تازه خبریں

حسین منی و انا من الحسین مظہر حسین ہاشمی

حسین منی و انا من الحسین مظہر حسین ہاشمی

حسین منی وانامن الحسین

مظہر حسین ہاشمی

اسلام کی تاریخ کا بغورمطالعہ کیاجائے تو اسلام کا بچپن جناب ابوطالب ؑ کی گود میں بہلتا نظر آئے گا، اسلام کی جوانی رحمتہ اللعالمین ﷺ کے دامن کی چھاؤں تلے آرام کرتی نظرآئے گی اوراسلام کا بڑھاپا مولاعلی ؑکے طاقتور بازوؤں کے آنگن میں سانس لیتا نظرآئے گا۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسلام کو خود کو بچانے کے لئے حسین ؑجیسے لجپال کا سہارا اور پناہ لینا پڑی۔

حسین مولا کی زندگی پر طائرانہ نظرڈالیں تومعلوم ہوتاہے کہ آپ 8 جنوری 626 ء بدھ کی صبح، خاتون جنت فاطمہ زہراؑ کی آغوش طاہرہ میں تشریف لائے۔ نانارسول ﷺ کی زبان مبارک چوس چوس کرعلم لدنی کے وار ث بنتے رہے۔ باباعلی ؑکی گودمیں بیٹھ کردرس توحید لیتے رہے۔ حبش کی شہزادی اماں فضہ ؓکے ہاتھوں جھولا جھولتے ہوئے لوری کی شکل میں ناطق قرآن ہوکرصامت قرآن کی تلاوت سنتے رہے۔ 627 ء میں جنگ خندق میں نانارسول ﷺ کونہ صرف یہ کہتے سنا کہ ”قد برزالایمان کلہ الی الکفرکلہ“ (باتحقیق کل ایمان، کل کفرکے مقابلے میں جا رہا ہے ) بلکہ باباعلی ؑ کے ہاتھوں عمروابن عبدودکی گردن ہوامیں بھی اڑتے ہوئے دیکھی۔

628 ء میں جنگ خیبرمیں ایک ہزارآدمیوں سے اکیلے لڑنے والے اور 39 دن تک مسلمانوں کوڈراکرماربھگانے والے پہلوان مرحب وعنترکواپنے باباکی ذوالفقارسے دوٹکڑے ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ 630 ء میں فتح مکہ کے دن اسلام کے ازلی دشمنوں کونانارسول ﷺ اورباباعلی ؑکے سامنے سرجھکائے کھڑادیکھا۔ اورجب چلناشروع کیا تو 631 ء میں نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنے اور نانارسول ﷺ کی صداقت ورسالت کی گواہی دینے کے لئے اپنی طاہرہ ماں، ابوتراب بابا اور عظیم بھائی امام حسن ؑکے ساتھ خودچل کرگئے۔

کبھی اللہ کے صادق رسول ﷺ کی زبان مبارک سے حسین منی وانامن الحسین (حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ) جیسی فضیلت سنی، توکبھی الحسن والحسین سیدہ شباب اہل الجنہ (حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں ) کی بشارت سنی۔ کبھی جبریل امین ؑکوفطرس کے ساتھ اس کاسفارشی بن کرآتے ہوئے دیکھاتوکبھی درزی بن کرجنت سے عیدکے کپڑے لے کرآتے ہوئے دیکھا۔ 632 ء میں پنجتن پاک کے پانچویں بن کرزیر کساء آیہ تطہیرکے مصداق بنے۔ چندماہ بعدمیدان خم غدیرپرسوالاکھ کے حاجیوں کے مجمع میں اپنے باباعلی ؑکابازو نانارسول ﷺ کے ہاتھ میں نہ صرف بلندہوتے ہوئے دیکھا بلکہ من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ (جس کامیں مولاہوں اس کاعلی مولاہے ) کا اعلان بھی سنا اوربخن بخن (مبارک مبارک ) کی آوازیں بھی بلندہوتے ہوئے سنیں۔

