• گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
  • حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
  • جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
  • پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
  • رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
  • مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
  • گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
  • فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
  • شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
  • علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات

تازه خبریں

عوامی جدوجہد کا قائل ہوں ، مسلح جدوجہد ہمارا شعار نہیں قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی کا وزارت حسین نقوی کے چہلم کے اجتماع سے خطاب

ہمیں کنٹینروں کے حصار، خاردار تاروں کے جھنڈ اور سنگینوں کے سائے میں عزاداری قبول نہیں۔ عزاداری کے خلاف درج ایف آئی آرز ختم کی جائیں موجودہ نظام فاسد ہے، تحریک جعفریہ کی بحالی میں 14سال سے انصاف نہیں ملا ، کسی خاص برانڈ کا اسلام قبول نہیں کریں گے، قائد ملت جعفریہ 

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہناہے کہ میں تعزیت پیش کرتا ہوں سید وزارت حسین نقوی کے  فرزند سید سکند ر رضا ،سید شہزاد رضا ،سید زحیم رضا ،سید حسین عامر ،سید حسن شعیب ،سیداحمد تمام فرزندان کو انکی پوتوں ،نواسوں اور خاندان کے تمام افراد کو ایک بار پھر بھی تعزیت پیش کر تاہوں ،میں متوجہ کرتاہوں کروں گاانکے فرزندان کو اور عزیزان کو انکی روح کوخوش کرنے کیلے اپنے اندر اتحاد وحدت اور محبت کو مستحکم کریں،عزیزان گرامی مولا علی علیہ السلام کا ایک خطبہ آپ کے سامنے پیش کیا علما ء کرام جانتے ہیں ۔نہج البلاغہ سے لگاؤ ہے شرف ہے میں علماء کو متوجہ کروں گا کہ انسان کی قیمت وہ حوالہ ہے جس حوالہ سے انسان بنتا ہے وہ عمل و کردار اور وہ تما جو اس کی زینت دیتا ہے زیبائش عطاکرتا ہے انسان کی مقبولیت کا انسان کی پذیرائی کا سبب بنتا ہے وہ ہے ایک انسان کی قیمت ویسے تو ظاہرہے کہ مولا امیرؑ کے مشاہدا ت انسان کے حوالے سے اور اسکی اصلیت کے حوالے سے جو ہیں آپ سنتے رہتے ہیں بہت سے اسباب ہیں اسکی ابتداء انسان کی ایک غلیظ اور نجس پانی سے ہے آخرت ایک انسان کی ایک مردارکی حیثیت سے ہے اس کو مچھر بھی کاٹ جائے تو اس کو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کو پسینہ آجائے تو اس سے بد بو آتی ہے حقیقت تو یہ ہے انسان کی اس انداز میں پھر مولا علی علیہ السلا م نے فرمایا کہ قیمت کیا ہے؟ تمہاری حقیقت تو یہ ہے ،قیمت بنتی ہے اس کام سے جو تم انجام دیتے ہو نطفہ کی کوئی قیمت نہیں مُردار کی کوئی قیمت نہیں ،بدبو دار کی کوئی قیمت نہیں ہو سکتی اپنے آپ کو قیمتی بنانا ہے تو کوئی حوالہ پیدا کرو ،میں جانتا ہوں کہ بڑے اچھے حوالے ہیں سید وزارت حسین نقوی مرحوم کے ان حوالوں کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے بہت اچھے حوالے ہیں ان حوالوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور ان حوالوں کو ہمیشہ زندہ رکھنے اوران کو آگے بڑھانے کی ہمیں کوشش کر نی چاہیے آج جو ہم جمع ہوئے ہیں ایام منانے کے اور بہت سے طریقہ ہیں ،فاتحہ پڑھتے ہیں لوگ نذر و نیاز دیتے ہیں لوگ ،تذکرے کرتے ہیں لوگ ،مجالس عزاء ہوتی ہیں ۔