• گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
  • حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
  • جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
  • پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
  • رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
  • مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
  • گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
  • فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
  • شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
  • علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات

تازه خبریں

گلگت بلتستان الیکشن 2015 تحریر: فاطمہ گلگتی

گلگت بلتستان 2015 کی انتخابی مہم جہاں اپنے عروج پر ہے وہاں سیاسی جوڑ توڑ کا بھی بازار گرم ہے،گلگت بلتستان عوام سمیت پورا پاکستان 8 جون 2015 کے لئے لحظہ شماری کر رہا ہے ، پاکستان پپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) ،پاکستان تحریک انصاف ،اسلامی تحریک پاکستان ، مجلس وحدت المسلمین ،جمیعت علماء اسلام (ف) ، جماعت اسلامی، آل پاکستان مسلم لیگ (جنرل پرویز مشرف)، پیپلزپارٹی (شیرپاو) اورمتحدہ دینی محاذ(سپاہ صحابہ +سمیع الحق) سمیت دیگر آزاد امیدوار الیکشن میدان میں سرگرم ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کے مقامی لوگ اپنی سیاسی تقدیر کی باگ ڈور کس کے سپرد کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو گلگت بلستان کی عوام خاندانی مراسمات، رشتہ داری تعلقات ، پارٹی میلانات سمیت اپنے مسلک و مذہب کو بھی خاص اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ مذہبی تدین اور سیاسی سابقہ کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے اسی وجہ سے نوربخشی،اسماعیلی،اہل سنت اور شیعہ حضرات کی سب سے پہلی ترجیح اپنا مسلک ومذہب ہوا کرتی ہے پھر پارٹی میلانات اور مذہبی تدین ، شرافت اور سابقہ سیاست کو بھی سامنے رکھ کر اپنی راے دہی کا استعمال کرتے ہیں لیکن اکثرحلقوں میں ایک ہی مسلک کے متعدد امیدوار ہونے کی وجہ سے ان کے ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں اس طرح اس مسلک کی جیت کے امکانات بڑھ جاتے جس کے امیدوار کم ہوں ۔
گلگت بلستان بالخصوص بلستان کے شیعہ ووٹس کا رخ موڑنے میں دو شیعہ شخصیات علامہ شیخ محسن علی نجفی اور علامہ شیخ حسن جعفری اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، شیخ محسن علی نجفی کا شمار اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے نہایت قریبی دوستوں میں ہوتا ہے، تاہم بعض وجوہات کی بنا پر چند سالوں سے گلگت بلتستان انتخابات میں کھل کر حمایت کرنے سے گریزاں ہیں، اسی طرح علامہ شیخ حسن جعفری بھی اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی کا بحیثیت نمائندہ ولی فقیہ و قائد ملت جعفریہ دل و جان سے بے پناہ احترام کرتے ہیں جس کی واضح مثال قائد ملت جعفریہ کا گذشتہ دورہ بلتستان ہے جس میں شیخ جعفری نے میزبان کا کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف ایئرپورٹ سے ایئر پورٹ تک پورے دورے میں ہمسفر رہے بلکہ نماز جمعہ کے خطبہ میں عوام سے بھی بھرپور استقبال اور میزبانی کی ان الفاظ سے تاکید کی کہ نمائندہ ولی فقیہ ہمارے مہمان بن کر آ رہے جن کی میزبانی اور استقبال ہر شخص پر واجب ہے اور اسی طرح ماضی قریب تک تحریک جعفریہ کے رہنما سمجھے جاتے رہے ہیں ،لیکن بعض مقامی اجتماعی مجبوریوں کے تحت انتخابات کے حوالے سے کسی بھی سیاسی ،مذہبی شخص کی کھل کرحمایت یا مخالفت نہیں کرتے تاہم ان کے قریبی افراد منجملہ ان کے داماد اور مذہبی امور میں ان کے معاون و مددگار علامہ شیخ محمد رضا بھشتی شیعہ علماء کونسل کے سرگرم کارکن اور سکردو کے ضلعی صدر ہیں، اس طرح کہا جا سکتا ہے شیخ حسن جعفری کی دلی ہمدردی اور خاموش حمایت اسلامی تحریک کے ساتھ ہے تاہم وہ بلتستان کی شیعہ سیاسی شخصیات میں سے کسی خاص شخصیت کی حمایت سے اجتناب کر رہے ہیں ۔