پھردوماہ بعد 25 مئی 632 ء کواپنے شفیق ناناکی رحلت کاکبھی نہ بھلاسکنے والاغم بھی روتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ کریم ناناجواپنی واللیل زلفیں ننھے ہاتھوں میں پکڑاکرسواری بن جاتے تھے، وہ شفیق ناناجوحسین ؑکوگرتادیکھ کرمسجدنبوی کے منبرپرخطبہ دینابھول جاتے تھے، وہ نمازی ناناجونمازکے سجدہ میں 70 دفعہ سبحان رب الاعلیٰپڑھناتوگواراکرلیتے تھے لیکن حسین ؑکواپنی پشت سے اٹھاناپسندنہیں کرتے تھے۔ آپ نے اپنے بچپنے کے سات سال اپنے کریم ناناکی شفقت ومحبت کے سائے میں گزارے۔

وہ رحمتہ اللعالمین نانا اب آپ کواپنی امت کے رحم وکرم پرچھوڑکرداغ مفارقت دے گئے۔ ابھی ناناکوگئے عرصہ ہی کیاگزرا تھا کہ معصوم روتی آنکھوں سے اس دروازے کونہ صرف آگ لگتے دیکھابلکہ اس دروازے کواپنی ماں زہراؑکے پہلوپہ گرتے اور چھوٹے بھائی محسن کوماں کے پیٹ میں شہیدہوتے بھی دیکھا۔ جس دروازے پرنانارسول ﷺ رک کرآیہ تطہیر پڑھا کرتے تھے، جس پر سردارملائکہ جبرائل ؑاورملک الموت عزرائل ؑبھی اجازت لے کرآتے تھے، اس عظیم اورمقدس گھرپرنہ صرف یلغارکی گئی بلکہ اپنے مولائے کائنات بابا اورسیدۃالنساء العالمین ماں پرظلم ونا انصافی کے بادل برستے ہوئے بھی دیکھے۔

بقول شبنم شکیل ؔ
جس کی خاطر سے بنائی گئی دنیاساری اہل دنیاسے وہی گھر، نہیں دیکھاجاتا

حسین ؑ مولا کو بچپن میں ہی سمجھ آ گئی کہ سقیفہ میں کربلا کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی ہے۔ ابھی یہ غم تازہ تھا کہ سات سال کی عمرمیں 26 اگست 632ء کو سب سے محبوب ہستی اورپناہ گاہ، اماں فاطمہ زہراسلام اللہ علیہاکی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حسین مولاؑ کے کانوں میں اپنی ماں کے وہ الفاظ گونج رہے تھے کہ ثبت علی مصائب لوانہاثبت علی الایام صرنا لیا لیا۔۔۔ (جتنی مصیبتیں مجھ پر آئیں اگریہ روشن دنوں پرآتیں تووہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے)۔

اب نانا بھی نہ تھے کہ امتی ظاہراً لحاظ کرتے اورنہ ماں جیسی شفیق ممتا کہ پریشانی میں 7 سالہ معصوم حسین ؑکودلاسا اورتسلی دیتی۔ اور باباعلی ؑ ؑنے تورسول پاک ﷺ کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے صبراورخاموشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ 632 ء سے لے کر 656 ء تک یعنی 25 سال تک اپنے باباعلی ؑکے ساتھ خانہ نشین ہوکرزمانے کی سنگدلی کاجائزہ لیتے رہے۔ لیکن جب اورجہاں اسلام کوضرورت پڑی، اپنے باباعلی ؑاوربھائی امام حسن ؑکے ساتھ مل کراسلام اورمسلمانوں کی ہرممکن مددکرتے رہے۔

اس گوشہ نشینی اورتنہائی کے دور میں، گھرمیں قرآن کی جمع آوری کامنظربھی دیکھا اورگھرسے باہرچاہنے والوں پرمصائب کی یورش کوبھی دیکھا۔ جواعلان نانارسول ﷺ نے باباعلی ؑکی خلافت کا 16 مارچ 632 ء کومیدان خم میں کیاتھا اسے 25 سال بعد 17 جون 656 ء میں باباعلی ؑکے ہاتھ پربیعت کرنے والوں کے ہجوم کی شکل میں پوراہوتے ہوئے بھی دیکھا۔ آپ ؑکے بابانے ظاہری خلافت کومسلمانوں کی بھلائی اورانصاف قائم کرنے کی خاطر قبول توکر لیالیکن بہت سوں نے اس خلافت راشدہ کوتسلیم نہ کیا۔

مختلف حیلے بہانوں سے برپاہونے اورایک سال تک جاری رہنے والی جنگ جمل کونومبر 656 ء سے نومبر 657 ء تک میدان جنگ میں رہ کرفتح ہوتے دیکھا۔ ابھی جنگ جمل کی دھول نہیں بیٹھی تھی کہ مارچ 657 ء میں آپ ؑکواپنے بھائیوں سمیت ابویزیدحاکم شام کی بغاوت کچلنے کے لئے باباعلی ؑکی کمان میں صفین آناپڑا۔ اس جنگ میں آپ ؑنے اپنے 12 سالہ چھوٹے بھائی عباس علمدارؑکے ساتھ شامی باغیوں سے پانی کے گھاٹ پرقبضہ چھڑاکے سب کے لئے پانی بھرنے کا اعلان کیا۔

110 روزتک جاری رہنے والی اس جنگ میں لشکرشام کوچال بازی اورمکاری سے اپنی جان بچانے کے لئے قرآن مجیدکونیزوں پر اٹھائے اورحکمین مقررکرتے ہوئے دیکھا۔ حکمین کے مہمل، لغواورمکارانہ فیصلے کوجب مستردکیا گیاتوپھرخارجیوں کے 18 ہزارافرادکوراہ راست پر لانے کے لئے مارچ 658 ء میں آپ کوباباعلی کی قیادت میں نہروان بھی جاناپڑا۔ جس میں باباعلی ؑکے سمجھانے پر 6 ہزارخارجی گھروں کولوٹ گئے لیکن 12 ہزارخارجیوں سے جنگ ہوئی اورصرف 9 آدمی زندہ بچے اورمولاؑکی فوج میں سے صرف 9 آدمی شہیدہوئے۔

کچھ عرصہ بعداپنے باباعلی ؑکے سپہ سالارمالک اشترکوزہرملے دودھ دیے جانے اور 27 سالہ محمدابن ابوبکر کی حاکم شام کے سفاکانہ حکم کی بنیادپر گدھے کی کھال میں زندہ جلائے جانے کی اندوہ ناک خبریں بھی سنیں۔ پھر 28 جنوری 661 ء کو نمازصبح کے سجدے میں اپنے باباعلی ؑ کوعبدالرحمن ابن ملجم کی زہرآلودتلوارسے زخمی ہوتیدیکھا اورہاتف غیبی کی یہ اندوہناک ندابھی سنی قدقتل امیر المومنین۔ ۔ ۔ امیرالمومنین قتل کردیے گئے، ارکان ہدایت گرادیے گئے۔

پھر ستمبر 661 ء میں وقت کے امام اور بڑے بھائی امام حسن ؑ کواسلام کی سربلندی اوراپنوں کی بیوفائی کی وجہ سے خلافت سے دستبردارہوتے ہوئے دیکھا اور سب وشتم کی جوقبیح اورمسموم رسم ابویزید حاکم شام نے باباعلی ؑپر ملک شام سے شروع کی تھی، اس مکروہ رسم کو 72 ہزارمنبروں تک پھیلتے ہوئے بھی دیکھا۔ اور ایک دن ایسابھی آیاکہ آپ کو بچپن کے ساتھی اورغمخواربھائی امام حسن ؑکواموی چال سے ان ہی کی بیوی جعدہ کے ہاتھوں 27 مارچ 670 ء کو نہ صرف مسموم دیکھناپڑابلکہ کریم ناناکے ساتھ دفن کرنے کی وصیت کے بدلے میں جسدمبارک سے 70 تیربھی نکالنے پڑے۔ ابویزیدسے دس سال تک توبھائی امام حسن ؑکی امامت میں صلح نامے کاپاس رکھا اوربھائی امام حسن ؑکی شہادت کے بعد مزید دس سال یعنی 28 اپریل 680 ء تک ابویزیدکی موت ہونے پراس عہدپرکاربندرہے۔

