اسلام آباد/راولپنڈی، 3 جنوری 2025ء – قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جب ہم کسی بھی امام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ائمہ طاہرین نے دین اسلام کی حقانیت کو عام کرنے کے لیے بے شمار مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا۔ ان بزرگ ہستیوں نے اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لیے وقف کیا اور اس راستے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔
امام علی نقیؑ کی انفرادی اور اجتماعی رہنمائی
علامہ ساجد نقوی نے امام علی نقی علیہ السلام کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نہ صرف انفرادی اور ذاتی زندگی میں انسانوں کی رہنمائی فرمائی بلکہ اجتماعی طرز زندگی اور حکمرانی جیسے معاملات میں بھی لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ امام علی نقی علیہ السلام کی سیرت آج بھی دنیا کے ہر انسان اور ہر معاشرے کے لیے مشعل راہ اور نمونہ عمل ہے۔
قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی
انہوں نے کہا کہ امام علی نقی علیہ السلام، منصب امامت پر فائز ہو کر قرآن کریم، سنت رسول اکرمؐ، اور اپنے اجداد کی ودیعت کردہ علم و حکمت کے ذریعے اپنے وقت کے مسلمانوں، عام انسانوں، اور حکمرانوں کو رشد و ہدایت فراہم کرتے رہے۔ ان کی تعلیمات اور رہنمائی کے اثرات ان کے زمانے کے معاشرے پر واضح طور پر مرتب ہوئے، جس کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد حق کی طرف متوجہ ہوئی۔
دین کی سربلندی کے لیے قربانی
علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ امام علی نقی علیہ السلام نے دین حق کی سربلندی اور انسانیت کی فلاح و نجات کے لیے قید و بند کی سختیاں برداشت کیں لیکن اپنے پاکیزہ مشن سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ امام نے اصلاح نفس کی تعلیمات عام کیں اور پیغمبر اکرمؐ کی حدیث “ایمان دل میں ہوتا ہے اور اعمال اس کی تصدیق کرتے ہیں، جبکہ اسلام زبان سے اقرار کا نام ہے” کے ذریعے دین اسلام کی باریکیوں کو سب پر آشکار کیا۔
دورِ حاضر میں امام علی نقیؑ کی سیرت کی اہمیت
دورِ حاضر میں انسانیت کو درپیش بحرانوں اور عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے، علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ انسانی معاشرے کو روحانیت اور ہدایت کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت امام علی نقی علیہ السلام کی سیرت کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے سے پوری ہو سکتی ہے۔
عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل
ہمیں چاہیے کہ امام کی سیرت کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر نافذ کریں تاکہ انسانیت کو مسائل سے نجات دلائی جا سکے اور حقیقی اسلامی و جمہوری نظام قائم کر کے عدل و انصاف سے مزین معاشرے تشکیل دیے جا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار بھی بھرپور طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