سفر عشق—نجف تا کربلا
“خداوند متعال نے انسان کو عجیب الفطرت خلق کیا اور اس کو عقل و شعور جیسی دولت سے سرفراز کرکے اشرف المخلوقات قرار دیا. اپنے انبیاء اور اولیاء کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا اور انسان کو عقل و شعور کی بناء پر مکمل اختیار دیا کہ حق و باطل کی پہچان کرے اور زندگی کے سفر کو بخوبی انجام دے۔ محبت و نفرت بھی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور انسان عقل و شعور کے ذریعے جس سے چاہے محبت کرتا ہے اور جس سے چاہے نفرت کرتا ہے۔
محبت، عقیدت، عشق، لگن، محنت، شجاعت، ایثار و قربانی کی مثال دیکھنی ہے تو آئیں کربلا میں دیکھیں جہاں اب تک بیس سے پچیس ملین کی تعداد میں انسان سیدالشہداء، محسن انسانیت، مولا امام حسین(ع) کے زائرین امام کے حرم کی طرف سفر پر گامزن ہیں اور زائرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے. زائرین کی اکثریت موسم اور دہشت گردی کے حملوں کی پرواہ کیے بغیر نجف سے کربلا پیدل چل کر آتے ہیں. اگر جائزہ لیا جائے تو عراق کے حالات داعش کے کمینوں اور وقت کے یزیدوں کی وجہ سے ہر وقت خوف اور خطرے کی وجہ سے ناگفتہ بہ ہیں لیکن زائرین کو چاہے جتنا ڈرایا اور دھمکایا جائے، پھر بھی بوڑھے، جوان، معذور و ناتواں، صحتمند، عورتیں شیر خوار بچے لیے نجف سے کربلا بلا خوف و خطر عازم سفر ہوتے ہیں اور ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے اور لبیک یا حسین(ع) کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج اٹھتی ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ
“پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا”
پچھلے سال بھی امریکی میڈیا کے مطابق یہ اجتماع دنیا کے تمام مذہبی اجتماعات سے بڑا ہے لیکن یہ امام کے زندہ معجزوں میں سے ہے کہ اتنی کثیر تعداد ہونے کے باوجود نہ کہیں بدنظمی ہے نہ ہی بے سکونی اور صرف شیعہ نہیں بلکہ سنی اور غیر مسلم سب لوگ سیدالشہداء کی بارگاہ اقدس میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں کیونکہ حسین(ع) کسی خاص مسلک کے امام نہیں بلکہ انسانیت کے محسن و امام ہیں اور بقول شاعر
“انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین(ع)”
مزید برآں یہ کہ اہالیان کربلا کی طرف سے زائرین کو ہر قسم کی سہولیات بلا معاوضہ بلکہ عینی شاہدین کے مطابق منت سماجت کر کے فراہم کی جاتی ہیں.
ایک طرف حج کے موقع پر دیکھا جائے تو سعودی حکمرانوں کی نا اہلی اظہر من الشمس ہے. پچیس سے تیس لاکھ حجاج نہیں سنبھالے جاتے اور بھگدڑ کے نتیجے میں ہزاروں حجاج کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور حج کے موقع پر بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی مہنگے داموں ممکن ہوتی ہے.
دوسری طرف اربعین کے موقع پر کربلا میں دیکھا جائے تو بیس پچیس ملین سے زائد تعداد کے باجود نہ کوئی بھگدڑ ہے نہ ہی بدنظمی. کربلا والوں کے ایثار کو دیکھیں تو اپنی مدد آپ کے تحت زائرین تک بچوں کے پیمپرز سے لے کر اعلی اور عمدہ کھانوں تک، ہر سہولت کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ عراقی علماء اور ارب پتی لوگ بھی زائرین کی خدمت کرنا اور بالخصوص پاوں دبانا اپنے لیے سعادت عظیم سمجھتے ہیں.
یہاں پر الباکستانی میڈیا کی بے شرمی اور بے حسی کا تذکرہ نہ کرنا بھی ظلم ہوگا. یہ میڈیا جو معمولی اور بے وقعت خبروں سے لے کر کسی کے نجی معاملات کو اچھالنے تک کی خبر کو سب سے پہلے نشر کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے، اسے کربلا کے اتنے عظیم اور پر خلوص اجتماع کو کوریج دینے کی توفیق نہیں ہوئی. اس سے آزادانہ میڈیا کے دعووں کی وقعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
میڈیا کے کرتا دھرتا لوگ اتنے عظیم اجتماع کی خبر کو بھی دنیا تک پہنچا دیں تو حق پرستوں کی طرف سے بہت پذیرائی ملے گی.
آخر میں خداوند متعال سے نہایت عاجزانہ دعا ہے کہ مولا حسین(ع) اور شہدائے کربلا کے صدقے ہر شخص کو یہ عظیم سعادت نصیب ہو اور ہر بندہ یہ صدا بلند کرے کہ
“ناز قسمت پہ کرتا ہوا، میں پیدل چلا کربلا”