باوجود ان مذکورہ مسائل و مشکلات کے گلگت بلتستان کی غیور عوام نے ہمیشہ اپنے روایتی انداز کے مطابق قومی و ملی پلیٹ فارم تحریک جعفریہ/ اسلامی تحریک پاکستان کو اہمیت دی ہے، ان کی اسی اہمیت کی وجہ سے دو مرتبہ قومی پلیٹ فارم حکومت قائم کرچکا ہے جن کے اثرات آج بھی گلگت بلتستان میں مشہود و مملوس ہیں ،پھر اپنی مرکزی قیادت جو کہ علماء پاکستان کی معتمد خاص، سید،متقی و پرہیزگار عالم دین کے ساتھ ساتھ ملکی و عالمی سطح پر ہر دلعزیز شخصیت ، نمائندہ ولی فقیہ و قائدملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کی آواز پر لبیک کہنا ان کا طرہ امتیاز رہا ہے۔
لہذا ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی قوی امید ہے کہ گلگت بلتستان کی غیور عوام فرزند زہرا،نمائندہ ولی فقیہ، قائد ملت جعفریہ کے حمایت یافتہ امیدواروں کو کامیاب کرانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی تاکہ ملکی و بین الاقوامی حالات سے باخبر، عالمی سطح کے سیاسی تجربہ کار، مدیر و مدبر علامہ سید ساجد علی نقوی کی زیر سرپرستی منتخب نمائندگان اپنے آئینی حقوق کے حصول میں بھرپور کردار ادا کر سکیں۔
قارئین کے لئے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے اور اس خطے کو صوبائی حقوق حاصل نہیں ہے ،اس لئے صوبائی اسمبلی کی جگہ قانون ساز اسمبلی ہوتی ہے جو کہ 33 اراکین پر مشتمل ہے ان 33 اراکین میں 24 اراکین کا عوام براہ راست انتخاب کرتی ہے ،آمدہ انتخابات جماعتی بنیاد پر ہو رہے ہیں جس میں ملک کی اہم سیاسی مذہبی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں،اسلامی تحریک نے بھی انتخابی میدان میں شیعہ علائقوں سے اپنے 10 امیدوار نامزد کئے ہیں جبکہ باقی حلقوں میں قومی مفاد اور علاقائی ضرورت کے مطابق مضبوط اور معتدل امیدوار کی حمایت کا اراده ہے ۔
گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ ،عوامی حقوق کا تحفظ ، ترقیاتی امور، نوجوانوں کو تعلیمی تربیت اور خطے میں امن و اماں کے قیام کے لئے اسلامی تحریک نے جن نامزد امیدواروں کا اعلان کیا ہے ان کی انتخابی پوزیشن جاننے کے لئے حلقہ وائز مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
گلگت حلقہ 1: اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے سید حسن شاہ کاظمی، پیپلزپارٹی کے امجد حسین ایڈوکیٹ ، مجلس وحدت مسلمین کے الیاس صدیقی اور آزاد امیدوار جوہر علی ان سب کا تعلق اہل تشیع سے ہے اور اس حلقے کے اہل سنت امیدواروں میں مسلم لیگ ن کے جعفراللہ، جمیعت علماء اسلام ف کے مولانا عطاء اللہ شہاب،متحدہ دینی محاذ کے حمایت اللہ ، مذہبی متشدد حلقوں کے حمایت یافتہ مولانا سلطان رئیس اور آزاد امیدوار محمد شفیق شامل ہیں ۔
حلقے میں اگر اہل تشیع افراد اپنے امیدوار کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اہل تشیع امیدوار کی جیت یقینی ہے لیکن اگر اہل تشیع کے امید وار اسی صورت برقرار رہے اور اہل سنت اپنے امیدوار کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اہل سنت یہ سیٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس حلقے میں اہل تشیع کے مضبوط امیدوار سید حسن شاہ کاظمی ہیں جن کا تعلق اسلامی تحریک سے ہے۔
گلگت حلقہ2 : اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے سخی احمد جان اہل تشیع ، پاکستان پیپلز پارٹی کے جمیل حسین اہل تشیع ، مسلم لیگ ن کے حفیظ الرحمان اہل سنت ، تحریک انصاف کے فتح اللہ اہل سنت، مجلس وحدت مسلمین کے مطہرعباس اہل تشیع اور آزاد امیدوار ایڈوکیٹ بہرام اہل سنت شامل ہیں۔ اس حلقے کی نوعیت بهی پہلے حلقے کی طرح ہے، تاہم اس حلقے میں اہل تشیع کا مضبوط امیدوار سخی احمد جان ہے جن کا تعلق اسلامی تحریک سے ہے،کیونکہ ان کی سپورٹ اسلامی تحریک کے رہنما محترم دیدار علی کر رہے ہیں جن کا حلقے کے اندر اہل تشیع اور اہل سنت براداری میں اثر رسوخ اور ذاتی بینک ووٹ کافی مضبوط ہے-
گلگت حلقہ 3: اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے کیپٹن(ر) محمد شفیع، مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر محمد اقبال، پیپلز پارٹی کے آفتاب حیدر، مجلس وحدت مسلمین کے شیخ نیئر عباس اور آزاد امیدواروں میں کیپٹن ہادی اور ندیم اللہ بیگ شامل ہیں ان دو آزاد امیدواروں کا تعلق اسماعیلی برادرای سے ہے۔
