بنی امیہ کا شجرہ ملا دیا ۔ اب حضرت امام سجاد(ع) اپنی جگہ سے اُٹھے اور ایک گرج دار آواز سے خطیب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔
ویلک الخاطب اشتریت رضاۃ المخلوق بسخط الخالق فتبو، معتدت من النار۔۔۔
وائے ہو تجھ پر اے تقریر کرنے والے تو نے لوگوں کی خوشی کے لئَے اللہ تعالٰی کے غصے کی پرواہ نہیں کی اور یدیز کی طرف دیکھ کر امام سجاد (ع) نے فرمایا کہ اے یزید کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ لکڑی کے اس منبر پر بیٹھوں اور اللہ تعالٰی کی خوشنودی کے لئَے کچھ بیان کروں ۔ اُس وقت اس مسجدِ بنی امیہ میں کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے ۔ یزید نے چاہا کہ امام سجاد (ع) کو اجازت نہ دے لیکن امام سجاد (ع) کی بلند آواز کو سب مجمع نے سنا اور تمام حضرات سیدِ سجاد (ع) کی طرف غور سے دیکھنے لگے اور سب نے کہا اے یزید اس نوجوان کو بھی منبر پر جا کر تقریر کرنے کی اجازت دے تاکہ ہم بھی تو واقعات کی اصلیت کا اندازہ لگا سکیں اور اے یزید تو اس نوجوان کی تقریر کرنے سے کیوں گھبرا رہا ہے ۔ اسے فوراً اجازت دی جائَے تاکہ وہ بھی چند الفاظ ادا کر سکے لیکن یزید کا دل نہیں چاہتا تھا کہ امام سجاد (ع) منبر پر جا کر اصل حالات سے لوگوں کو با خبر کر سکیں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نبوت کا چشم و چراغ منبر پر آ کر حقائْق بیان کر دے گا اور جو کچھ شام کی حکومت نے سالوں سے علی (ع) کی توہین کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور دنیا اور مسلمانوں کو دھوکا دیا ہوا ہے سب عوام الناس کو پتا چل جائَے گا اور بنی امیہ کی جھوٹی سازش کا بھانڈہ پھوٹ جائَے گا۔ آخر کار عوام الناس کا اصرار بڑھا اور یزید مجبور ہو گیا اور اُس نے امام سجاد (ع) کو اجازت دی کہ امام منبر پر جا کر اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔
امام زین العابدین(ع) کا خطبہ
اللہ تعالٰی کا بے انتہا شکر ہے جو بہت مہربان اور نہایت ہی رحم والاہے ۔ جس کی تعریف کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ اُس کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ۔ اُسے کوئی زوال نہیں ہے ، وہ سب سے پہلے تھا اور سب کے آخر تک رہے گا ۔ وہی لوگوں کو دن اور رات روزی تقسیم کرتا ہے ۔ پس اللہ تعالٰی کی تعریف سن چکے ہو ۔ اے شام کے لوگو ہوشیار ہو جاو کہ اللہ تعالٰی نے بے شمار نبی و اولیاء دنیا میں بھیجے ہیں .
اُن میں سے چھے فضیلتیں اللہ تعالٰی نے ہم کو خاص طور پر بخشی ہیں ۔
۱ ۔ علم ۲۔ حلم ۔ ۳ ۔ بخشش ۴۔ بزرگواری ۵ ۔ محبت ۶ ۔ مومنین کے دلوں میں ہماری محبت قائم کی ہے ۔ ہماری فضیلت کے لئَے یہ کیا کم ہے کہ ہمارے جد رسولِ خدا [ص] اور راست گو اُمت کے صدیق حضرت علی (ع) ہمارے دادا ہیں ، جعفر طیار اور حمزہ (ع) ہم میں سے ہیں ، شیر خدا و شیرِ رسولِ خدا [ص] کے دونوں نواسے حسن(ع) و حسین (ع) ہم میں سے ہیں اور اے لوگوں تم میں سے کچھ لوگ تو مجھے جانتے ہیں کہ میں خانوادہ رسول اللہ [ص] سے ہوں ۔اور جو نہیں جانتے ان کیلئے میں اپنا شجرہ حسب و نسب بیان کرتا ہوں ۔
اب امام زین العابدین(ع) نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کرایا ہے وہ اُن کے عزم و ہمت ، نسب کی پاکبازی اور افضل ترین شجرہ کی عکاسی کرتا ہے ۔ تمام جہانوں میں آج تک کسی نے اپنا تعارف یوں نہ کرایا ہو گا جیسا کہ امام سجاد (ع) نے کرایا اور دربارِ یزید میں موجود تمام لوگوں سمیت رہتی دنیا تک مخلوقِ خدا کو یہ بتا دیا کہ خبردار حسب و نسب میں ہمارا مقابلہ بھول کر بھی نہ کرنا ۔ تاریخ میں اپنا ایک تعارف امیرالمونین علی ابنِ ابیطالب (ع) نے جنگِ خیبر کے موقع پر کرایا تھا اور آج امام زینُ العابدین (ع) نے اپنے جد کی سنت ادا کی ۔
امام سجاد(ع) نے اپنا تعارف کیسے کروایا
میں مکہ و منٰی کا بیٹا ہوں ، مِں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں ، میں اُس نبی کا نواسہ ہوں کہ اللہ تعالٰی نے براق کے زریعے جن کو زمین و آسمان کی سیر کرائی اور ان کو رات کے وقت مسجد الحرام سے مسجد الاقصٰی تک لے گیا اور سیر کروائی ۔