یہ سب طریقے ٹھیک ہیں سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس حوالہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کرو جو اسکی وجہ پہچان تھا ،اسکی پہلی وجہ پہچان یہ تھی کہ اس نے قومی جدوجہد میں بھر پور کردار اداکیا وہ قوی جدوجہد جو آج خاص مرحلہ پر پہنچ چکی ہے اس میں وزارت حسین نقوی مرحوم کا بنیادی کر دار تھا ،حقوق کی وہ جدوجہد جسکی بنیاد سید وزارت حسین نقوی مرحوم نے کی کوششوں او کاوشوں سے رکھی گئی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بھکر کنونشن اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جولوگ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور بعد میں ہم نے اس کا نام تحریک جعفریہ رکھا میں نے اس وقت بھی کہا تھا یہ بات لمبی ہو جائے گی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں پر نفاذ فقہ جعفریہ کا نعرہ انہوں نے بلند کیا شاید یہ پورے پاکستان میں فقہ جعفریہ نافذ کرنا چاہتے ہیں ،اخبار نویسوں نے کہا اور لوگوں نے کہا تو پھر ہم نے اسے ختم کرکے تحریک جعفریہ پاکستان اس کا نام رکھا ابھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تحریک جعفریہ کا کوئی عسکری ونگ تھا یا تحریک جعفریہ کا فرقہ واریت میں کوئی رول تھا میں سمجھتا ہوں وارت حسین نقوی کا وجود دلیل ہے اس بات کی کہ نہ اس کاکوئی فرقہ واریت سے تعلق تھا اور نہ ہی اس کا کوئی عسکری ونگ تھا ،جولوگ جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں سید وزارت حسین نقوی مرحوم کو اور انکی سوچ کو اور جو اتنی بڑی شخصیت کے حوالہ سے انکو یہ ماننا چاہیے میں نے کل کہا کسی آدمی نے بات کی میں نے کہا کہ ہمارے ہاں تو عسکری ونگ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ،جس طرح اس ملک میں میں واضح روشن ہو ں یقین کی نیند شک کی عبادت سے بہتر ہوتی ہے جس طریقہ سے میں پُر یقین ہوں اس طرح ملک کے اندر پُر اعتماد ہوں شائد ہی کوئی ہو میں اسکی نفی نہیں کرتا میں اس ملک کے اندر بلکہ ایشیاء کے اندر اس خطہ میں ایک جگہ خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس ایشیاء کے اندر کوئی مسلح جدوجہد آج تک کامیاب نہیں ہوئی ،توجہ کیجئے مسلح جدوجہد سے قومیں آگے نہیں بڑھتیں ۔پاکستان اگر تشکیل پایا یا پاکستان بنا وہ عوامی جدوجہد کے کے ذریعہ میں مسلح جدوجہد کا محتاج نہیں ہوں ۔ہم اس ملک کا طاقتور حصہ ہیں ہمیں کسی مسلح جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے ،اب شائدہی مبالغہ آرائی ہو تو ایک جگہ بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں نے بعض کالعدم تنظیمیں جن کے نام لئے جا رہے تھے جن کیخلاف آپریشن ہو رہا تھا بات کر رہے تھے تو میں نے کہا کہ اعلیٰ قیادت نہیں ہے اس ملک کے اندر اس ملک میں ہم طاقت اور قوت کو بے جا استعمال نہیں کرتے اس لئے کہ یہاں کام نہیں ہے کہ اپنی قوت اور طاقت دکھانے کی ہمں ضرورت نہیں کس بات کی ۔ہم اس ملک کے اندر اتحاد کے بانیوں میں سے ہیں ،بغیر کسی مجبوری کے بغیرکسی مشکل کے ،بغیر کسی کمزوری کے اتحاد کے بانیوں میں سے ہیں ۔