تازه خبریں

امام حسن عسکریؑ کی شہادت

امام حسن عسکریؑ کی شہادت

شوق وصال اور نماز شب:

آٹھ ربیع الاول سنہ 260 ہجری کی صبح وعدہ دیدار آن پہنچا، دکھ اور مشقت کے سال اختتام پذیر ہوئے۔ قلعہ بندیوں، نظر بندیاں اور قید و بند کے ایام ختم ہوئے۔ نا قدریاں، بےحرمتیاں اور جبر و تشدد کے سلسلے اختتام پذیر ہوئے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام ایک طرف سے قربِ وصالِ معبود سے شادماں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت اور آپ (ص) کی دو امانتوں (قرآن و عترت) کے انجام سے فکرمند، غریب الوطنی میں دشمن کے زہر جفا کی وجہ سے بستر شہادت پر درد کی شدت سے کروٹیں بدل رہے ہیں لیکن معبود سے ہم کلام ہونے کو پھر بھی نہ بھولے اور نماز تہجد ابن الرسول (ص) لیٹ کر ادا کی وہ بھی شب جمعہ کو کہ جو رحمت رب العالمین کی شب ہے؛ وہی شب جو آپ (ع) کی پرواز کی شب ہے۔ نماز میں بہت روئے تھے شوق وصال کے اشک۔

زمین اور آسمان  کا سوگ:

آپ (ع) نے نماز فجر بھی اپنے بستر پر لیٹ کر ہی ادا فرمائی وہ بھی 28 سال کی عمر اور عین شباب میں، آپ (ع) کی آنکھیں قبلہ کی طرف لگی ہوئی تھیں جبکہ زہر کی شدت سے آپ (ع) کے جسم مبارک پر ہلکا سا رعشہ بھی طاری تھا۔ آپ (ع) کے لبوں سے بمشکل “مہدی” کا نام دہراتے رہے اور پھر مہدی آ ہی گئے اور چند لمحے بعد آپ (ع) اور آپ (ع) کے فرزند مہدی کے سوا کوئی بھی کمرے میں نہ تھا اور راز و نیاز اور امانتوں اور وصیتوں کے لمحات تیزی سے گذر رہے تھے اور ابھی آفتاب طلوع نہیں ہوا تھا کہ گیارہویں امام معصوم کی عمر مبارک کا آفتاب غروب ہوا اور آسمان و زمین پر سوگ و عزا کی کیفیت طاری ہوئی۔

کنیت اور القاب:

امام حسن عسکری علیہ السلام کی کنیت “ابو محمد” ہے جبکہ مختلف کتب میں آپ (ع) کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں جن میں مشہور ترین “عسکری” ہے جس کا سبب شہر سامرا کے محلہ “عسکر” میں آپ (ع) کی رہائش یا بالفاظ دیگر “قلعہ بندی” ہے۔ “زکی” یعنی پاک و تزکیہ یافتہ، آپ (ع) کا دوسرا مشہور لقب ہے۔

علم و عبادت:

بے شک ہر امام معصوم (ع) کا علم منبع وحی سے ماخوذ ہوا کرتا تھا اور حتی دشمنوں اور مخالفین نے تصدیق کی ہے کہ آئمہ علیہم السلام کا علم اس قدر وسیع تھا کہ بیان کے دائرے میں نہیں سماتا۔ امام علیہ السلام کے احکامات، فرامین، اقوال اور دروس و پیغامات اور آپ (ع) سے منقولہ احادیث و روایات سے آپ (ع) کی دانش کا اظہار ہوتا ہے۔

بزرگ عیسائی عالم بختیشوع اپنے شاگرد بطریق سے کہتا ہے: “ابن الرضا ابو محمد عسکری کی طرف چلے جاؤ اور جان لو کو ہمارے زمانے میں آسمان تلے ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے اور خبردار! اگر وہ تمہیں کوئی حکم دے تو ہرگز اعتراض مت کرنا”۔