لیکن حالات نے یک دم پلٹاکھایا اورامام ؑنے دیکھاکہ 632 ء میں نانارسول ﷺ کی رحلت کے بعدباباعلی ؑسے جوبیعت کامطالبہ کیا گیا تھاوہی مطالبہ آج پھر 680 ء میں ہورہا تھا۔ حسین مولاؑنے طے کر لیاتھا کہ جب میں نے پہلے اپنے بزرگوں کی روش سے علیحدگی اختیارنہیں کی توآج علیحدگی کاکیاسوال پیداہوتاہے۔ مجھے توآج یہ ثابت کرناہے کہ میں امام بھائی کی صلح کے احترام میں خاموش تھاورنہ مجھ حسین ؑمیں ناناکاعزم، داداکاحوصلہ، ہاشم کاخون اورعبدالمطلب کاجوش سلامت ہے۔

صبر زہراؑ کا تقاضا تھا جو اب تک تھا خاموش

ورنہ پہلو میں دل حیدرکرار ؑبھی ہے

حاکم شام کا فاسد بیٹا یزید جب خلافت جیسے مقدس منبر پر متمکن ہوا تو 3 مئی 680 ء کواپنے والد کی وصیت کی روشنی میں مدینہ کے گورنرولیدبن عتبہ کے ذریعہ امام حسین ؑسے بیعت طلب کی۔ امام حسین ؑ نے مروان کے سامنے کہہ دیا ”مثلی لاے بایع مثل یزید“ ( مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا)۔ آپ ؑنے اسی روز اپنے نانا ﷺ اوراماں زہراؑکے مزارات مقدسہ سے مدینہ چھوڑنے کی اجازت طلب کی۔ جوانان بنی ہاشم اورمخدرات عصمت وطہارت کے ہمراہ 4 مئی 680 ء کومدینہ سے مکہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔

435 کلومیڑ کا فاصلہ طے کرکے چھٹے دن یعنی 9 مئی کو مکہ کی پرامن سرزمین پر پہنچے۔ عراق کے شہر کوفہ کی طرف سے ہزاروں کی تعداد میں حسین مولاؑ کو عراق بلانے کے لئے خط موصول ہونے شروع ہوگئے۔ (یاد رہے کہ 20 سال پہلے مولاعلی ؑکی خلافت کا دارالخلافت کوفہ رہا تھا) ۔ آپ ؑ نے حالات کاجائزہ لینے کے لئے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل ؑکو 19 جولائی 680 ء کو کوفہ بھیجا۔ حسین مولاؑکوعراق میں حالات اچھے ہیں کی خبر دی گئی۔ پھرستمبرمیں حج کاموسم آ گیا۔

آپ ؑنے حج کی نیت کی اوردوران حج آپ ؑکومعلوم ہوا کہ 30 یزیدی گماشتے حاجیوں کے لباس میں عمربن سعد کی امارت میں آپ ؑکوقتل کرنے کے ارادے سے مکہ آچکے ہیں۔ آپ ؑ نے حج کے احرام توڑ دیے تاکہ حرمت کعبہ پامال نہ ہو، لاکھوں کے مجمع میں اموی چال کامیاب نہ ہو سکے اور قاتل زیرنقاب نہ چلے جائیں۔ آپ ؑ 9 ستمبر 680 ء کوعراق کی طرف راہی سفر ہوئے۔ آپ ؑکو پانچویں منزل زابلہ پر 10 ستمبر کو مسلم بن عقیل ؑکی شہادت کی خبر ملی کیونکہ کوفہ میں مسلمان تو بہت تھے لیکن مسلم ایک تھا۔