اب یہ التجا کی جارہی ہے سپہ سالار سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں ان کیاساتھ بٹھاؤ ،گالیاں بھی دیتے ہو مرد بن کر گالیاں دو پھر التجا نہ کرو ۔سن لیجئے مجھے یاد آگیا ایک کھلا خط ایک سپہ سالار کے نام آپ نے نہیں پڑھا گالیاں دینے والوں کا اشہتار تھا وہ کہ رہے تھے کہ ہمیں ان کے ساتھ بٹھاؤ مردکسی کو گالیاں نہیں دیتا میں اس ملک کا قانون جانتا ہوں اس کے حقائق کو جانتا ہوں ہم نے وحدت اور اتحاد کو فروغ دیا ہے اس ملک کے اندر جو اقدام ہم نے کئے اور اٹھائے ہیں اس ملک کے اندر فرقہ وارانہ دہشتگردی کو روکنے کیلئے لوگ کہتے ہیں کی قائد نے کیا کیا ؟میں نے کہا نہ روکا کرو ا ن کو ،ذاکراہلبیت نے کہا کہ اس پر کیس فائل ہو ا تنظیم کی ذمہ داری تھی اس کے پاس جانا کوئی جواب نہ دے کسی کو تنظیم اگر ہے تو جاؤ اس کے پاس اور پوچھو کہ اسکو مشکل کیا ہے ۔میری ذمہ داری بنتی ہے میرا فرض ہے کہ میں کسی سے پوچھوں کہ تمہاری مشکل کیا ہے یہ جواب دینا اور پھر لاجواب کی محفل سجانا کی ضروت نہیں فرصت ہوتی تو میں ضلع کے صدر سے پو چھتا کہ تم نے اس کے کیس کیلئے کیا کیاہے ؟تنظیم کی ذمہ داری ہے تو اس کا جواب دو اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اتحاد و حدت کوفروغ دینا چاہیے ۔دہشتگردی ہوتی رہی ٹارگٹ کلنگ ہو تی رہی جو عمل اور جو اقدام اس ملک کے اندر ہم اُٹھایا جائزہ لیجئے جاکر ایران میں یا عراق میں امریکیوں کے بغیر حکومت قائم ہوئی عراقیوں کی اپنی سیاسیوں کی اپنی مرجعیت عظمی ٰ آپکو پتہ ہے کہ نجف کے اندر مرجعیت عظمی نے گذشتہ 10پندرہ سال میں جو اقدامات کئے ہمارے یہاں والے اقدامات پر مہر تصدیق ثبت ہوئی جو اقدامات ہم کرتے رہے اس انداز کیساتھ ہمارے یہاں والے اقدامات کئے گئے ایران میں شیعہ پاکستان سے زیادہ ہیں آپ تو یہاں پر شیعہ کم ہیں اُس ملک میں شیعوں کی اکثریت ہے وہاں پر بھی یہی انداز اپنایا گیا جو یہاں پر سالوں سے ہم اپنا رہے ہیں میں یہ نہیں کہ رہا مرجعیت نے دیکھ کر ایسا کیا میں یہ کہہ رہاہوں کہ جو عمل ہم نے کیا مرجعیت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔جس ضابطہ اخلاق پر میں نے دستخط کئے اس ملک کے اندر کسی جو جرات نہیں ہو سکتی تھی اس پر دستخط کرنا ضابطہ اخلاق پر اور بنیاد رکھی برصغیر میں ضابطہ اخلاق جس پر دستخط کئے ہوں کسی مذہب کے سربراہ نے یہ اعزاز مجھے حاصل ہو ا۔ تحریر ضابطہ اخلاق جو پاکستان کے اندر بنایا گیا وہ برصغیر کا پہلا ضابطہ اخلاق ہے جس پر دستخط کرنے کی مجھے توقیق ہوئی اور اعزاز ہوا اور وہ ضابطہ اخلاق بنیاد بنا آج تک کی جتنی حکومتیں ،جتنے اضلاع ،جتنی انتظامیہ ضابطہ اخلاق بناتی ہے وہ ضابطہ اخلاق سامنے رکھ کر بناتی ہیں ۔ضابطہ اخلاق میں اللہ کا فضل و ہے کہ ہم مار نہیں کھاتے کسی معاملے میں اس ضابطہ اخلاق میں جو بات میں نے کہی جس انداز میں میں نے یہاں اس ملک کے اندر فرقہ واریت کا ناسور کا راستہ روک دیا ہے ،وہی بات ولی فقیہ امر مسلمین کی طرف سے انکی تائد ہوئی ہے ۔