طویل غور و خوض کے نتیجے میں اسلامی تحریک پاکستان نے 13 سال کے سیاسی فاصلہ بعد گلگت بلتستان الیکشن 2015 میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا اورالیکشن میدان میں متعدد امیداروں کا اعلان کیا 150 اسلامی تحریک کی پارلیمانی بورڈ ابھی الیکشن حلقہ بندی کے جائزہ لینے سے فارغ نہ ہو پائی تھی کہ گلگت بلتستان وزارت داخلہ کی جانب سے اسلامی تحریک پر ناجائز پابندی کا اعلان کر دیا گیا جس کی وجہ سے اسلامی تحریک کے پارلیمانی بورڈ اور سیاسی سیل کو کیمپن چلانے کے بجائے اس قانونی جنگ میں مصروف کردیا گیا 150 چوں کہ غیر قانونی اور ناجائز پابندی تھی اس میں اسلامی تحریک کو کامیابی نصیب ہوئی، تاہم متعصب وزارت داخلہ نے میڈیا کو اسلامی تحریک کی تشہیر سے باز رکھا۔
اسلامی تحریک کے با ہمت پارلیمانی بورڈ اور سیاسی سیل نے صبر و حوصلہ سے اپنی انتخاباتی مہم کا آغاز کیا جبکہ دوسری طرف اسلامی تحریک کے خلاف میڈیائی جنگ اپنے آب تاب کے ساتھ عروج پر تھی جو اسلامی تحریک کی با ہمت پالیمانی بورڈ اور سیاسی سیل ٹیم کے حوصلے پست نہ کر سکی تاہم ووٹرز کو شدید پریشانی لاحق تھی کہ نہ جانے اسلامی تحریک کا کیا بنے گا الیکشن میں حصہ لے پائے گی بھی یا نہیں، ابھی اسلامی تحریک کی سیاسی ٹیم اپنے ووٹرز کو حوصلہ دینے میں مصروف تھی کہ انہیں داخلی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اتحاد بین المومنین کا نام نہاد شوشہ کھڑا کر دیا گیا جس کا اسلامی تحریک نے کھلے دل سے استقبال کیا اور ان امور کو سلجھانے میں مصروف ہو گئے ۔
ادھر قائد ملت جعفریہ کے دورہ گلگت بلتستان میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی جسے اسلامی تحریک کا پارلیمانی بورڈ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ سلجھانے میں کامیاب ہوا اور قائد ملت کے گلگت بلتستان طوفانی دورے نے توقع سے بڑھ کر سیاسی صورتحال بدل دی۔ قائد ملت کے دورے سے قبل تمام مذہبی و سیاسی تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے نفرت،تعصب اور فرقہ واریت کو بڑھ کایا جا رہا تھا جبکہ قائد ملت نے امن و محبت کا پیغام دیتے ہوئے اتحادبین المومنین و اتحادبین المسلمین پر زوز دیا اور اپنے تمام تر خطابات میں کسی بھی جماعت پر تنقید اور الزام تراشی کی سیاست سے گریز کیا،جس کی وجہ سے تمام حلقوں میں مثبت اثرات مرتب ہوئے، قائد ملت کی اس مثبت پالیسی کو عوام و خواص سمیت تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین نے سراہا، قائد ملت کے دورے دوران جو دلچسپ بات نظر آئی اور تمام تجزیہ نگار انگشت بہ داندان ہوکر رہ گئے وہ یہ تھی کہ مختلف پارٹیز کے کارکنان و عہدیداران نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر استقبال میں حصہ لیا بلکہ بعض حلقوں میں استقبالیہ ریلیز اور اجتماعات کے دوران مختلف پارٹیز کے عہدیداران نے کھل کر اظہار کیا کہ ہمارا کسی بھی جماعت سے تعلق کیوں نہ ہو مگر ہمارے قائد علامہ ساجد نقوی ہیں، پہلے بھی ان کی ہدایات پر عمل کرتے تھے اور آئندہ بھی ان کے احکامات پر عمل کریں گے۔
انتخابی مہم کے دوران سیاسی تجاویز الیکشن کا حصہ ہیں اسی کے پیش نظر اسلامی تحریک نے اس خطہ کے علاقائی سیاسی مفادات اور اتحاد بین المومنین کے پیش نظر بعض حلقوں کی طرف سے کچھ سیاسی تجاویز پیش کی گئیں جن کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں۔