آپ بہت رنجیدہ ہوئے لیکن بحکم خدا اپناسفر جاری رکھا۔ نویں منزل ذوحسم پر یزید کے ایک ہزارفوجیوں نے حربن یزید ریاحی کی قیادت میں آپ ؑ کا راستہ روکا۔ لیکن آپ ؑ چلتے رہے اور 2 اکتوبرکو چودہویں منزل کرب وبلاپہنچے۔ آپ ؑ نے وہیں پرخیمے لگانے کاحکم دیا۔ شامی اورکوفی فوجوں کی آمد شروع ہوئی۔ عمربن سعد آئے، شمربن ذی الجوشن پہنچے۔ 7 اکتوبر کو پانی بند کر دیاگیا اور 9 اکتوبرکوکم سے کم 30 ہزارفوج یزیدوابن زیادنے جنگ کاطبل بجادیا۔

حسین مولاؑنے اپنے اورجانثاران کے لئے عبادت خدا کی خاطر ایک دن کی مہلت لے کر یزیدی فوج کوایک دن مزیدسوچ لینے کی مہلت دی کہ اب بھی جہنم کا ایندھن بننے سے بچ سکتے ہوتوبچ جاؤکیونکہ جوانان جنت کے دو سرداروں میں سے ایک سردارمیں خودہوں۔ لیکن عقل کے اندھوں اورناعاقبت اندیشوں پراس نصیحت کاکوئی اثرنہ ہوا سوائے حربن یزیدریاحی اوراس کے گھروالوں کے جومعافی کے بعد جنت کے حقدارٹھہرے۔ 10 اکتوبر کو مختلف مراحل میں جنگ ہوتی رہی، کچھ اصحابؓ صبح کی نمازکے وقت، کچھ ظہرکی نمازاورباقی اصحاب ؓا وربنوہاشم ؑایک ایک کرکے دادشجاعت دیتے ہوئے اسلام پر قربان ہوتے رہے۔ آخرمیں 6 ماہ کے علی اصغر ؑکوباباکے ہاتھوں پرحرملہ کاتیرسیراب کرگیا۔ خیام میں آخری سلام کرکے آپ ؑ میدان جنگ میں آئے، حملے پہ حملہ کیا۔ تھوڑی دیرمیں زمین کربلامیں بھونچال آیا اورآوازبلندہوئی الاقتل الحسین بکربلا، الاذبح الحسین بکربلا۔ ۔ ۔ حسین ؑکربلامیں قتل ہوگئے، حسین ؑ ؑکربلامیں ذبح ہوگئے۔ ۔ ۔

حسین مولا ؑ 626 ء سے 680 ء تک اپنے کریم اورشفیق نانا کی حدیث حسین منی (حسین ؑمجھ سے ہے ) کاعملی نمونہ بن کر رہے اور 680 ء کے بعد وانامن الحسین (اورمیں حسین ؑسے ہوں) کی عملی تفسیر بن گئے۔ امام وقت نے اسلام اور انسانیت کو اپنے، نوجوانان بنوہاشم اوراصحاب باوفا کے مقدس خون سے ایسا آب حیات پلا دیا کہ ہر باشعوراورغیرت مرد مسلمان اور انسان تاقیامت امام حسین ؑکا ممنون اور مقروض ہو گیا اور کائنات کے مظلوم، کمزور اور مستضعف انسان کو حریت اورآزادی کا ایسا انقلابی درس دے گئے کہ وہ اپنی ناتوانی اورکمزوری کوایک طرف رکھ کروقت کے یزید، ابن زیاد، شمر اور مروان سے بے خوف و خطرٹکرا رہے ہیں اور ٹکراتے رہیں گے۔