• گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
  • حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
  • جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
  • پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
  • رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
  • مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
  • گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
  • فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
  • شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
  • علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات

تازه خبریں

سانحہ پشاور پر گھسے پٹے بیانات کی بجائے ٹیسٹ کیس کے طور پر شفاف انویسٹی گیشن اور مضبوط پراسیکیوشن کو یقینی بنایا جائے ،قائد ملت جعفریہ

سانحہ پشاور کو بھلایا نہیں جا سکتا، نیشنل ایکشن پلان سراب ہے ،قائد علامہ ساجد نقوی

سانحہ پشاور کو بھلایا نہیں جا سکتا، نیشنل ایکشن پلان سراب ہے ، علامہ ساجد نقوی
سانحہ پشاور پر گھسے پٹے بیانات کی بجائے ٹیسٹ کیس کے طور پر شفاف انویسٹی گیشن اور مضبوط پراسیکیوشن کو یقینی بنایا جائے ،قائد ملت جعفریہ
شہداءکے ورثاءاور ملت کے ذمہ داران سے معلومات شیئر کریں،سانحہ کو کوئی رنگ دینے سے گریز کیا جائے، ہم وحدت کی فضا کو سبوتا ژ نہیں ہونے دینگے
راولپنڈی /اسلام آباد 7مارچ2022 ء(جعفریہ پریس پاکستان ) قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ سانحہ پشاور کو بھلایا نہیں جاسکتا سانحہ اے پی سی کے بعد یہ بڑا سانحہ ہے اور بڑی سفاکیت ہے ، نیشنل ایکش پلان سراب ہے ، سانحہ پشاور کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے، گھسی پٹی باتوں یا بیانات کی بجائے سانحہ کے تمام محرکات کا جائزہ لیا جائے۔شہدا کے ورثا کو اعتما د میں لیا جائے اور اس امر کی تحقیقات کی جائیں کہ سفاکو ں کو استعمال کرنے والے کون ہیں ؟اور انہیں ٹریننگ کس کیمپ میں دی گئی ؟ مذکورہ تمام معلومات کوشہدا کے ورثا اور ذمہ داران کےساتھ شیئر کیا جائے اور انہں مطمئن کیا جائے ، اس سانحہ کو کسی اور معاملے کے ساتھ نتھی کرنے یامسلکی اختلافات سے جوڑنے کی کوشش نہ کی جائے ، پاکستان میں کوئی مسلکی لڑائی ہے اور نہ ہی ہم وحدت کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی کسی کو اجازت دینگے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز نماز جمعہ کے دوران کثیر تعدداد میں شہدا اور زخمیوں کے اندوہناک سانحہ کے حوالے سے اب تک کی اطلاعات اور وزیراعظم و وزیر خارجہ کے بیانات پر رد عمل دیتے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ اگر سانحہ کے بارے میں متضاد اطلاعات موصول ہورہی ہیں لیکن واضح ہے کہ بے گناہ نمازی اور معصوم بچے نشانہ بنے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ اس سانحہ کو کسی اور ایشو کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے البتہ اس کے تمام محرکات کا جائزہ لیا جانا انتہائی ضروری ہے ۔ وزیراعظم کی جانب سے اس معاملے پر بیان کہ ”دہشتگرد کہا ں سے آئے تمام معلومات موجود ہیں،سی ٹی ڈی اور ایجنسیوں کے رابطے میں ہوں ،ہمارے پاس تمام معلومات ہیں دہشت گرد کہاں سے آئے، ان کا پوری طاقت کے ساتھ پیچھا کررہے ہیں“ جبکہ وزیر خارجہ کی جانب سے کہاگیا کہ ”معلوم ہے دہشت گردی کے پیچھے کون ہے “ اب سوال پیدا ہوتاہے کہ ان بیانات کو کس پیمانے کے تحت پرکھا جائے ؟اگر پیشگی معلومات تھیں تو پھر عوام کے جان و مال کے تحفظ کےلئے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے گئے ؟ عوام کو کیوں سفاکوں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس کیس کے تمام محرکات کا جائزہ لیا جائے، اس کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے، شہداءکے ورثاءاور ملت کے ذمہ داران کے ساتھ ان تفصیلات اور معلومات کو شیئر کرکے انہیں مطمئن کیا جائے ، شفاف اورغیر جانبدار انویسٹی گیشن کی جائے ،جاندار پراسکیکیوشن کے ذریعہ کیس کومنطقی انجام تک پہنچایا جائے اور مستقبل میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کےلئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں اورانصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے سفاک عناصر اور سہولت کاروں کی صحیح شناسائی کے بعد ان کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے ۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے واضح کیا کہ ملک میں مسلکی ہم آہنگی اورباہمی احترام کی فضا ہے جسے سبوتاژ کرنے کی سازشیں کی جاتی رہی ہیں اس معاملے کو کوئی رنگ دینے سے گریز کیا جائے کیونکہ ہم پاکستان سمیت بین الاقوامی سطح پر اتحاد امہ کے بانیان میں سے ہیں کسی کو بھی اس وحدت کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ آخر میں قائد ملت جعفریہ نے کہا کہ متحد و متفق ہو کر تین روز سوگ اور قریہ قریہ گاﺅں گاﺅں شہر شہر بھر پور جوش احتجاج کرکے ملی بیداری کا ثبوت دیا یہ امر قابل قدر اور قابل تحسین ہے ، سفاک قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنانے اور حقوق کی بازیابی تک بیداری کا یہ سفر جاری و ساری رہنا چاہیے۔