تازه خبریں

وفاقی بجٹ پیش کردیاگیا مگر اس سالانہ میزانیہ میں عوام کہاں…؟قائد ملت علامہ ساجد نقوی

وفاقی بجٹ پیش کردیاگیا مگر اس سالانہ میزانیہ میں عوام کہاں…؟قائد ملت علامہ ساجد نقوی

وفاقی بجٹ پیش کردیاگیا مگر اس سالانہ میزانیہ میں عوام کہاں…؟قائد ملت علامہ ساجد نقوی
بجٹ میں سب سے بڑے فلاحی تعلیمی نظام کے حامل مدارس مکمل نظر انداز کیوں …؟آئرن، سٹیل پر ٹیکس چھوٹ مگر طلباء کے استعمال کی معمولی چیزوں پر بھی ٹیکس عائد ، گھسی پٹی پالیسی کی بجائے خود انحصارمعاشی پالیسی اپنانے کی ضرورت، قائد ملت جعفریہ پاکستان
راولپنڈی/ اسلام آباد 14جون 2024ء (جعفریہ پریس پاکستان )قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں وفاقی بجٹ پیش کردیاگیا مگراس بجٹ میں عوام کہاں ہیں…؟آئرن ، سٹیل پر ٹیکس چھوٹ مگر طلباء کے استعمال کی معمولی چیزوں پر بھی ٹیکس، سب سے بڑے فلاحی تعلیمی نظام مدارس کو یکسر نظر انداز کردیاگیا، شعبہ انڈسٹری سے لے کر کسان تک سب پریشان ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے بجٹ 2024-25 پر رد عمل دیتے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے سوال اٹھایا کہ بجٹ تو پیش کردیاگیا مگر اس بجٹ میں عوام کہاں ہیں…؟عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے مزید دبتی ہوئی نظر تو آرہی ہے مگر اسے کہیں سے کوئی ریلیف دیاگیا …؟اشیائے ضروریہ سے بیکری کی معمولی اشیاء تک، قلم دوات سے دوائوں تک سب پر ٹیکس عائد کردیاگیا، تعلیمی میدان میں سب سے نمایاں اور فعال کردار ادا کرنے والے دینی تعلیمی نظام کو یکسر نظر انداز کردیاگیا، کسی سامراجی ملک میں ایسا ہوتا تو اچنبے کی بات نہیں تھی مگر اسلامی جمہوری ریاست کا دعویٰ کرنیوالی مملکت میں دینی مدارس کو یکسر نظر اندازکر دیا گیا ۔خود حکومتی اعدادو شمار کے مطابق تنخواہ دار طبقہ سے 75 اور غیر تنخواہ دار طبقے سے 150ارب ٹیکس وصول کیا جائیگا ، ایک طرف 25فیصد تنخواہ کا اضافہ تو ووسری طرف مختلف ٹیکس سلیبز بھی متعارف کروادی گئیں، جس اشرافیہ پر ٹیکس کی بہت گونج سنائی دے رہی تھی نہ اس پر عملدرآمد نظر آیا نہ ہی کفایت شعاری کی کوئی خاص پالیسی …؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔ ملکی معاشی استحکام کیلئے ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ داخلی سیاسی استحکام ضروری اس کیساتھ ساتھ ملکی انڈسٹریز خصوصاً ٹیکسٹائل، زراعت، سیاحت کے حوالے اقدامات اٹھائے جائیں، غیر ہنر مند نوجوانوں کو صحیح معنوں میں ہنر مند بنا کر افرادی قوت بنایا جائے ، سماجی شعبے کی خدمات کرنیوالے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے ،واضح رہے خود حکومتی اعدادو شمار کے مطابق اس وقت تقریباً مجموعی خسارہ جی ڈی پی کا 12.7فیصد سے کے قریب ، غیر ملکی قرضوں کا حجم 23 ارب ڈالر ز کے قریب ، حکومتی اخراجات کیساتھ تنخواہوں، پنشن کے بلز اور صوبوں کا سرپلس اس کے علاوہ ہیں ، اب قرضوں کے ذریعے قرضوں کی ادائیگی کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کیلئے خود مختار پالیسی اپنا کر آگے بڑھا جائے اسی صورت میں اس بحران کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکتاہے۔