قانون کے رکھوالے قانون سے بالا تر۔۔۔۔!
تحریر: ڈاکٹر سید قلب نواز
وطن عزیز میں پولیس گردی کی کہانیاں ہرزد عام ہیں اور خاص طور پر پنجاب میں پولیس کے ناروا رویہ پر خودکشیوں کا رجحان زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پولیس کی ہر زیادتی کو معمولی بات یا واقعہ سمجھ کر اسی طرح نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ پہلے تو یہ واقعہ رونما ہو ا ہی نہیں ہے اور گر واقعہ الیکٹرانک ،پرنٹ یا سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہو جائے توپھر بااختیار افراد مذمت کے کچھ الفاظ کہتے ہیں اور ایک یا دو تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دے دیتے ہیں۔ ان کے نتائج اس وقت تک منظرعام پر نہیں آتے جب تک عوامی اشتعال ٹھنڈا نہیں پڑ جاتا۔ پھر اس گرد کو قالین کے نیچے چھپا دیا جاتا ہے اور سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ہے۔یہی روٹین پاکستا ن بننے سے لیکر آج تک چلی آرہی ہے ۔، قتل جیسے سنگین مقدمہ میں ملوث ملزمان بھی لاکھوں روپے دے کر بے گناہ ہو جاتے ہیں ، ایسا کئی بار ہوا ، عدالتوں کو گمراہ کرنے کیلئے قانون نافذ کرنیوالے ادارے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں غریب اور بے اثر شخص کیلئے قانون اور انصاف کچھ نہیں کرتا ، یہ باتیں بھی آن ریکارڈ موجود ہے کہ پانچ یا دس لاکھ روپے جیب میں ہوتو کسی بھی شخص کا قتل کر سکتے ہو ، دیت دے دو، لواحقین کو ڈر ا لو ، یا پولیس کو خرید لو ، عام آدمی کا محکمہ پولیس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے اس کو بحال کرنے کیلئے میڈیا کی نہیں بلکہ ایسے افسران کی ضرورت ہے جو بے رحمانہ احتساب کریں ، ہر مظلوم کی آواز میڈیا پر نہیں آتی ، لیکن یہاں تو ’’بڑے‘‘ تب ہی حرکت میں آتے ہیں جب میڈیا ’’بریکنگ نیوز ‘‘ کے طور پر مظلوموں کی آواز کو بلند کرتا ہے ، پھر ایس ایچ او بھی معطل ہو جاتا ہے ، مظلوم کو رہائی بھی مل جاتی ہے اور با اثر کیخلاف ’’نام ‘‘ کی ہی سہی کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے ،گزشتہ دنوں پنجاب کے قدیمی ضلع جھنگ میں کئی واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے جس کے نتیجہ میں پولیس کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ خود کشی کر نے اور پٹرول چھڑک کر آگ لگا کر اس ملک کے پولیس کی کارکردگی عیاں کی اور ان تمام واقعات کے پیچھے پولیس رویوں کا ہاتھ ہے جس میں ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنایا جارہا ہوتا ہے ،معاشرے میں ایسے واقعات نے بے یقینی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے ، جب تک ہم قانون نافذ کرنیوالے اداروں میں سدھار نہیں لائیں گے تب تک عوام کو مکمل اور صحیح انصاف نہیں مل سکتااور عام شہریوں کے ذہنوں میں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ہم سب جانتے ہیں کہ معطل ہونے والے افراد بہت جلد کسی اور عہدے پر اپنے غیرانسانی کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور کوئی سبق نہیں سیکھتے۔اگر ایک قانون کا مقصد مزاحمت ہے تو اس پر عملدرآمد نہ ہونا قانون سازی اور قانون کے پاس ہونے کے پورے مرحلے کو لاحاصل بنا دیتا ہے۔ پولیس آرڈر پڑھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اس سطح کی ناکامی پر تین سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس ایکٹ کی شق 156(d) تشدد کے ذمہ داران کے لیے پانچ سال قید کی سزا کا ذکر کرتی ہے۔علاوہ ازیں سزا یافتہ پولیس اہلکار کو ‘عوامی خدمت کرنے سے بھی روک دیا جائے گا۔ان قانونی باتوں کا پاکستان میں کوئی سننے والا نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 6کے تحت میں نے کبھی بھی کسی ایک فرد پر اس پولیس ایکٹ کے تحت فردِ جرم عائد ہوتے نہیں دیکھاگیاسزا پانا تو دور کی بات ہے۔ اوپری سطح سے سرپرستی، اور باقی تمام حلقوں کی محکمہ پولیس میں بے توجہی کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر پولیس قوانین برطانوی دور کی پیداوار ہیں ، جس میں برطانوی آقاؤں کو خوش کر نے اور انگریزوں کا عوام پر رعب جمانے کیلئے تشدد موئثر ہتھیا ر تھا اور محکمہ پولیس نے بھی یہی بے رحمانہ طریقے میراث میں پائے ہیں جو پاکستان بننے سے لیکر آج تک بغیر کسی تبدیلی و شرمساری کیساتھ عوام پر ظلم و تشدد کو جاری رکھے ہوئے ہے۔پولیس اہلکار اپنے بنیادی کام یعنی پولیسنگ سے ہٹ کر ہر معاملے میں مہارت رکھتی ہے اور اگر بے لاگ سروے کیا جائے تو ایسے تلخ حقائق اور ظلم و زیادتی کی داستانیں منظر عام پر آئیں گے کہ جسے سن کر ا نسانیت بھی شرما جائے ۔ ضلع جھنگ کے مختلف تھانوں میں پرُتشدد واقعات اور پولیس افسران کے ناروا سلوک کے باعث قیمتی جانوں کے ضیاع کے سانحات پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرجھنگ کے موجودہ پی آر اوکا صحافیوں کو بغیر میڈیکل سرٹیفکیٹ کے اس بات پر مہر ثبت کر نا کہ خود کشی کر نے والا ذہنی مریض تھا افسوس ناک امر ہے، ضلع جھنگ میں میں رونما ہونے والے یہ سانحات ایک علامت ہے کہ یہ گلا سڑا نظام اندر ہی اندر مزید گل سڑ رہا ہے۔آخر ہمیں پاکستان میں پولیس کے مکمل ڈھانچے کی ناکامی کو درست کرنے کے لیے مزید کتنی مثالوں کی ضرورت ہے؟پولیس کے لیے اسکاٹ لینڈ جیسے ممالک کا ماڈل اپنانا تو دور دراز کا خواب ہے، مگر کیا ہم بنیادی انسانیت کی بھی قابلیت نہیں رکھتے؟خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات نے معاشرے کی بے حسی کا پول کھول دیا ہے ، پریشانیاں تو اللہ کی طرف سے مومن کیلئے امتحان ہوتی ہیں ، لیکن ان سے چھٹکارا پانے کیلئے خودکشی ہر گز جائز نہیں ، علمائے کرام کو بھی اس حوالے سے لوگوں کی ذہن سازی کرنی چاہیے ، تاکہ وہ پریشانیوں سے تنگ آ کر خودکشی کی طرف نہ جائیں بلکہ صبر اور شکر کیساتھ اللہ کی مدد طلب کریں ، اخلاص کیساتھ شروعات کی جائیں تو یقیناًکامیابی ملتی ہے۔پاکستان کی بدنصیبی یہ رہی کہ اسے نہ تو قانون بنانے والے ادارے ہی ڈھنگ کے میسر آئے اور نہ ہی قانون نافذ کرنیوالے ادارے ۔ان کی نااہلی اور ظالمانہ بیلنس پالیسی نے ریاست کو عدم تحفظ اور داخلی دہشت گردی کے منہ میں دھکیل دیا۔ اس میں اندرونی مفادات اور بالادستی کا مکروہ کاروبار پنہاں تھا جس نے آج وطن عزیز کو پولیس اسٹیٹ، دہشت گردوں کی جنت، کرہ ارض کا جہنم اور بالخصوص ایک ناکام ریاست کے القاب و خطابات سے نواز رکھا ہے۔ یہ بات بھی مانع امر ہے کہ ہمارے سول سرونٹس کی وابستگی ریاست سے کبھی نہیں رہی بلکہ ہمیشہ ہی سیاست سے رہی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج پولیس کا ادارہ ناقابلِ ادراک حد تک تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ پولیس نے پاکستان کے معصوم شہریوں کو تختہ مشق بنارکھا ہے اور اس کے اسی شرمناک کردار کی وجہ سے آج ہر شریف شہری اس کے نام سے خوف کھاتا اور نفرت کرتا ہے۔ یہ پولیس کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ معاشرہ بحیثیتِ مجموعی بے پناہ حد تک عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہے۔ بااثر مجرموں، سیاستدانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور صنعتکاروں کے ساتھ پولیس کے کارندوں کی بخشیش و تحائف کی روایت تاحال جاری و ساری ہے ۔ ریاست کے تمام پولیس اسٹیشنز تھانیداروں کے ذاتی ڈیروں اور تھوک پرچون کی دکانوں کا روپ دھارے نظر آتے ہیں شام ہو تے ہی دکانیں عروج پرہو تی ہیں پولیس ٹاوٹس اورمڈل مین تھانوں میں بارگینگ کر تے دکھائی دیتے ہیں ۔اگرکسی بھی شخص کا کسی جھوٹی ایف آئی آر یا درخواست میں نام آجائے توبس اس کی خیر نہیں،اس مشکل گھڑی میں قائد اعظم ہی ہے جو اس مشکل گھڑی میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔قانون کارروائی کے نام پر ڈرا دھمکا کر کھڑے کھڑے ہزاروں روپے مدعی سے درخواست پر عملدرآمدکرانے اور الزام علیہہ کو اس درخواست سے چھٹکارا ڈلوانے کے عوض لے لیے جاتے ہیں اس سے بلاخوف کہ بے کس لاچار غریب شخص یہ رقم کہاں سے پورا کرے گا ،مفلسی اور حالات کا مارا شخص قرض لے لیکر انکی دوزخ بھرنے کے بعد خود کشی کو ترجیح نہیں دے گا تو اورکیا کرے گا؟۔اس لمحہ وہ داد رسی کیلئے جائے تو کہاں جائے ؟ ہمارے معاشرے میں مقدمات کا اندراج بغیر رشوت کے ممکن نہیں رہا اگر بغیر رشوت کے مقدمہ درج بھی ہو جائے تو اگلہ مرحلہ تفتیشی کے ہاتھ میں ہے جس کی گاڑی بغیر پٹرول دئیے چلتی نہیں ۔ رشوت تو اب پولیس کلچر کا اٹوٹ انگ بن چکی ہے‘ اس لیے پولیس کا ہر چھوٹے سے چھوٹا کارندہ بھی تھانے کے اندر یا تھانے کے باہر، ناکوں پر یا دورانِ گشت لوگوں کو عجیب و غریب طریقوں سے تنگ کرکے ڈیوٹی کرنے کے بجائے منہ مانگی رشوت بٹورنے میں مستغرق رہتا ہے جسے وہ چائے پانی کے نام پراپنا سرکاری حق سمجھتا ہے۔لوگ چھوٹی موٹی وارداتوں کا شکار ہونے پر اکثر تھانوں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہاں مدعی کو الٹا ملزم بنادیا جاتا ہے۔ اگر کوئی جرنلسٹ حق و سچ لکھنے کی جرات کر لے تو اُس سے انتقام کے طور پر حقائق کے برعکس جھوٹے مقدمے میں ملوث کردیا جاتا ہے یا پھر ادنیٰ سپاہی سے من گھڑت جھوٹی رپورٹ لکھو ا کر اُ س کا نام فورتھ شیڈول میں ڈلوا دیا جا تاہے اور جب ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے اجلاس میں اگرکوئی دیگر قانون نافذ کر نے والے ادارے پولیس محکمہ کے افسران کی جانب سے کی جانے والی قانون شکنی کی نشاندہی یا پولیس محکمہ کی جانب سے کی جانے والی زیادتی پر توجہ طرف مبذول کروائیں انہیں یہ کہہ کر خاموش کر ادیا جاتا ہے کہ اس جرنلسٹ نے ہمارے خلاف خبریں یا آرٹیکل شائع کیا ہے یہ اس کی سزا ہے ایک دفعہ نام جانے دو بعد میں دیکھ لیں گے ،اختیارات کے نشہ میں جب یہ سوچ ایک ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی ہوگی تو اس کے ماتحت افسران و دیگر عملہ کیا اپنے آفیسر کے نقش قدم پر نہیں چلیں گے؟ کیا وہ قانون شکنی کرنے کو اپنا حق نہیں سمجھیں گے ؟اگر یہی سلسلہ نسل در نسل چلے او ر قانون کے رکھوالے اپنے آپ کو قانون سے بالا تر تصور کریں گے تو پھر پولیس محکمہ میں کیسے تبدیلی آسکتی ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تھانہ کلچر کو بدل کر عوامی پولیس کی ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اس کے لیے ہر ضلع میں، ہر تحصیل میں مخلص دیانتدار اور فرض شناس افسروں کو اس نیک کام کا بیڑا اٹھانا ہوگا تبھی پولیس ریفارمز کی یہ بیل کسی منڈھے چڑھنے میں کامیاب ہوپائے گی۔
