تازه خبریں

سموگ سیاسی نہیں قومی بحران : امدا گھلو

سموگ سیاسی نہیں قومی بحران : امدا گھلو

سموگ کا مسئلہ کسی خاص جماعت، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کی بقا کا سوال بن چکا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا یہ عفریت ہر سال ہمارے شہروں، خاص طور پر لاہور اور دیگر بڑے صنعتی مراکز میں سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی اپنی تباہ کاریاں دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ سموگ کی وجہ سے نہ صرف نظام زندگی متاثر ہوتا ہے بلکہ صحت کے حوالے سے بھی سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ اس کی شدت کو محسوس کرنے کے باوجود ہم بحیثیت قوم ابھی تک سنجیدہ اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔
سموگ کی بنیادی وجوہات میں صنعتی فضلہ، گاڑیوں کا دھواں، فصلوں کی باقیات کو جلانا، اور بے ہنگم تعمیراتی منصوبے شامل ہیں۔ یہ مسئلہ ہر سال شدت اختیار کر رہا ہے اور ہماری لاپرواہی کے باعث صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔ اگر سموگ پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے سالوں میں یہ ہمارے لیے سانس لینے کے لیے تازہ ہوا کو بھی زہر آلود کر دے گا۔ یہ مسئلہ کسی ایک جماعت یا حکومت کا نہیں بلکہ پوری قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعتیں اکثر اپنی سیاسی مخالفت اور اختلافات میں الجھ کر عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیتی ہیں؛ لیکن سموگ جیسا سنگین مسئلہ کسی سیاست بازی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں بحیثیت قوم مل کر اس چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔
آج اگر ہم نے ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہ کیا تو بعید نہیں کہ ہم ایک اور “کورونا جیسی صورتحال” سے دوچار ہو جائیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہمیں ماسک پہننے پر مجبور کیا گیا تھا اور وہی صورتحال دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ہم نے سموگ کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے تو ہمیں ایک بار پھر ماسک پہننے پر مجبور ہونا پڑے گا، نہ صرف کورونا وائرس سے بچنے کے لیے بلکہ سموگ کے زہریلے اثرات سے بچنے کے لیے بھی۔
سموگ جیسے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمام صوبائی حکومتوں، وفاقی حکومت، صنعتی اداروں، اور سول سوسائٹی کو مل کر ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ اس میں فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی، صنعتی آلودگی پر قابو، شجرکاری مہم، اور گاڑیوں کے دھویں پر کنٹرول جیسے اقدامات شامل ہیں۔ عوام کو بھی اپنے کردار کا ادراک کرنا ہوگا۔ ہمیں ماحول دوست طرز زندگی اپنانا ہوگی، غیر ضروری گاڑیوں کے استعمال کو کم کرنا ہوگا اور زیادہ سے زیادہ درخت لگانے ہوں گے تاکہ ہماری فضا آلودگی سے پاک ہو سکے۔
سموگ کا مسئلہ ایک قومی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا حل صرف مشترکہ کوششوں سے ممکن ہے۔ ہمیں آج اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ کل ہمیں اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ ہمیں اپنی سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف جنگ کو ترجیح دینا ہوگا تاکہ اپنے پیارے وطن کو سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے چنگل سے آزاد کر سکیں۔ بصورت دیگر، ہمیں دوبارہ ماسک پہن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
سموگ جیسے قومی بحران کے حل کے لیے ہمیں انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس مسئلے کے تدارک کے لیے عوامی شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سماجی تنظیمیں اس حوالے سے نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ہمیں اسکولوں، کالجز، اور یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے آگاہی پروگرامز کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل میں ماحول دوست عادات کو فروغ دیا جا سکے۔
دنیا کے کئی ممالک نے آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ چین، بھارت اور یورپی ممالک نے سخت ماحولیاتی قوانین اور جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے اس پر قابو پایا ہے۔ ہمیں بھی ان ماڈلز سے سیکھنا ہوگا اور اپنی حکمت عملیوں کو بہتر بنانا ہوگا۔ پاکستان میں صنعتی آلودگی کے خاتمے کے لیے جدید فلٹرز اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز کا استعمال لازم ہے۔
مزید برآں، حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک ‘گرین انیشیٹو’ کا آغاز کرے، جس میں ماحول دوست گاڑیوں کے فروغ، الیکٹرک ٹرانسپورٹ کے استعمال، اور شجرکاری مہمات کو ترجیح دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بجائے انہیں ماحول دوست طریقے سے ختم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ اس سے نہ صرف فضائی آلودگی میں کمی آئے گی بلکہ ملک کی معاشی ترقی کو بھی فروغ ملے گا۔
ماحولیاتی بحران کے اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک طویل المدتی منصوبہ ترتیب دینا چاہیے۔ اس میں بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال شامل ہو سکتا ہے تاکہ سموگ اور آلودگی کے دیگر مسائل پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جا سکے۔ اگر ہم آج متحد ہو کر اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات نہیں کریں گے، تو کل کو ہمیں صحت کے سنگین چیلنجز اور معیشت پر اس کے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں اپنی سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بحیثیت قوم ماحولیاتی تحفظ کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک صاف اور صحت مند مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