آپ (ع) کی حیات طیبہ خدائے مہربان سے انس و محبت اور صبر و شکر کا اعلی نمونہ تھی۔ محمد شاکری نے روایت کی ہے کہ “میرے مولا اور استاد امام حسن عسکری علیہ السلام محراب عبادت میں سجدے میں چلے جاتے تھے اور آپ (ع) کا سجدہ اور ذکر و دعا کا یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوجاتا تھا کہ میں سوجاتا اور جاگ جاتا اور دیکھتا تھا کہ آپ (ع) ابھی سجدے کی حالت میں ہیں۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کے سجدے رات کو فجر سے متصل کر دیتے تھے اور آپ (ع) کی عارفانہ مناجات ہر مردہ اور دنیا زدہ دل کو آسمانی حیات بخش دیتی تھی۔ آپ (ع) نے اپنے جد امجد امیر المؤمنین علیہ السلام کی مانند دنیا کو تین طلاقیں دی تھیں اور دنیا کی نعمتوں سے اپنی ضرورت سے زیادہ اٹھانا پسند نہیں فرمایا کرتے تھے اور اپنی پوری زندگی صرف آخرت کا خانہ تعمیر کرنے میں مصروف رہتے تھے۔

زندگی دشمن کے محاصرے میں:

مامون کی موت کے بعد معتصم عباسی بغداد میں داخل ہوا اور لوگوں سے اپنے لئے بیعت لی اور اس کے بعد حکومت میں اعلی مناصب پر موجود ترکوں کی مدد سے بغداد کے شمال مشرق میں شہر “سامرا” کی بنیاد رکھی۔ اس شہر میں اس نے ایک محلہ فوجیوں کو مختص کیا جس کو عسکر کہا جانے لگا۔ عباسی حکمران اپنے عباسی اور اموی اسلاف کی مانند شیعیان آل محمد (ص) اور بطور خاص فرزندان رسول (ص) آئمہ طاہرین (ع) سے خوفزدہ رہتے تھے چنانچہ سامرا کی تعمیر کے بعد امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور آپ (ع) کے فرزندوں ـ بالخصوص امام حسن عسکری علیہ السلام ـ کو عسکر کے محلے میں نظر بند رکھا گیا اور یہ محلہ آل محمد (ص) کے جبری مسکن میں تبدیل ہوا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کا محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ اہل خاندان اور دوستوں کا آپ (ع) سے رابطہ تقریبا ناممکن تھا۔

فیض دیدار سے محرومی:

امام حسن عسکری علیہ السلام چھ سال کے مختصر عرصے تک منصب امامت الہیہ پر فائز رہے اور آپ (ع) کی امامت کا پورا دور محلہ عسکر میں گذرا۔ شیعیان غالبا آپ (ع) کے فیض دیدار سے محروم تھے اور شیعیان و پیروان اہل بیت (ع) کی خبریں اور معلومات چند ہی افراد کے ذریعے امام (ع) کو پہنچتی تھیں اور آپ (ع) کے فرامین اور احکامات بھی ان ہی افراد کے ذریعے شیعیان عالم کو پہنچا کرتے تھے۔ یہ لوگ خفیہ طور پر محلے کی نگرانی کرنے والے فوجی دستوں میں نفوذ کرچکے تھے یا مختلف طریقوں سے محلے میں آمد و رفت کیا کرتے تھے۔

امام عسکری (ع) پر شدید دباؤ:

عباسی حکماء آئمہ پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے تھے اور امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے بعد اس دباؤ میں شدت آئی تھی اور دباؤ امام جواد، امام ہادی اور امام عسکری علیہم السلام کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچا تھا۔ گیارہویں امام (ع) کے زمانے میں اس دباؤ میں بہت زیادہ شدت لائی گئی تھی کیونکہ امام رضا (ع) کے زمانے میں شیعیان اہل بیت (ع) نے بہت زیادہ پیشرفت کی تھی اور آئمہ (ع) پر دباؤ کا سبب بھی یہی پیشرفت تھی۔ امام عسکری (ع) کے زمانے میں پیروان آل محمد (ص) ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوئے تھے چنانچہ دباؤ میں بھی اسی تناسب سے شدت آئی تھی۔ شیعیان آل محمد (ص) عباسی ملوکیت کو جائز حکومت نہیں سمجھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ حکومت کا شرعی اور قانونی حق صرف آل محمد کے آئمہ کو ہی پہنچتا ہے۔ اس زمانے میں خاندان آل محمد (ص) میں ممتاز ترین شخصیت، امام حسن عسکری (ع) کی تھی۔ اور پھر متعدد روایات و احادیث سے ثابت تھا کہ ظالم اور استبدادی حکومتوں کو منہدم کر دینے والے بارہویں امام، امام حسن عسکری (ع) کی ذریت سے ہونگے چنانچہ عباسی خلیفہ نے موسی کی پیدائش کا راستہ روکنے کے لئے فرعون کے تمام کاموں کی تقلید کی اور ہر جہت سے امام (ع) کو زیر نگرانی رکھا۔

دشمن کا کردار:

امام عسکری (ع) اسی وقت سے محاصرے میں تھے جب امام ہادی (ع) کو عسکر میں نظر بند کیا گیا یوں آپ (ع) کی عمر کے 20 سال محاصرے میں گذرے۔ لیکن خبیث بادشاہت کے منحوس عزائم محض محاصرے اور ناکہ بندی سے پورے نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ قرآن کی طرح عترت یعنی خاندان محمد (ص) بھی کسی صورت میں دشمنوں کے ساتھ ساز باز نہیں کر سکتا تھا اور ان کی شمع ہدایت شیعیان عالم کے درمیان بجھنا محال تھا چنانچہ انھوں نے آئمہ سلف کی مانند امام حسن عسکری (ع) کو کمزور کرنے کے نت نئے منصوبوں میں مصروف رہتے تھے اور آپ (ع) کو آزار و اذیت پہنچانے اور دشواریاں پیدا کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور یوں امام و پیشوا سے فیض حاصل کرنے کے سلسلے میں پیروان آل محمد (ص) کو بھی دشواریوں سے دو چار کرتے تھے۔

دشمن کی سازشیں:

امام حسن عسکری (ع) کے ایک بھائی کا نام جعفر تھا جس کو دشمن نے امام عسکری (ع) کے خلاف استعمال کیا۔ جعفر امام ہادی (ع) کے بڑے بھائی ہونے کے ناطے امامت کا دعویدار تھا اور امام عسکری (ع) کی شہادت تک اسی دعوے پر قائم تھا۔ بنی عباس بھی جو اصولا آل محمد (ص) اور ان کی امامت کے خونی دشمن تھے ۔ اس کو اپنے دعوے پر قائم رہنے کی ترغیب دلاتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس شخص کا عباسی بادشاہ کے دربار میں آنا جانا تھا اور بادشاہ اور اس کے درباریوں کے کان بھرنے اور امام (ع) کو اذیت پہنچانے میں مصروف رہتا تھا۔ 

امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد عباسی بادشاہ “معتمد” نے آپ (ع) کا ترکہ آپ (ع) کی والدہ اور بھائی جعفر کے درمیان تقسیم کیا اور یوں لوگوں کو یہ جتانے کی کوشش کی کہ گویا آپ (ع) کی کوئی اولاد نہیں تھی اور آپ بے اولاد ہی دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور یوں وہ مسلمانوں کو بارہویں امام (ع) کے وجود سے مایوس کرنا چاہتا تھا لیکن اس کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ شیعیان آل محمد (ص) کا عقیدہ تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا ایک بیٹے آپ (ع) کے بعد امام مسلمین ہیں اور کئی نمایاں شیعہ علماء اور شخصیات نے ان سے ملاقات بھی کی ہے اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اپنے والد کی شہادت کے بعد پردہ غیبت میں جانے والے ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں اپنے پیروکاروں کو پہلے ہی سے تیار کر رکھا تھا۔

نماز جنازہ:

آپ (ع) کے جنازہ اطہر کو غسل و تکفین کے بعد آپ (ع) کے گھر کے صحن میں رکھا گیا تھا۔ آپ کا بھائی جعفر آگے بڑھا اور آپ (ع) کے جنازے کی نماز پڑھانے کی کوشش کی۔ ابھی اس نے تکبیر کہنا ہی چاہی تھی کہ ایک گندمی رنگ اور سیاہ بالوں کے کمسن بچے نے باہر آ کر جعفر کا لباس پکڑ لیا اور اس کو پیچھے دھکیل کر فرمایا: چچا! ہٹ جاؤ، مجھ کو ہی اپنے والد کے جنازے کی نماز پڑھانی چاہئے” جعفر ایسی حالت میں پیچھے ہٹ گیا کہ اس کے چـہرے کی حالت بگڑ گئی تھی لیکن وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ فرزند امام (ع) نے آپ (ع) کے جنازہ اطہر کی نماز پڑھائی اور وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام تھے وہی جن کے آنے کا انتظار ہے ۔ وہی جو اس زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے۔ بہرحال سازش نا کام ہو چکی تھی اور نماز جنازہ کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کو آپ کے والد ماجد حضرت امام ہادی علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