تحریر: ڈاکٹر سید قلب نواز
وطن عزیز میں پولیس گردی کی کہانیاں ہرزد عام ہیں اور خاص طور پر پنجاب میں پولیس کے ناروا رویہ پر خودکشیوں کا رجحان زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پولیس کی ہر زیادتی کو معمولی بات یا واقعہ سمجھ کر اسی طرح نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ پہلے تو یہ واقعہ رونما ہو ا ہی نہیں ہے اور گر واقعہ الیکٹرانک ،پرنٹ یا سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہو جائے توپھر بااختیار افراد مذمت کے کچھ الفاظ کہتے ہیں اور ایک یا دو تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دے دیتے ہیں۔ ان کے نتائج اس وقت تک منظرعام پر نہیں آتے جب تک عوامی اشتعال ٹھنڈا نہیں پڑ جاتا۔ پھر اس گرد کو قالین کے نیچے چھپا دیا جاتا ہے اور سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ہے۔یہی روٹین پاکستا ن بننے سے لیکر آج تک چلی آرہی ہے ۔، قتل جیسے سنگین مقدمہ میں ملوث ملزمان بھی لاکھوں روپے دے کر بے گناہ ہو جاتے ہیں ، ایسا کئی بار ہوا ، عدالتوں کو گمراہ کرنے کیلئے قانون نافذ کرنیوالے ادارے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں غریب اور بے اثر شخص کیلئے قانون اور انصاف کچھ نہیں کرتا ، یہ باتیں بھی آن ریکارڈ موجود ہے کہ پانچ یا دس لاکھ روپے جیب میں ہوتو کسی بھی شخص کا قتل کر سکتے ہو ، دیت دے دو، لواحقین کو ڈر ا لو ، یا پولیس کو خرید لو ، عام آدمی کا محکمہ پولیس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے اس کو بحال کرنے کیلئے میڈیا کی نہیں بلکہ ایسے افسران کی ضرورت ہے جو بے رحمانہ احتساب کریں ، ہر مظلوم کی آواز میڈیا پر نہیں آتی ، لیکن یہاں تو ’’بڑے‘‘ تب ہی حرکت میں آتے ہیں جب میڈیا ’’بریکنگ نیوز ‘‘ کے طور پر مظلوموں کی آواز کو بلند کرتا ہے ، پھر ایس ایچ او بھی معطل ہو جاتا ہے ، مظلوم کو رہائی بھی مل جاتی ہے اور با اثر کیخلاف ’’نام ‘‘ کی ہی سہی کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے ،گزشتہ دنوں پنجاب کے قدیمی ضلع جھنگ میں کئی واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے جس کے نتیجہ میں پولیس کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ خود کشی کر نے اور پٹرول چھڑک کر آگ لگا کر اس ملک کے پولیس کی کارکردگی عیاں کی اور ان تمام واقعات کے پیچھے پولیس رویوں کا ہاتھ ہے جس میں ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنایا جارہا ہوتا ہے ،معاشرے میں ایسے واقعات نے بے یقینی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے ، جب تک ہم قانون نافذ کرنیوالے اداروں میں سدھار نہیں لائیں گے تب تک عوام کو مکمل اور صحیح انصاف نہیں مل سکتااور عام شہریوں کے ذہنوں میں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ہم سب جانتے ہیں کہ معطل ہونے والے افراد بہت جلد کسی اور عہدے پر اپنے غیرانسانی کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور کوئی سبق نہیں سیکھتے۔اگر ایک قانون کا مقصد مزاحمت ہے تو اس پر عملدرآمد نہ ہونا قانون سازی اور قانون کے پاس ہونے کے پورے مرحلے کو لاحاصل بنا دیتا ہے۔ پولیس آرڈر پڑھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اس سطح کی ناکامی پر تین سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس ایکٹ کی شق 156(d) تشدد کے ذمہ داران کے لیے پانچ سال قید کی سزا کا ذکر کرتی ہے۔