علامہ اقبال نے مسلم اقوام کو استکبار و استبداد کی غلامی سے نجات کا درس دیا ، قائد ملت جعفریہ پاکستان
آزادی اورحریت کا جو سلیقہ اقبال نے بتلایا اُس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی،علامہ ساجدنقوی
اقبال کے سیاست، جمہوریت، حکومت اور ثقافت کے افکار پر عمل پیرا ہونے کی بجائے نفی کی جارہی ہے،حکمران اورعوام اپنے آپ کوعلامہ اقبال کے افکارونظریات کے سانچے میں ڈھالیں،یوم اقبال کے موقع پر پیغام
اسلام آبا د 9 نومبر 2024ء(جعفریہ پریس پاکستان ) قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی 9نومبر ”یوم اقبال“ پر اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ شاعر مشرق کے افکار و خیالات دراصل امت مسلمہ کے ہر دردمند انسان کی آواز تھے آپ نے جہاں برصغیر کے مسلمانوں میں جذبہ حریت کو بیدار کرنے کی کوشش کی وہاں دنیا بھر کے مسلمانوں کوقرآنی تعلیمات پر کاربند ہونے، سیرت رسول سے عملی استفادہ کرنے، مشاہیر اسلام کے کردار کا مطالعہ کرنے اور اسلامی روایات و اقدار کو رواج دینے کی سعی کی۔ شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے قرآن و سنت اور تاریخ اسلام سے جس طرح مثبت انداز میں استفادہ کیا وہ اُن کا طرئہ امتیاز تھا، اس استفادے کا واضح اظہار آپ کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ آپ نے جگہ جگہ پراسلام ، پیغمبراکرم اور دینی اقدار وروایات کو موضو ع کلام بنایا ہے۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ علامہ اقبال نے امت مسلمہ کی حالت زار بیان کرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ پراغیار کی عسکری، علمی، فکری، اور ثقافتی یلغار پر بھی متعدد مقامات پر افسردگی اور بے چینی کا اظہار کیا ،مسلم عوام کو استکبار و استبداد کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا درس دیا اور انہیں اسلام جیسے عظیم اور آفاقی دین کی تعلیمات اپنے اوپر نافذ کرنے اور اپنی بہترین اور اعلی ثقافت کو اختیار کرنے کا پیغام دیا۔ تاہم نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ مصور پاکستان نے ارض وطن کا جو خواب دیکھا تھا اور جو نقشہ بنایا تھا وہ نصف صدی سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ،اُن کے کلام سے شعری چاشنی تو حاصل کی گئی لیکن اس میں مضمر پیغام کو نہیں سمجھا گیا،ان کے نام سے ادارے توبنائے گئے لیکن ان کے پیغام کو عملی شکل دینے کی کوشش نہیں کی گئی ،آزادی اورحریت کا جو سلیقہ اقبال نے بتلایا تھااُس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی،مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے پاکستان کو اسلام کا مرکز اور قلعہ بنانے کا جو فلسفہ دیا تھااُس پر بھی عمل نہیں کیا گیا، اُن کے فلسفہ خودی کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ کسی بھی لحاظ سے قابل فخرنہیں ہے ۔ انہوںنے زور دیتے ہوئے کہاکہ ملک کے معروضی صورتحال پر غور کیا جائے تو اقبال کے سیاست، جمہوریت ، حکومت اور ثقافت کے افکار پر عمل کرنے کی بجائے ان سے روگردانی بلکہ اسکی نفی کی جارہی ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے حکمران اور پھر عوام اپنے آپ کو علامہ اقبال کے افکار و نظریات کے سانچے میں ڈھالیں تاکہ پاکستان صحیح معنون میں ترقی کرے اور عالم اسلام کا مرکز و محور قرار پائے۔