غیبت امام زمان (ع) کے لئے ماحول سازی:

امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے نہایت دشوار ایام حیات میں مسلمانوں کو امام زمانہ (عج) کی غیبت کے لئے تیار کیا اور اس امر کو اپنی اہم ترین ذمہ داری کی حیثیت سے انجام دیتے رہے، اسی بنا پر آپ (ع) کم ہی عوام سے رابطے میں رہتے تھے اور کم ہی لوگوں سے ملاقات کرتے تھے اور پھر ملاقات کا امکان بھی کم ہی تھا جو ممکن ہے کہ اللہ کی حکمت کا تقاضا بھی رہا ہو۔ آپ اپنے خاص نائبین کے ذریعے عوام سے رابطے میں رہتے تھے اور لوگوں کے دینی مسائل بھی ان کے توسط سے حل کیا کرتے تھے اور علماء کے خطوط و مکاتیب بھیج کر ضروری ہدایات دیا کرتے تھے۔ امام علیہ السلام نے اس روش سے اپنے فرزند کی غیبت کے لئے ماحول تیار کیا اور لوگوں کو امام (ع) سے دور رہ کر فیضیاب ہونے کا عادی بنایا تا کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت ان کے لئے غیر معمول اور نا مانوس نہ ہو۔

امام زمان (عج) کا تعارف:

امام حسن عسکری (ع) علی ابن حسین بن بابویہ قمی کے نام تحریر فرماتے ہیں: “ہمیشہ کے لئے صبر و استقامت کا دامن تھامنے رکھنا اور اپنے امام غائب (ع) کا انتظار کرتے رہنا۔ ہمارے شیعہ مسلسل غم و اندوہ میں زندگی بسر کرتے ہیں جب تک کہ میرے فرزند کا ظہور نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بشارت دی ہے، وہ وہی ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ یہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہو گی”۔

زمین حجت الہی سے سے کبھی خالی نہیں ہو گی:

احمد بن اسحق کہتے ہیں: “میں امام عسکری (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ میں امام علیہ السلام سے آپ (ع) کے بعد کے امام کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا۔ امام نے میرے سوال پوچھنے سے قبل ہی فرمایا: “اے احمد! جس دن خدائے عزّ و جلّ نے جب سے حضرت آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا ہے، ایک لمحے کے لئے بھی زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑا اور قیامت تک بھی اس کو حجت سے خالی نہیں چھوڑے گا؛ خداوند متعال حجت و امام کے توسط سے زمین والوں سے بلائیں ٹالتا ہے اور اس کی برکت سے بارشیں برستی ہیں”۔ اس کے بعد فرمایا: “خدا کی قسم! وہ غائب ہوں گے اور اس غیبت کے دوران کوئی بھی گمراہی اور ہلاکت سے چھٹکارا نہ پا سکے گا سوائے ان لوگوں کے جو ان کی امامت پر ثابت قدم رہتے ہیں”۔ میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص)! آپ کے بعد ہمارا امام کون ہے؟ چنانچہ امام (ع) تیزی سے اٹھے اور گھر کی اندرونی میں تشریف لے گئے اور ایک تین سالہ فرزند کے ہمراہ واپس آئے جن کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند چمک رہا تھا اور فرمایا: اے احمد ابن اسحق! اگر تم خدا اور اس کے اولیاء اور حُجَج کے ہاں عزیز نہ ہوتے تو میں یہ فرزند تمہیں نہ دکھاتا”۔

امام حسن عسکری (ع) کی حکمت عملی:

امام حسن عسکری نے ہر قسم کے دباؤ اور عباسی حکومت کی جانب سے سخت نگرانی کے با وجود دینِ اسلام کی حفاظت اور اسلام مخالف افکار کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد سیاسی، اجتماعی اور علمی اقدامات انجام دیئے اور اسلام کی نابودی کے لئے عباسی حکومت کے اقدامات کو بے اثر کر دیا۔ 

آپ کی حکمتِ عملی کے اہم نکات درجِ ذیل ہیں:

دین اسلام کی حفاظت کے لئے علمی جدوجہد، مخالفوں کے شکوک و شبہات کا جواب، درست اسلامی افکار و نظریات کا پرچار، خفیہ سیاسی اقدامات، شیعوں کی اور بالخصوص نزدیکی ساتھیوں کی مالی امداد، مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے شیعہ بزرگوں کی تقویت اور ان کے سیاسی نظریات کی پختگی، شیعوں کے فکری استحکام اور منکرینِ امامت کو قائل کرنے کے لئے غیبی اطلاعات سے وسیع استفادہ اور اپنے بیٹے، بارہویں امام کی غیبت کے لئے شیعوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا۔

علمی جدوجہد:

اگرچہ امام حسن عسکری کے دور میں حالات کی ناساز گاری اور عباسی حکومت کی جانب سے کڑی پابندیوں کی وجہ سے آپ معاشرے میں اپنے وسیع علم کو فروغ نہیں دے سکے، لیکن ان سب پابندیوں کے با وجود ایسے شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے ہر ایک اپنے طور پر معارف اسلام کی اشاعت اور فروغ میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ شیخ طوسی نے آپ کے شاگردوں کی تعداد سو سے زائد نقل کی ہے۔ جن میں احمد بن اسحق قمی، عثمان بن سعید اور علی بن جعفر جیسے لوگ شامل ہیں۔ کبھی مسلمانوں اور شیعوں کے لئے ایسی مشکلات اور مسائل پیش آ جاتے تھے کہ انہیں صرف امام حسن عسکری ہی حل کر سکتے تھے۔ ایسے موقع پر امام  اپنے علمِ امامت اور حیرت انگیز تدبیر کے ذریعے سخت ترین مشکل کو حل کر دیا کرتے تھے۔

شیعوں کا باہمی رابطہ (نیٹ ورک):

امام عسکری کے زمانے میں مختلف مقامات اور متعدد شہروں میں شیعہ پھیل چکے تھے اور کئی علاقوں میں متمرکز تھے۔ کوفہ، بغداد، نیشاپور، قم، مدائن، خراسان، یمن اور سامرا شیعوں کے بنیادی مراکز شمار ہوتے تھے۔ شیعہ مراکز کا یہ پھیلاؤ اور مختلف علاقوں میں اس کا منتشر ہونا اس بات کا متقاضی تھا کہ ان کے درمیان رابطے کا ایسا مربوط نظام قائم کر دیا جائے جو ایک طرف سے شیعوں کو امام کے ساتھ اور دوسری طرف سے شیعوں کو آپس میں مربوط کر سکے تا کہ ان کی دینی و سیاسی رہنمائی ہو اور ان کو منظم کیا جا سکے۔ یہ ضرورت امام محمد تقی (ع) کے دور سے ہی محسوس ہو رہی تھی اور وکالت کا مربوط نظام ایجاد کر کے اور مختلف علاقوں میں نمائندوں کو منصوب کر کے اس کام کا آغاز ہو چکا تھا۔ امام حسن عسکری نے بھی اسی کو جاری رکھا۔ چنانچہ تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے شیعوں کے برجستہ افراد کے درمیان سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا اور مختلف علاقوں میں ان کو نصب کیا تھا۔

قاصد اور خطوط:

وکالت کا ارتباطی نظام قائم کرنے کے علاوہ امام حسن عسکری قاصد بھیج کر بھی اپنے شیعوں اور ماننے والوں سے رابطہ رکھا کرتے تھے اور اس طرح سے ان کی مشکلات کو بر طرف کیا کرتے تھے۔ ابو الادیان (جو کہ آپ کا ایک قریبی صحابی تھا) کے کام انہی اقدامات کا ایک نمونہ ہیں۔ وہ امام کے خطوط اور پیغامات کو آپ کے پیرو کاروں تک پہنچاتے اور ان کے خطوط، سوالات، مشکلات، خمس اور دوسرے اموال شیعوں سے لے کر سامرا میں امام کو پہنچایا کرتے تھے۔

قاصد کے علاوہ مکاتبات کے ذریعے بھی امام اپنے شیعوں سے رابطہ رکھتے اور ان کو اپنی تحریری ہدایت سے بہرہ مند فرماتے تھے۔ امام نے جو خط ابنِ بابویہ (شیخ صدوق کے والد) کو لکھا ہے، وہ اس کی ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ امام نے قم کے شیعوں کو بھی خط لکھے تھے جن کا مضمون شیعہ کتب میں محفوظ ہے۔

خفیہ سیاسی اقدامات:

