عالمی یوم القدس 1439 ھ کے موقع پر قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کا پیغام
نصف صدی سے مسلمانوں کی مشترکہ میراث ‘قبلہ اول بیت المقدس پر اسرائیلی تسلط اور مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیلی جبر وتشددایک ہی منظر اور ایک ہی نقشہ پیش کررہا ہےنصف صدی سے مسلمانوں کی مشترکہ میراث ‘قبلہ اول بیت المقدس پر اسرائیلی تسلط اور مظلوم فلسطینی عوام پر اسرائیلی جبر وتشددایک ہی منظر اور ایک ہی نقشہ پیش کررہا ہے۔ اسرائیل جارح کو صورت میں موجود ہے اور فلسطینی عوام مجروح کی صورت میں بھی سیسہ پلائی دیوار کر طرح ڈٹے ہوئے ہیںاگرچہ اسرائیل نے مظالم اور جارحیت کی انتہا کی ہوئی ہے اور دنیا کا کوئی ایسا ظلم یا جارحیت کا ایسا کوئی انداز نہیں جو فلسطینی عوام پر نہ ڈھایا گیا ہو۔ خواتین کی عصمت دری، بچوں بڑوں اور نہتے شہریوں کو گولیوں حتی کہ میزائلوں کا نشانہ بنانا، عوام کو ٹینکوں تلے کچلنا، مسلمان بستیوں کو بموں اور ٹینکوں کے ذریعے مسمار کرنا اور اس طرح کے دیگر مظالم اسرائیل کے معمولات میں شامل ہیں اور ہر وقت ہر سمت سے اسرائیل کی طرف سے تباہی اور بربادی کے مناظر بنائے جاتے ہیں لیکن انتہائی قلیل تعداد اور عسکری و معاشی وسائل نہ ہونے کے باوجود فلسطینی عوام اسرائیل کا ڈٹ کرجوانمردی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔فقط حالیہ دنوں میں صہیونی دہشت گرد فورسز کی فائرنگ کی زد میں آکر سینکڑوںنہتے اور پرامن فلسطینیوں لقمہ اجل بنے مگر ان کے جذبہ حریت و استقلال میں کمی واقع نہیں ہوئی۔
قبلہ اول کی آزادی صرف عالم اسلام‘ کسی خاص خطے یا ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت سے مربوط مسئلہ ہے لیکن ذمہ داری کے لحاظ سے اس کا تعلق براہ راست امت مسلمہ سے بنتا ہے اس لئے دنیا بھر کی مسلم اقوام کے لئے چیلنج کی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اتحاد امت ہی مسلمانوں کی مشکلات کا حل ہے۔مسلم ممالک مشترکہ مسائل پر ایک موقف اختیار کریں تو اسلام کی عظمت و سربلندی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
پچھلے دنوں امریکی سفارتخانہ کی بیت المقدس منتقلی بین الاقوامی قوانین اورسفارتی و اخلاقی آداب کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ محض اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں جس کی دنیائے عالم میں پرزور مذمت جاری ہے اور یہ بات ایک روشن حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک غاصب حکومت اور فلسطینیوں کو حق ہے کہ وہ اپنی ریاست قائم کریں۔ پاکستان کی اسرائیل بارے پالیسی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مطابق ہونی چاہیے کہ پاکستان اور اسرائیل میں کوئی چیز مشترک نہیں اور نہ ہی ہوسکتی ہے اور برصغیر کے لوگ فلسطینیوں کی منشاءکے خلاف کسی بھی فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔
انہی اسرائیلی مظالم وجارحیت اور مسلمانوں کے قبلہ اول پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کے خلاف ہر سال پاکستان میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ ( جمعتہ الوداع) کو یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو منظم وبیدار کیا جاسکے اور وہ قبلہ اول کی آزادی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ قبلہ اول کی آزادی کے لئے برسرپیکار قوتوں سے بجا طور پر توقع رکھیں گے کہ وہ حریت وآزادی اور استقامت کی یہ تحریک جاری رکھیں گے اور اس تحریک کو قبلہ اول کی آزادی، فلسطینی مملکت کے قیام اور دنیا بھر کے مظلوم ومحروم طبقات کے ساتھ تعاون کے ساتھ جوڑ دیں گے۔
فلسطینی اور لبنانی عوام کی اسلامی مزاحمتی تحریکیںاس وقت اپنی جدوجہد کو جس موڑ پر پہنچا چکی ہیں اس مرحلے پر کہا جاسکتا ہے کہ اب ماضی کی نسبت عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین نئے انداز اور نئی جہتوں سے ابھر کرسامنے آیا ہے اور دنیا اب نئے زاویے سے مسئلہ فلسطین کی طرف متوجہ ہوچکی ہے ۔ لبنانی اور فلسطینی عوام کو اس اہم موڑ پر اپنا باہمی اتحاد مزید مضبوط بنائیں گے اور اسرائیل کے سامنے یک مشت ہوکر موجود رہیں گے۔بے پناہ اسرائیلی مظالم اورشدید جارحیت کے باوجودفلسطینی اور لبنانی عوام کی قربانیوں، جذبے، عزم، ہمت اور شجاعت کو دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ شہدائے فلسطین کا خون ضرور رنگ لائے گااور ارض فلسطین ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر دنیا کے تقشے پر نمودار ہوگاجبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول بھی آزاد ہوکر فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنے گا۔