میں حجرِ اسود کا بیٹا ہوں کہ جس کو اپنی عبا میں لے کر اصل مقام پر لگا دیا ۔
میں اس پاک و پاکیزہ ہستی کا بیٹا ہوں کہ جنھوں نے اسلام کے اصولوں کو دنیا کو بتلایا ، میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس نے جوتے پہنے ساتھ احرام باندھا ۔
میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں جس نے حج کیا اور اللہ تعالٰی کی آواز پر لبیک کہا ۔ میں اُس کا بیٹا ہوں کہ جس کو اللہ تعالٰی نے سدرۃ المنتہٰی کی سیر کروائی ۔
میں اُس پاک ہستی [محمد مصطفٰی] کا بیٹا ہوں جو قربِ خدا تک گیا ، میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس نے آسمان کے فرشتوں کو نماز پڑھائی ، میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس پر اللہ تعالٰی نے وحی کا سلسلہ جاری کیا ۔
میں محمدِ مصطفٰی(ص) اور علیِ(ع) مرتضٰی کا بیٹا ہوں اور میں اُس بہادر کا بیٹا ہوں جس نے بڑے بڑے کافروں کو قتل کر کے اسلام کو سر بلند کیا ۔
میں اُس کا بیٹا ہوں جس نے ہجرت کی اور جنگِ خندق و حُنین میں کامیابی حاصل کی ۔
میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس نے مارقین ، ناکثین و قاسطین سے جنگ کر کے کامیابی حاصل کی۔
میں اُس ہستی کا بیٹا ہوں کہ جس کو اللہ تعالٰی نے سخاوت بخشی ، عاقل پیشرو ، صابر ، روذہ دار اور مہذب شبِ زندہ دار مشرکوں کے قلعوں کو تباہ کرنے والا اللہ کا شیر ہے ۔
میں اس علی ابنِ ابیطالب (ع) کا بیٹا ہوں جس کے مخالفت میں سب طاغوت جمع ہو گئے تھے ۔
میں فرزندِ فاطمہ الزہرا (س) ہوں جو سیدہ نساء العالمین ہیں۔
میں خدیجۃ الکبرٰی اُم المومنین کا بیٹا ہوں ۔
میں اُس مظلوم حسین(ع) کا بیٹا ہوں کربلا کے صحرا میں جس کا سر گردن سے جدا کر دیا گیا ۔
میں اُس تشنہ لب شہید کا بیٹا ہوں کہ جو دنیا سے پیاسا چلا گیا۔
میں اُس حسین(ع) کا بیٹا ہوں جس کا لاشہ دفن نہیں کیا جا سکا۔
مِن اُس بے کس غریب کا بیٹا ہوں کہ مرنے کے بعد اُس کے جسم پر سے لوگوں نے کپڑے تک لوٹ لئَے اور لاش برہنہ رہ گئی ۔
میں اُس کا بیٹا ہوں کہ جس پر چرند و پرند اور جنات نے جنگلوں اور ہواوں میں نوحہ پڑھا ۔
میں اُس بے کس و غریب مسافر کا بیٹا ہوں کہ جس کے خاندان کو ظالموں نے اسیر کر کے ہاتھوں کو کمر سے باندھ کر کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک لائے ہیں ۔ میں سیدِ سجاد (ع) اللہ تعالٰی کی بے انتہا تعریف و توصیف کر رہا ہوں اور اُس کا بے انتہا شکر ہے کہ اُس نے ہم کو امتحان میں ڈالا تاکہ پرچمِ رشد و ہدایت ہمارے خاندان میں قرار دے اور تمام ضلالت و گمراہی کو ہم سے دور کر دے۔
امام سجاد (ع) کا خطبہ منقطع کرانے کے لئَے یزید کا بے وقت اذان دلوانا؛
اب امام (ع) کا خطبہ تقریباً آخری منزل میں تھا کہ امام (ع) نے اللہ کی تعریف بیان کی اور اپنے امتحان کا ذکر کیا ۔ یہ سن کر تمام لوگ سر پیٹنے اور بلند آوازوں سے رونے لگے ، اب یزید ملعون کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ لوگ میری حکومت کا تختہ نہ الٹ دیں ۔
یزید ملعون نے گھبرا کر موذن کو حکم دیا کہ فوراً علی ابن الحسین(ع) کا خطبہ روک دیا جائے اور اذان [بے وقت] دی جائے ۔
اور موذن نے اذان شروع کر دی اور اللہ اکبر اللہ اکبر کہا تو امام سجاد(ع) نے فرمایا کہ بے شک خداوندِ عالم ہر شے سے بلند و بزرگ تر ہے ، آُس سے کوئی شے بھی بلند نہیں ہے ، پھر موذن نے اشھدان الا الہٰ الا اللہ کہا تو امام سجاد(ع) نے کہا میرا خون اور گوشت ہڈیاں اور جسم کا ہر حصہ اللہ تعالٰی کی بڑائی بیان کرتا ہے پھر جب موذن نے کہا کہ اشھدان محمد الرسول اللہ تو امام سجاد (ع) نے یزید کی طرف رخ کر کے فرمایا اے یزید اب بتا یہ محمد رسول اللہ (ص) تمہارے جد ہیں یا ہمارے جدِ بزرگوار ہیں اے یزید تو اگر یہ کہے کہ یہ میرے جد ہیں تو یہ بات جھوٹی ہے اور تو کافر ہے اور اگر حق بات کہے کہ وہ ہمارے جدِ بزرگوار ہیں تو پھر تو نے اُن کی عترت کو کیوں اسیر کیا اور در بدر پھرایا اور کیوں قید میں ڈال رکھا ہے اب یزید کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