امام حسن عسکری تمام تر پابندیوں اور حکومت کی جانب سے کڑی نگرانی کے باوجود بعض خفیہ سیاسی سرگرمیوں کی رہنمائی کر رہے تھے جو درباری جاسوسوں سے اس لئے پوشیدہ رہتی تھی کہ آپ نے انتہائی ظریف انداز اختیار کیا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر، آپ کے انتہائی نزدیکی ترین صحابی، عثمان بن سعید روغن فروشی کی دکان کی آڑ میں فعالیت میں مصروف تھے۔ امام حسن عسکری کے پیروکار جو اموال یا اشیاء آپ تک پہنچانا چاہتے تھے وہ عثمان کو دے دیا کرتے اور وہ یہ چیزیں گھی اور تیل کے ڈبوں میں چھپا کر امام کی خدمت میں پہنچا دیا کرتے تھے۔ امام کے انہی شجاعانہ اقدامات اور بے وقفہ فعالیت کی وجہ سے آپ کی چھ سالہ امامت کی نصف مدت عباسیوں کے وحشتناک قیدخانوں میں سخت ترین اذیتوں میں گذری۔

شیعوں کی مالی امداد:

آپ کا ایک اور اہم اقدام شیعوں کی اور خصوصاً نزدیکی اصحاب کی مالی امداد تھا۔ امام کے بعض اصحاب مالی تنگی کا شکوہ کرتے تھے اور آپ ان کی پریشانی کو دور کر دیا کرتے تھے۔ آپ کے اس عمل کی وجہ سے وہ لوگ مالی پریشانیوں سے گھبرا کر حکومتی اداروں میں جذب ہونے سے بچ جاتے تھے۔

اس سلسلے میں ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں: میں مالی حوالے سے مشکلات میں گرفتار تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک خط کے ذریعے اپنا احوال امام حسن عسکری کو لکھوں، لیکن مجھے شرم آئی اور میں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ جب میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ امامٴ نے میرے لئے ایک سو دینار بھیجے ہوئے ہیں اور ایک خط بھی لکھا ہے کہ جب کبھی تمہیں ضرورت ہو، تو تکلف نہ کرنا۔ ہم سے مانگ لینا، انشاء اللہ اپنا مقصد پا لو گے۔

شیعہ بزرگان کی تقویت اور ان کے سیاسی نظریات کو پختہ کرنا:

امام حسن عسکری کی ایک اہم ترین سیاسی فعالیت یہ تھی کہ آپ تشیع کے عظیم اہداف کے حصول کی راہ میں آنے والی تکلیفوں اور سیاسی اقدامات کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے شیعہ بزرگوں کی سیاسی تربیت کرتے اور ان کے نظریات کو پختہ کرتے تھے۔ چونکہ بزرگ شیعہ شخصیات پر حکومت کا سخت دباؤ ہوتا تھا، اس لئے امام ہر ایک کو اس کی فکر کے لحاظ سے ہمت دلاتے، ان کی رہنمائی کرتے اور ان کا حوصلہ بلند کیا کرتے تھے تا کہ مشکلات کے مقابلے میں ان کی برداشت، صبر اور شعور میں اضافہ ہو اور وہ اپنی اجتماعی و سیاسی ذمہ داریوں اور دینی فرائض کو اچھی طرح انجام دے سکیں۔ اس حوالے سے جو خط امام نے علی بن حسین بن بابویہ قمی کو لکھا ہے، اس میں فرماتے ہیں: ہمارے شیعہ ہمیشہ رنج و غم میں رہیں گے، یہاں تک کہ میرا بیٹا ظہور کرے گا، وہی کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول (ص) نے بشارت دی ہے کہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔

علمِ غیب کا وسیع استعمال:

آئمہ طاہرین علیہم السلام پروردگارِ عالم سے رابطے کی وجہ سے علمِ غیب سے واقف تھے اور ایسے حالات میں کہ جب اسلام کی حقانیت یا امت مسلمہ کے عظیم مفادات خطرے میں پڑ جائیں، اس علم سے استفادہ کرتے تھے۔ البتہ امام حسن عسکری کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ آپ نے دوسرے آئمہ کی نسبت زیادہ اس علم کا اظہار کیا ہے۔ اس کی وجہ، اس دور کے ناموافق حالات اور دہشتناک فضا تھی؛ کیونکہ جب  سے آپ کے والد امام علی نقی (ع) کو زبردستی سامراء منتقل کیا گیا تھا، سخت نگرانی میں تھے۔ عباسی حکومت کی سختیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں اگلے امام کا تعارف کروانے کے لئے مناسب حالات نہیں تھے، جس کے نتیجے میں بعض شیعوں کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ امام حسن عسکری ان شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لئے، نیز خطرات سے اپنے اصحاب کی حفاظت کے لئے یا گمراہوں کی ہدایت کے لئے مجبوراً حجاب ہٹا دیا کرتے اور عالمِ غیب کی خبریں دیا کرتے تھے۔