یہ فرمان ہے ولی امر کا کہ ’’ کسی مسلک کے مقدسات کی توہین کر نا تشیع کا شعار نہیں ہے ‘‘ اسی لئے میں جانتا تھاکہ اور آج میں ملک کی دینی جماعتوں کے عین وسط میں بیٹھا ہوں ہمیں لوگ نکالنے آرہے تھے کروڑں روپیہ خرچ ہوا ،غلیظ گالیاں ،غلیظ نعرے ،نکالنے آئے تھے آج ہم دینی جماعتوں کے مسند صدارت پر موجود ہیں مجھے گالیاں بکنے والے کسی گندگی کے ڈھیر پرموجو دہیں ۔14اگست کو پاکستان بنا تھا بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے اس دن 27رمضان کی رات تھی اس موضوع پر اجتماع کیا ہم نے دینی جماعتوں کی طرف سے یوم پاکستان کے نام پر 27رمضان کو دینی جماعتوں کی جانب سے ایک اجتماع ہوا پاکستان بنانے میں جو کردار تھا اس وقت کے اُمت کے وارث کے مظہر کا یہ اعزاز ہمیں ملا بہت سی دینی جماعتیں موجود تھیں لیکن اس کی صدارت تشیع کے پاس تھی بہت سی مثالیں موجود ہیں جسکی صدارت ہمارے پاس تھی ملت تشیع کے پاس تھی ۔بہت مشکل بات تھی یہ صدارتیں ہم لیکر چل رہے ہیں حکمت کے ساتھ میری بڑی کوشش ہے کہ بڑے تدبر سے حکمت سے دانائی سے چلا جائے لیکن اس ملک کا نظام بہت ہی فاسدہے ۔14سا ل سے کہہ رہاہوں مجھے جواب دو تحریک جعفریہ پر پابندی کیوں ہے ؟پوچھ رہاہوں میری پہلی سیاسی دینی جماعت ہے ہمارے خلاف پہلا ریفرنس ہے یا دوسرا جو تحریک جعفریہ کے خلاف پہلا ریفرنس بھٹو کے دور میں ہوا ۔آپ کو معلوم ہے کہ سیاسی جماعت پرپابندی لگانے کے لئے اسکی رپورٹ سپریم کورٹ کو دینی پڑتی ہے کہ ہم نے پابندی لگائی ہے آپ کیا کہتے ہیں ۔ اجازت لو سپریم کورٹ سے ہم نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کا کیس سپریم کورٹ میں ہے فیصلہ ہو گا تو ہم کریں گے ،سپریم کورٹ نے 2014ء میں کہہ دیا کہ ریفرنس بوگس ہے ۔میں نے اس ملک کے وزیر داخلہ سے کہا کہ میں جانتا ہوں اور حالات کو سمجھتا ہوں کہ اختیار کس کے پاس ہیں قوت کس کے پاس ہے ۔مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا میں جانتا ہوں چوکیدار سے لے کر صدر تک کو میں جانتا ہوں یہ مھے امتیاز حاصل ہے ۔میں نے کہا کہ آپ ہمیں اپنے کمرے میں نہ ملیں میرا وفد آئے گا کاریڈور میں چلتے چلتے بتادیں کہ میں نہیں کر سکتا نہیں کہہ سکا ہاں یا نہ ۔میں اس نظام کی بات کر رہاہوں کہتا ہوں کیسے گذارے گا اس ملک کا ایک غریب آدمی اس نظام کی بات کر رہاہوں میں اتنا بھی کمزور نہیں کی جواب نہ لے سکوں جواب لے بھی سکتا ہوں لیکن مجھے جواب لینے کی ضروت نہیں سمجھتا میں اس ملک کے اندر موجود ہوں میں ایک عام آدمی کی بات کرتاہوں بھئی میں 1سال سے پو چھ رہا ہوں کہ میرے خلاف یہ بات کیوں ہے جواب نہیں دے سکے ایک عام آدمی کس سے جواب لے گا میں نہیں لے سکا توایک آدمی کیسے لے سکتا ہے ۔بدلو اس فاسد نظام کو میں عدالت پر اعتراض نہیں کر رہا عدالت نے ہمارا کیس سنا لیکن مہنگا ہے عدالت کا نظام ،سن لیجئے توجہ سے کیجئے میں نے اب نہیں کہنا تھا لیکن کہہ رہاہوں کہ میں نے لاکھوں خرچ کئے ،میں جو بات کرنے جا رہا ہوں وہ بات سن کر آپ چکراجائیں گے لاکھوں روپے خرچ کر نے کے بعد ایک جملہ کا جواب حکومت سے لیکر دیا مجھے عدالت نے عدالت پر نہیں خرچ ہوا نظام مہنگا ہے وکیل ہے ،فلاں ہے فلاں ہے سسٹم اتنا مہنگا ہے کہ لاکھوں روپے صرف کیا تو عدالت نے مجھے جواب دلوایا حکومت سے، بات سمجھ رہے ہیں عدالت سے کہاگیا کہ 14سالوں سے جواب نہیں دے رہے عدالت نے کہا ٹھیک ہے آپ آجائیں ان کو بھی بلایا اور کہاکہ یہ جواب کب تک دو گے انہوں نے کہا کہ ایک مہینہ میں جواب دیں گے اس یک جملہ کا جواب لینے کیلئے لاکھوں روپے صرف ہوا ہے غریب آدمی کرئیگا کیسے میں نظام کی بات کر رہاہوں اپنی بات نہیں کر رہا ،طاقتور انسان فاسد نظام حکومت سے جواب نہیں لے سکا ایک طاقتور آدمی عدالت کا درواز ہ کھٹکانے کیلئے خرچ کرکے ایک جملہ کا جواب لیا ایک عام آدمی کیسے زندگی گذارے گا اس ملک میں تحریک جعفریہ کی قومی جدوجہد کا وہ حوالہ وہ ایک سلسلہ جو ہم نے بتایا تھا جب اسلامائزیشن یہاں ہوئی تو اُٹھے کہ یہاں پر کوئی خاص برانڈ کا اسلامی نظام اگر نافذ ہو گا تو وہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان میں کسی برانڈ کا اسلام نافذنہیں ہو سکتا ۔تمام شیعہ علمی لحاظ سے سب سے آگے ہیں ۔ہمارے محقیقن و سکالرز کی آراء سے استفادہ حاصل کر ن کی ضرورت ہے نظام کی بقا کیلئے ہم خود یہاں پر موجو ہیں آپکی ترجمانی کر سکتے ہیں ۔نظام کی خرابی کو دورکرنا ہمار ری ذمہ داری ہے ۔میں واشگاف الفاظ میں کہہ رہاہوں کہ میں اس لئے گھر سے نہیں نکلا یا گھمنڈ کی خاطر نہیں نکلا ہو ں میں اس کا بیٹا ہوں جس نے ظلم و جبر کی صورت میں دنیاکو رہنمائی دی علی ابن ابی طالب نے پورا نظام ہر مظالم کیخلاف ٹھہر ا ہر مظلوم کا ساتھ دیا ،حضرت امام حسین علیہ السلام کاکہنا تھا کہ میں نانا کی اُمت کے اصلاح کیلئے نکلا ہوں ،اصلاح کرنا ہماری ذمہ داری ہے ،اس پنجاب میں عزاداری پر پرچے ہوئے یہ تو میری شہری آزادیوں کا مسئلہ ہے میں پاکستانی شہری ہوں،  شہری حق ہے میرا مجلس کرنا میں میں سینکڑوں ہزاروں میل سفر طرکرکے

آیا ہو ں یہاں پر آنے کیلئے مجھے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح حسین ؑ حسین ؑ کرنے کیلئے مجھے کسی پرمٹ کی ضرورت نہیں ۔مجھے عزاداری کیلئے کنٹینرز کی قطاریں ،خاردار تاروں کے جھنڈ اور کناتوں کے حصار نہیں چاہیےے یہ ہمیں قابل قبول نہیں ،کیسی ہوئی عزاداری عاشور کیسا ہوا بہت اچھے انتظامات تھے میں جانتا ہوں ملک میں سارے راستے بند تھے ایک راستہ کھلا ہوا تھا کئی اعزادار تو اند جا ہی نہیں سکتے تھے تم اس پر خوش ہو تے ہو کہ کنٹینرزکے اندر عزاداری کی ،اس کے لئے قربانی دینا ہو گی ،لڑائی جھگڑے کی اجازت نہیں دیتا مجھے یہ سخت ناپسند ہے یہ الفاظ ۔میں قربانی کا قائل ہوں اس کیلئے قربانی کی ضرورت ہے ۔ امام حسین علیہ السلام سب کا ہے عزاداری سب کی ہے ،اپنے اپنے طریقہ کے مطابق غم  حسین ؑ منائیں ۔ہمیں کہا کہ دھماکے ہو نگے میں نے کہا عزادار خود ہی حفاظت کرلیں گے ،میں کہتا ہوں عزاداری میں وہ شریک ہو جو بم دھماکے برداشت کرنے کی جرات رکھتا ہو، اپنے گھروں میں علم عباس وہ لگائے جو اسکی حفاظت کرسکتا ہو اسی لئے میں کہتا ہوں کہ بستر مرگ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرجانا موت ہے برحق ہے سعادت مند ہے وہ جس کو حسین ؑ کی راہ میں موت آئے ۔ ہمیں کنٹینروں کے حصار، خاردار تاروں کے جھنڈ اور سنگینوں کے سائے میں عزاداری قبول نہیں۔ عزاداری کے خلاف درج ایف آئی آرز ختم کی جائیں ۔بعد ازاں قائد محترم نے مسائب کے چند جملے ادا کئے او ر مرحوم سید وزارت حسین نقوی کے لئے دعائے مغفرت فرمائی اور پروگرام اختتام پذیر ہوا ۔