رہبر انقلاب اسلامی نے خطبہ جمعہ میں فرمایا اگر مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھيں تو اللہ ان پر رحمت نازل کرے گا۔
* رحمت الہی میں زندگی کا ہر پہلو شامل ہوتا ہے تاہم قرآن مجید میں اتحاد کی صورت میں جس رحمت کی بات کی گئی ہے وہ مختلف ہے اور اس کا مطلب اللہ کی جانب سے طاقت و توانائی ہے۔
* قرآن کے مطابق اگر مسلمان ایک دوسرے سے متحد رہیں تو انہيں اللہ کی بے پناہ طاقت و رحمت و حکمت سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا جائے گا۔
* دشمن کی پالیسی اس کے بر خلاف ہے اور انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں میں اختلافات پیدا کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہيں۔
* ایرانی قوم کے دشمن وہی ہیں جو فلسطین کے دشمن ہیں، لبنان کے دشمن ہیں، عراق کے دشمن ہیں، شام و مصر کے دشمن ہيں۔
* ہمارے دشمن الگ الگ حملے کرتے ہيں لیکن حکم سب کو ایک ہی جگہ سے ملتا ہے۔
* دشمن جب ایک ملک کو تباہ کر دیتا ہے اور اس کی تباہی سے مطمئن ہو جاتا ہے تو پھر دوسرے ملک کا رخ کرتا ہے۔ اس لئے اقوام کو بیدار ہونا چاہیے۔ اگر قوموں کو دشمن کے محاصرے میں نہيں آنا ہے تو بیدار رہے۔ اگر دشمن کسی قوم کو نشانہ بنا رہا ہے تو سب کو اس مظلوم کی مدد کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہاں دشمن کامیاب ہو گیا تو پھر دوسرے ملک کا رخ کرے گا۔ ہم مسلمانوں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس لئے آج ہمیں غفلت نہيں کرنا چاہیے۔
* ہمیں دفاع کے لئے تیار رہنا چاہیے، افغانستان سے یمن تک تمام عالم اسلام کے دفاع کے لئے تیار ہونا چاہیے.
* میرا آج کا خطبہ لبنان و فلسطین کے بارے میں ہوگا جس کے بارے میں، دوسرے خطبے میں بات کروں گا۔
* فلسطینی قوم کو حق ہے کہ اس دشمن کے مقابلے میں جس نے اس کی زمینوں پر قبضہ کیا، ان کے کھیتوں کو تباہ کر دیا، گھروں کو منہدم کر دیا، ڈٹ جائے۔ یہ عالمی قوانین کے مطابق ہے۔ فلسطین کس کا ہے؟ یہ غاصب کہاں سے آئے؟
* فلسطینیوں کو اپنا دفاع کرنے کا حق اور عالمی قوانین کے مطابق ہے، ان کی مدد کرنا بھی عالمی قوانین کے مطابق ہے۔
* چند روز قبل ایران نے جو کام کیا وہ بھی پوری طرح سے قانونی کام ہے۔ ہماری مسلح افواج نے جو کیا وہ صیہونی حکومت کے اتنے بھیانک جرائم پر بہت معمولی سزا تھی۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس سلسلے میں اپنی ہر ذمہ داری پر پوری طاقت کے ساتھ عمل کرے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی اس ذمہ داری پر عمل کے سلسلے میں نہ جلد بازی کرے گا نہ تاخیر۔ ضرورت پڑنے پر اپنی ذمہ داری پر عمل کرے گا جیسا کہ کیا اور مستقبل میں بھی کرے گا۔
* سید حسن نصر اللہ عالم اسلام کے ترجمان تھے۔ ہم سید حسن نصراللہ کےلئے سوگوار ہيں لیکن ہمارا سوگ مایوسی کی وجہ سے نہيں ہے بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی طرح ہے یعنی ان کی یاد کو زندہ رکھنے کےلئے۔ سید حسن نصر اللہ کا جسم ہمارے درمیان نہيں ہے لیکن ان کے افکار، ان کی جد و جہد اور ان کی روح ہمارے درمیان ہے۔ ان کے اثرات کا دائرہ لبنان و ایران سے بہت آگے تھا۔ دشمن آج حماس اور حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کو چونکہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے وہ ٹارگیٹ کلنگ اور عام شہریوں کے قتل عام کو اپنی فتح کے طور پر پیش کرنا چاہ رہا ہے لیکن اس سے مجاہدوں کے عزم میں اضافہ ہوگا اور ان کی تعداد بھی بڑھے گی اور اس سے خون آشام صیہونی بھیڑیوں کے گرد محاصرہ تنگ ہوگا۔
* میرے عزیزو! اللہ کی یاد سے دل کو سکون ملتا ہے۔ آپ کی صبر و استقامت سے عزت و کرامت ملے گی۔ ہمارے سید مزاحمت نے 30 برسوں تک جد و جہد کی قیادت کی اور دشمنوں کو دھول چٹائی۔ حزب اللہ سچ میں شجرہ طیبہ ہے۔ ہم ایرانی قوم ہمیشہ سے لبنانیوں کے ساتھ رہے ہيں۔
* آج زخمی لبنان کی مدد کرنا اور اس کا احسان اتارنا ہم سب مسلمانوں کی ذمہ داری اور فریضہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے فلسطین کی مدد کےلئے جہاد کیا، بیت المقدس کی آزادی کےلئے جد و جہد کی۔
* امریکہ نے صیہونی حکومت کے تحفظ کی گارنٹی لی ہے جو در اصل علاقے کے تمام وسائل و ذخائر پر قبضہ کرنے کی سازش ہے۔ ان کا مقصد صیہونی حکومت کو مغرب کےلئے انرجی اور سامان کی فراہمی کا دروازہ بنانا ہے۔ صیہونی حکومت کا وجود اسی لئے امریکہ اور مغرب کے لئے ضروری ہے۔ یقینا امریکہ اور صیہونیوں کا یہ خواب، چکناچور ہوگا۔
* غزہ کے عوام کی مزاحمت نے صیہونی حکومت کی یہ حالت کر دی کہ اب اس کی سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ کس طرح سے اپنے وجود کو بچائے۔ غزہ اور لبنان کی مزاحمت و جدوجہد نے صیہونی حکومت کو 70 برس پيچھے کر دیا ہے۔