اسلامی افکار کی حفاظت:

آئمہ طاہرین کو امت اسلامی سے دور کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بعض لوگ چاہتے تھے کہ اسلامی خلافت کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے کو اس طرف لے جائیں جو ان کی مرضی کا راستہ ہو اور نوجوانوں کے دینی اعتقادات کو کمزور کر دیں اور ان کو ایسے باطل نظریات کے دامن میں دھکیل دیں جن کی تیاری پہلے سے کر لی گئی تھی اور انہیں رواج دیا جاچکا تھا تاکہ کوئی آزادی کے ساتھ اس ثقافتی حملے کا مقابلہ نہ کرسکے۔ امام حسن عسکری کا دور ایک دشوار دور تھا کہ جس میں طرح طرح کے افکار ہر طرف سے اسلامی معاشرے کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے اپنے آباء و اجداد کی طرح ایک لمحہ بھی اس سے غفلت نہیں برتی اور مختلف گروہوں، جن میں بہت سے مکاتب فکر، درآمداتی اور ضدِ اسلامی نظریات؛ جس میں صوفیت، غلو، واقفیت، شرک اور دوسرے انحرافی افکار رکھنے والے شامل ہیں، کے مقابلے میں سخت موقف اختیار کیا اور اپنے مخصوص انداز سے ان کے کام کو بے اثر کر دیا۔

امام حسن عسکری اور احیائے اسلام:

عباسی حکومت کا دور اور خصوصاً امام حسن عسکری کا زمانہ، بد ترین ادوار میں سے ایک دور تھا۔ کیونکہ حکمرانوں کی عیاشی اور ظلم و ستم نیز ان کی غفلت و بے خبری اور دوسری طرف سے دوسرے اسلامی علاقوں میں غربت کے پھیلاؤ کی وجہ سے بہت سی اعلیٰ اقدار ختم ہو چکی تھیں۔ بنا بر این، اگر امام حسن عسکری کی دن رات کی کوششیں نہ ہوتیں تو عباسیوں کی سیاست کی وجہ سے اسلام کا نام بھی ذہنوں سے مٹ جاتا۔ اگرچہ امام براہِ راست عباسی حکمرانوں کی نگرانی میں تھے، لیکن آپ نے ہر اسلامی سرزمین پر اپنے نمائندے مقرر کئے ہوئے تھے اور مسلمانوں کے حالات سے آگاہ رہتے تھے۔ بعض شہروں کی مسجدیں اور دینی عمارتیں آپ ہی کے حکم سے بنائی گئیں۔ جس میں قم میں موجود مسجد امام حسن عسکری بھی شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے اور علمِ امامت سے تمام محرومیوں سے آگاہ تھے اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرتے رہتے تھے۔

امام حسن عسکری کے دور کی پابندیوں کی علت:

امام کے دور کی پابندیوں کا سرچشمہ دو باتیں تھیں:

ان سختیوں کی ایک وجہ معاشرے میں امام کی سر شناس اور معزز شخصیت تھی اور دوسرا سبب یہ تھا کہ اس دور میں عراق میں شیعہ ایک طاقت بن چکے تھے جو کسی عباسی حکمران کے اقتدار کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کی جانب سے امامت، حضرت علی کے فرزندوں میں باقی ہے اور اس خاندان کی واحد ممتاز شخصیت امام حسن عسکری علیہ السلام ہیں۔ اسی لئے امام دوسروں سے زیادہ حکومت کی نظروں میں تھے۔ عباسی حکمران اور ان کے چاہنے والے جانتے تھے کہ مہدی موعود جو کہ تمام ظالم حکومتوں کا خاتمہ کر دیں گے، وہ نسلِ امام حسن عسکری سے ہی ہیں۔ اسی لئے وہ ہمیشہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ آپ کے بیٹے کو قتل کر دیں۔