اس حلقے میں اکثریت آبادی اہل تشیع اور اقلیتی آبادی اسماعلیوں کی ہے ، تاہم اگر اسماعیلی برادری اپنے کسی ایک امیدوار پر متفق ہو جائے اور اہل تشیع کے سارے امیدوار اسی انداز میں الیکشن میں حصہ لیں تو اسماعیلی امیدوار کے جیتنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ شیعہ امیدواروں میں اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار کیپٹن(ر) محمد شفیع کی پوزیشن بہتر ہے-
گلگت حلقہ 4: اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے محمد علی شیخ ،مسلم ن کے حاجی قربان علی،پی پی کے جاوید حسین ،تحریک انصاف کے محمد جاوید اور مجلس وحدت مسلمین کے شیخ علی محمد شامل ہیں۔ اس حلقے میں نمبر 1 پوزیشن اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار محمد علی شیخ کی ہے-
گلگت حلقہ 5: اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے شیخ مرزا علی،مسلم لیگ ن کے قلب علی ، پیپلزپارٹی کے ذوالفقار مراد اور مجلس وحد ت مسلمین کے حاجی رضوان علی شامل ہیں۔ اس حلقے میں سب سے بہتر پوزیشن اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار شیخ مرزا علی کی ہے-
سکردو حلقہ1 : یہ 90 فیصد شیعہ آبادی پر مشتمل ہے جو امیدوار جیتے گا شیعہ ہی ہوگا،اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے محمد شہزاد آغا، پاکستان پیپلزپارٹی کے سید مہدی شاہ،مسلم لیگ ن کے حاجی اکبرتابان، تحریک انصاف کے راجہ جلال حسین مقپون،مجلس وحدت مسلمین کے شیخ زاہد حسین زاہدی اور آزاد امیدوار بشارت ظہیر شامل ہیں۔ اصل مقابلہ اسلامی تحریک کے محمد شہزاد آغا، پاکستان پیپلزپارٹی کے سید مہدی شاہ،مسلم لیگ ن کے حاجی اکبرتابان اور تحریک انصاف کے راجہ جلال حسین مقپون کے درمیاں ہوگا-
سکردو حلقہ2 : اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے آغا سید محمدعباس رضوی،مسلم لیگ ن کے سیدمحمدعلی شاہ،پیپلزپارٹی کے شیخ قربان حسین،مجلس وحدت مسلمین کے کانچو امتیازحسین،تحریک انصاف کے شاکرحسین ایڈوکیٹ،آل پاکستان مسلم لیگ (جنرل پرویزمشرف) کے منورحسین بولتر اور آزاد امیدوار سید اعجازحسین شامل ہیں۔ اس کی 90 فیصد سے زائد شیعہ آبادی ہے اور تمام تر امیدوار شیعہ ہیں اس طرح جو امیدوار جیتے گا شیعہ ہی ہوگا، امیدواروں میں اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار آغا سید محمدعباس رضوی کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے-
سکردو حلقہ3 : اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے شیخ محمدحسین شمس الدین ، مسلم لیگ ن کے فدا محمد ناشاد،مجلس وحدت مسلمین کے وزیرسلیم اور آل پاکستان مسلم لیگ (جنرل پرویزمشرف) کے آغاسیدعباس شامل ہیں۔ اصل مقابلہ اسلامی تحریک کے شیخ محمدحسین شمس الدین ، مسلم لیگ ن کے فدا محمد ناشاد،مجلس وحدت مسلمین کے وزیرسلیم کے درمیاں ہوگا-
سکردو حلقہ4 : اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے کیپٹن (ر) سکندر علی،مسلم لیگ ن کے غلام عباس ایڈوکیٹ، مجلس وحدت مسلمین کے راجہ ناصر عبداللہ اور وزیرحسن شامل ہیں۔ امیدواروں میں اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار کیپٹن (ر) سکندر علی کی پوزیشن بہتر ہے-
سکردو حلقہ 5 : اس حلقے کے نامور امیدواروں میں اسلامی تحریک کے سید اکبر شاہ رضوی،مسلم لیگ ن کے اقبال حسن،تحریک انصاف کے سید امجد زیدی ، پاکستان پیپلزپارٹی کے نیاز علی اورمجلس وحدت مسلمین کے ڈاکٹر میثم شامل ہیں۔اصل مقابلہ اسلامی تحریک کے سید اکبر شاہ رضوی،مسلم لیگ ن کے اقبال حسن،تحریک انصاف کے سید امجد زیدی کے درمیاں ہوگا-
ان مذکورہ 10 حلقوں میں شیعہ اکثریت اور اسلامی تحریک کے مضبوط امیدوار موجود تھے ان کا اعلان کیا گیا بقیہ جن حلقوں میں اسلامی تحریک کا قابل ذکر ووٹ بینک ہے تو مقامی عمائدین اور اسلامی تحریک کے ذمہ داران علائقائی اور قومی مفاد کے پیش نظر مقامی سطح پر اپنے مورد نظر مناسب امیدوار کی حمایت کا اعلان کریں گے۔
اسلامی تحریک کے مرکزی قائدین کی مختلف پارٹیز سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے تاہم ابھی تک کوئی کنفرم صورتحال سامنے نہیں آئی-