عباسی دور حکومت اپنے عروج پر ہے ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے شیعان علی علیہ السلام پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ان کا مال واسباب ثواب کا کام سمجھ کر لوٹا جاتا ہے علی اور حسین نام رکھنا جرم ہے اگر کوئی یہ نام رکھے تواس کی مال جان عزت و آبرو کی حکومت ذمہ دار نہیں ہوتی فقط علی کا شیعہ ہونا قتل ہونے کے لیے کافی ہے جس نسل کی بنیاد بنوامیہ نے بغض علی و آل علی علیہم السلام پر رکھی تھی اب وہ مکمل جوان ہو چکی ہے حکومت کی جیلیں فاطمی سادات سے بھری پڑی ہیں خلیفہ جب غصہ میں ہوتا ہے تواس کے غیض وغضب کو ٹھنڈا کرنےکے لیے ان عبادت گزار سادات کی گردنیں کاٹی جاتی ہے. علی علیہ السلام اور اولاد علی علیہ السلام سے محبت کرنے والے شہر وں کو برباد کردیا جاتا ہے ان کے محلوں کو آگ لگا دی جاتی ہے تو کیا اس ظلم و تشدد سے اس بے تحاشہ قتل عام سےعلی علیہ السلام اور اولاد علی علیہ السلام کی محبت کم ہوگئی ؟ کیا اس کے نتیجے میں محبان علی علیہ السلام نے ذکر علی و اولاد علی علیہم السلام کوچھوڑ دیا تاریخ گواہ ہے ایسا کبھی نہ ہوا کبھی بہ ہوا کبھی نہ ہوا اور خدا کی قسم ایسا کبھی ہوبھی نہیں سکے گا کبھی میثم سولی پے چڑھے مگران کی زبان فضائل علی علیہ السلام سے معطر رہی آخر اسے کاٹنا پڑا کبھی حضرت حجر بن عدی سے کہا علی اور اولاد علی علیہم السلام سے بیزاری کا اعلان کرو زندگی مل جائے گی نہیں تو گردن اڑا دی جائے گی آپ نے فرمایا زندگی علی اور اولاد علی علیہم السلام سے عشق میں گذری ہے اور انہی کے عشق میں جان دوں گا ان سے بیزاری کا سوچ بھی نہیں سکتا یہ میثم حجر کا قافلہ ہے جس میں شکست نہیں جان کی کیا حیثیت ہے بقول شاعر
جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اسی عباسی حکومت نے زیارت امام حسین علیہ السلام پر پابندی لگا دی کہا جو جانا چا ہتا ہے اسے اپنا دایاں ہاتھ کٹوانا پڑے گا کیا لوگ زیارت سے رک گئے نہیں نہیں بلکہ چشم فلک نے زائرین کے عشق حسین ابن علی علیہما السلام میں سرشار قافلوں کو دیکھا جو آتے اور ہاتھ کٹواتے زیارت کرتے اور چلے جاتے جب ایک عورت نے دائیں کی بجائے بایاں ہاتھ کٹوانے کے لیے پیش کیا تو سپاہیوں نے کہا تمہیں پتہ نہیں ہم دایاں ہاتھ کاٹتے ہیں تو اس مومنہ معظمہ نے فرمایا میرا دایا ں ہاتھ تو تم پچھلے سال کاٹ چکے ہو ا س سال کی زیارت کے لیے بایا ں ہاتھ ہے کبھی زیارت حسین کی قیمت ایک بیٹے کی قربانی رکھی گئی تو بھی مومنین کا جذبہ شوق قربانی اور بڑھا لوگوں نے پہلے سے زیادہ آنا شروع کیا بڑی خوشی سے اپنے لخت جگر کوحوالہ تلوار کرتے زہراء کے لال کی زیارت کرتے اور چلے جاتے جتنی امتحان کی شدت بڑھتی اسی حساب سے مومنین کا شوق زیارت بڑھتا جب انہوں نے دیکھا قافلوں کی آمد اس تمام ظلم و بربریت کے باوجود کم نہیں ہوئی تو انہوں نے قبرمبارک کو ہی زمین بوس کر دیا اس پر ہل چلوائے فرات کا رخ اس کی طرف موڑا گیا مگر فرات کا پانی طواف کرتا ہوا دائیں بائیں سے گذر جاتا آج کہاں ہیں وہ لوگ جو ذکر امام حسین علیہ السلام کو ختم کرنا چاہتے تھے وہ سب ظالم جہنم کا ایندھن بن گئے آج ان کی قبروں کے نشان بھی باقی نہیں اور اگر ہیں تو ان پر لعنت پڑ رہی ہے اور آج بھی کروڑوں لوگ عازم کربلا ہیں بغداد سے کربلا بصرہ سے کربلا نجف سے کربلا دنیا کے تمام ممالک سے کربلا فقط عاشقوں کے سر نظر آتے ہیں اور ہم جیسے جو یہاں ہیں وہ وہاں نہ پہنچ سکنے پر آنسوبہا رہے ہیں
آج ذکر امام حسین علیہ السلام کو محدود کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں کہاجا رہا اس ذکر کو محدود کر دو جان کا خطرہ ہے بم پھٹے گا موت آجائے گی ہیں ڈرانے والے شاید ہماری تاریخ سے آگا ہ نہیں ہیں ہمارے لیے جان کے خطرے کوئی نئی بات نہیں ہیں ہم تو اپنے ہاتھوں سے اپنے بازو قلم کراتے ہیں مائیں تیار کر کے اپنے بچوں کو حسین علیہ السلام کے نام پر قربان کرتی ہیں شاید تم ہماری قربانیوں کو بھول گئے ہو شاید تاریخ نے کچھ حالات پر پردہ ڈال دیا ہو زیادہ دور مت جاو تم نے پو ری طاقت سے ڈیرہ اسماعیل خان کا جلوس روکنے کی کوشش کی تھی تم نے تمام وسائل کو استعمال کیا تم نے گولی کہا ہی نہیں چلائی بھی تھی تم نے سرزمین ڈیرہ کو عشق حسین علیہ السلام میں سرشار خون سے سیراب کیا تھا تم نے پانچ کو شہید کیا تو بارہ آگئے بارہ کے بعد بہتر تیار تھے اور لاکھوں گولی کھانے کے لیے ڈیرہ کی سرحد پر خیمہ نشیں تھے اور قریب کی سن لو اور اگرموقع ملے تو کراچی کے جلوس پر حملے کی ویڈیو بھی دیکھ لو ہم نے تو علم عباس علیہ السلام کو ایک لمحے کے لیے نیچے نہیں آنے دیا اور نہ آنے دیں گے نام علی علیہ السلام پر جان دینا ذکر حسین ابن علی علیہماالسلام کی عزت و عظمت کے سر کٹوانا ہمارے لیے کامیابی کی ضمانت ہے ہم نہ کل کے یزید کے سامنے جھکے تھے نہ آج کے یزید کے سامنے جھکیں گے اتنے ظالم و جابر حکمران ہمیں ذکر حسین علیہ السلام سے نہیں روک سکے تو آج کی کٹھ پٹلی حکومتیں کیا روکیں گی آج تو مشرق سے مغرب ہر جگہ مظلوم کی عظمت کے چرچے ہیں اور ظالم بے نام و نشان ہے ہم چہلم کے جلوس پہلے سے زیادہ شان و شوکت سے نکالیں گے ان میں کفن پہن کر شریک ہوں گے اور دشمنان حسین علیہ السلام کو حسین علیہ السلام کی عظمت بتا دیں گے .