علاوہ ازیں سزا یافتہ پولیس اہلکار کو ‘عوامی خدمت کرنے سے بھی روک دیا جائے گا۔ان قانونی باتوں کا پاکستان میں کوئی سننے والا نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 6کے تحت میں نے کبھی بھی کسی ایک فرد پر اس پولیس ایکٹ کے تحت فردِ جرم عائد ہوتے نہیں دیکھاگیاسزا پانا تو دور کی بات ہے۔ اوپری سطح سے سرپرستی، اور باقی تمام حلقوں کی محکمہ پولیس میں بے توجہی کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر پولیس قوانین برطانوی دور کی پیداوار ہیں ، جس میں برطانوی آقاؤں کو خوش کر نے اور انگریزوں کا عوام پر رعب جمانے کیلئے تشدد موئثر ہتھیا ر تھا اور محکمہ پولیس نے بھی یہی بے رحمانہ طریقے میراث میں پائے ہیں جو پاکستان بننے سے لیکر آج تک بغیر کسی تبدیلی و شرمساری کیساتھ عوام پر ظلم و تشدد کو جاری رکھے ہوئے ہے۔پولیس اہلکار اپنے بنیادی کام یعنی پولیسنگ سے ہٹ کر ہر معاملے میں مہارت رکھتی ہے اور اگر بے لاگ سروے کیا جائے تو ایسے تلخ حقائق اور ظلم و زیادتی کی داستانیں منظر عام پر آئیں گے کہ جسے سن کر ا نسانیت بھی شرما جائے ۔ ضلع جھنگ کے مختلف تھانوں میں پرُتشدد واقعات اور پولیس افسران کے ناروا سلوک کے باعث قیمتی جانوں کے ضیاع کے سانحات پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرجھنگ کے موجودہ پی آر اوکا صحافیوں کو بغیر میڈیکل سرٹیفکیٹ کے اس بات پر مہر ثبت کر نا کہ خود کشی کر نے والا ذہنی مریض تھا افسوس ناک امر ہے، ضلع جھنگ میں میں رونما ہونے والے یہ سانحات ایک علامت ہے کہ یہ گلا سڑا نظام اندر ہی اندر مزید گل سڑ رہا ہے۔آخر ہمیں پاکستان میں پولیس کے مکمل ڈھانچے کی ناکامی کو درست کرنے کے لیے مزید کتنی مثالوں کی ضرورت ہے؟پولیس کے لیے اسکاٹ لینڈ جیسے ممالک کا ماڈل اپنانا تو دور دراز کا خواب ہے، مگر کیا ہم بنیادی انسانیت کی بھی قابلیت نہیں رکھتے؟خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات نے معاشرے کی بے حسی کا پول کھول دیا ہے ، پریشانیاں تو اللہ کی طرف سے مومن کیلئے امتحان ہوتی ہیں ، لیکن ان سے چھٹکارا پانے کیلئے خودکشی ہر گز جائز نہیں ، علمائے کرام کو بھی اس حوالے سے لوگوں کی ذہن سازی کرنی چاہیے ، تاکہ وہ پریشانیوں سے تنگ آ کر خودکشی کی طرف نہ جائیں بلکہ صبر اور شکر کیساتھ اللہ کی مدد طلب کریں ، اخلاص کیساتھ شروعات کی جائیں تو یقیناًکامیابی ملتی ہے۔پاکستان کی بدنصیبی یہ رہی کہ اسے نہ تو قانون بنانے والے ادارے ہی ڈھنگ کے میسر آئے اور نہ ہی قانون نافذ کرنیوالے ادارے ۔ان کی نااہلی اور ظالمانہ بیلنس پالیسی نے ریاست کو عدم تحفظ اور داخلی دہشت گردی کے منہ میں دھکیل دیا۔ اس میں اندرونی مفادات اور بالادستی کا مکروہ کاروبار پنہاں تھا جس نے آج وطن عزیز کو پولیس اسٹیٹ، دہشت گردوں کی جنت، کرہ ارض کا جہنم اور بالخصوص ایک ناکام ریاست کے القاب و خطابات سے نواز رکھا ہے۔ یہ بات بھی مانع امر ہے کہ ہمارے سول سرونٹس کی وابستگی ریاست سے کبھی نہیں رہی بلکہ ہمیشہ ہی سیاست سے رہی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج پولیس کا ادارہ ناقابلِ ادراک حد تک تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ پولیس نے پاکستان کے معصوم شہریوں کو تختہ مشق بنارکھا ہے اور اس کے اسی شرمناک کردار کی وجہ سے آج ہر شریف شہری اس کے نام سے خوف کھاتا اور نفرت کرتا ہے۔ یہ پولیس کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ معاشرہ بحیثیتِ مجموعی بے پناہ حد تک عدم تحفظ کا شکار ہوچکا ہے۔ بااثر مجرموں، سیاستدانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور صنعتکاروں کے ساتھ پولیس کے کارندوں کی بخشیش و تحائف کی روایت تاحال جاری و ساری ہے ۔ ریاست کے تمام پولیس اسٹیشنز تھانیداروں کے ذاتی ڈیروں اور تھوک پرچون کی دکانوں کا روپ دھارے نظر آتے ہیں شام ہو تے ہی دکانیں عروج پرہو تی ہیں پولیس ٹاوٹس اورمڈل مین تھانوں میں بارگینگ کر تے دکھائی دیتے ہیں ۔اگرکسی بھی شخص کا کسی جھوٹی ایف آئی آر یا درخواست میں نام آجائے توبس اس کی خیر نہیں،اس مشکل گھڑی میں قائد اعظم ہی ہے جو اس مشکل گھڑی میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔قانون کارروائی کے نام پر ڈرا دھمکا کر کھڑے کھڑے ہزاروں روپے مدعی سے درخواست پر عملدرآمدکرانے اور الزام علیہہ کو اس درخواست سے چھٹکارا ڈلوانے کے عوض لے لیے جاتے ہیں اس سے بلاخوف کہ بے کس لاچار غریب شخص یہ رقم کہاں سے پورا کرے گا ،مفلسی اور حالات کا مارا شخص قرض لے لیکر انکی دوزخ بھرنے کے بعد خود کشی کو ترجیح نہیں دے گا تو اورکیا کرے گا؟۔اس لمحہ وہ داد رسی کیلئے جائے تو کہاں جائے ؟ ہمارے معاشرے میں مقدمات کا اندراج بغیر رشوت کے ممکن نہیں رہا اگر بغیر رشوت کے مقدمہ درج بھی ہو جائے تو اگلہ مرحلہ تفتیشی کے ہاتھ میں ہے جس کی گاڑی بغیر پٹرول دئیے چلتی نہیں ۔ رشوت تو اب پولیس کلچر کا اٹوٹ انگ بن چکی ہے‘ اس لیے پولیس کا ہر چھوٹے سے چھوٹا کارندہ بھی تھانے کے اندر یا تھانے کے باہر، ناکوں پر یا دورانِ گشت لوگوں کو عجیب و غریب طریقوں سے تنگ کرکے ڈیوٹی کرنے کے بجائے منہ مانگی رشوت بٹورنے میں مستغرق رہتا ہے جسے وہ چائے پانی کے نام پراپنا سرکاری حق سمجھتا ہے۔لوگ چھوٹی موٹی وارداتوں کا شکار ہونے پر اکثر تھانوں کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہاں مدعی کو الٹا ملزم بنادیا جاتا ہے۔ اگر کوئی جرنلسٹ حق و سچ لکھنے کی جرات کر لے تو اُس سے انتقام کے طور پر حقائق کے برعکس جھوٹے مقدمے میں ملوث کردیا جاتا ہے یا پھر ادنیٰ سپاہی سے من گھڑت جھوٹی رپورٹ لکھو ا کر اُ س کا نام فورتھ شیڈول میں ڈلوا دیا جا تاہے اور جب ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے اجلاس میں اگرکوئی دیگر قانون نافذ کر نے والے ادارے پولیس محکمہ کے افسران کی جانب سے کی جانے والی قانون شکنی کی نشاندہی یا پولیس محکمہ کی جانب سے کی جانے والی زیادتی پر توجہ طرف مبذول کروائیں انہیں یہ کہہ کر خاموش کر ادیا جاتا ہے کہ اس جرنلسٹ نے ہمارے خلاف خبریں یا آرٹیکل شائع کیا ہے یہ اس کی سزا ہے ایک دفعہ نام جانے دو بعد میں دیکھ لیں گے ،اختیارات کے نشہ میں جب یہ سوچ ایک ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی ہوگی تو اس کے ماتحت افسران و دیگر عملہ کیا اپنے آفیسر کے نقش قدم پر نہیں چلیں گے؟ کیا وہ قانون شکنی کرنے کو اپنا حق نہیں سمجھیں گے ؟اگر یہی سلسلہ نسل در نسل چلے او ر قانون کے رکھوالے اپنے آپ کو قانون سے بالا تر تصور کریں گے تو پھر پولیس محکمہ میں کیسے تبدیلی آسکتی ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تھانہ کلچر کو بدل کر عوامی پولیس کی ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اس کے لیے ہر ضلع میں، ہر تحصیل میں مخلص دیانتدار اور فرض شناس افسروں کو اس نیک کام کا بیڑا اٹھانا ہوگا تبھی پولیس ریفارمز کی یہ بیل کسی منڈھے چڑھنے میں کامیاب ہوپائے گی۔