گلگت حلقہ 1 اور 2 میں آغا راحت کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے اپنے نامزد امیدواروں کو دستبردار ہو نے کا حکم دے دیا جبکہ گلگت حلقہ 3 میں آغا راحت کا فیصلہ اسلامی تحریک کے نامزد امیدوار کیپٹن (ر) محمد شفیع کے حق میں تھا اس لئے وہ میدان میں رہے ، کیپٹن (ر) محمد شفیع اپنی انتخابی مہم چلانے کے بجائے اتحاد بین المومنین کی خاطر متعدد بار آغا راحت کے سامنے حاضر ہوتے رہے تاہم کچھ عناصر کی لجاجت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اتحاد بین المومنین کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اورحلقہ 3میں داخلی مسائل کا فائدہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر اقبال کو پہنچا۔واضح رہے کہ حلقہ 1 گلگت میں بھی مذکورہ عناصر کی طرف سے آغا راحت کے فیصلے کی مخالفت کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے نامزد امید وار جعفراللہ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
گلگت حلقہ 4 اس حلقہ میں اسلامی تحریک کے محمد علی شیخ، مجلس وحدت کے علی محمد،اور پیپلز پارٹی کے جاوید حسین نے الیکشن میں حصہ لیا۔ اسلامی تحریک کے محمد علی شیخ تقریباَ 1000 ووٹ کی برتری سے جیتنے میں کامیاب رہے۔گلگت حلقہ5 میں اسلامی تحریک کے علامہ شیخ مرزا علی صاحب کی والدہ وفات کر گئی تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے دستبرداری کا اعلان کیا۔
سکردو حلقہ 3میں مسلم لیگ ن کے فدا محمد ناشادکی ذاتی درخواست پر اسلامی تحریک نے اپنا امیدوار ان کے حق میں دستبردار کر دیا۔
سکردو حلقہ 4 میں اسلامی تحریک کے کیپٹن (ر) سکندر علی کامیاب قرار پائے۔
سکردو حلقہ5 میں اسلامی تحریک کے علامہ سید اکبر شاہ رضوی جناب اقبال حسن جو ماضی میں تحریک جعفریہ کے ہمدرد اور قومی قیادت سے مخلص رہے ہیں کی صلاحیت کے پیش نظر ان کی حمایت کا اعلان کیا چنانچہ وہ اسلامی تحریک کی حمایت سے کامیاب قرار پائے۔
سکردو حلقہ 6 میں اسلامی تحریک کے حاجی فضل تھے پیپلزپارٹی کی طرف سے عمران ندیم امیدوار تھے موصوف ماضی میں تحریک جعفریہ کا حصہ اور اہم نظریاتی رہنما رہے ہیں، انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز تحریک جعفریہ سے کیا تھا آج بھی قومی قیادت سے مخلص ہیں۔ انکی ذاتی درخواست پر اسلامی تحریک نے اپنا امیدوار انکے حق میں دستبردار کر دیا۔ اس طرح اسلامی تحریک کی حمایت سے پیپلز پارٹی امید وار عمران ندیم صاحب کامیاب قرار پائے۔۔
اس رپورٹ کی روشنی میں دیکھا جائے تو مختلف سیاسی رکاوٹوں اور متعدد داخلی مشکلات کے باوجود دو ہفتہ کی مختصر کمپین میں مستقل اور حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہو ئے جوکہ اسلامی تحریک کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن اس سے عظیم کامیابی یہ ہے کہ سیاست علوی کی روشنی میں قومی قیادت کی زبانی پیار، محبت، عزت، احترام ، تہذیب تشیع اور مکتب کا حقیقی پیغام پہنچایا گیا نیز اتحاد بین المومنین اور اتحاد بین المسلمین کی پاسداری کا حق ادا کیا گیا سوشل میڈیا پر اسلامی تحریک اور قومی قیادت کے خلاف بدتمیزی اور بدتہذیبی کرنا نہایت آسان کام ہے۔اس عظیم و شاندار کامیابی اور فتح مبین پراسلامی تحریک کے پارلیمانی بورڈ اور سیاسی سیل کے اراکین بالخصوص علامہ عارف حسین واحدی، علامہ شبیر حسن میثمی اور قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی کو ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں اسی طرح جعفریہ پریس ٹیم کے بھی شکر گذار ہیں جنہوں نے اپنی بے لوث خدمات سے ماحول کو گرمایا۔
- گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
- حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
- جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
- پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
- رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
- مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
- گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
- فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
- شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
- علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات