جعفریہ پریس – شیعہ علماء کونسل گلگت کے صدر علامہ میرزا علی نگری زیارتی دورہ کیلئے قم المقدسہ پہنچ گئے ۔ جہاں علامہ میرزا علی نگری نے دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان شعبہ قم القدسہ کے مسؤل اور قائد ملت جعفریہ پاکستان کے نمائندہ محترم جناب علامہ مظہر حسینی صاحب کی دعوت پر ، دفتر قائد کا دورہ کرتے ہوئے اراکین سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں دفتر قائد ملت جعفریہ پاکستان کی مجلس نظارت کے اراکین سمیت ، مجلس عاملہ اور کابینہ کے اراکین نے بھی شرکت کی ۔ ملاقات کی ابتدا میں مولانا مسرت اقبال زیدی نے علامہ میرزا علی نگری کو خوش آمدید کہتے ہوئے دفتر قائد کی دعوت قبول کرنے کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد دفتر کی کارکردگی پر روشنی ڈالی ۔ اس کے بعد علامہ مظہر حسینی نے گفتگو کرتے ہوئے علامہ میرزا علی نگری کی کاوشوں کا سراہا اور کہا کہ پاکستان میں کام کرنا جہاں سکیورٹی مسائل ہیں قوم کی خدمت کرنا اور قومی قیادت سے اس طرح مخلص رہنا جہاد فی سبیل اللہ سے کم نہیں ۔
اس کے بعد علامہ میرزا علی نگری نے خطاب کیا ۔ صدر شیعہ علماء کونسل گلگت نے اپنے خطاب کی ابتداء میں دفتر قائد ملت کے تمام اراکین کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد قومی دھارے اور قومی پلیٹ فارم کی خدمات کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو خواب قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے دیکھا تھا اس خواب کو قائد محبوب حضرت علامہ سید ساجد علی نقوی نے پورا کرتے ہوئے اسے عملی جامہ پہنایا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی پلیٹ فارم نے ہر دور میں شیعہ قوم کے حقوق کا تحفظ کیا، چاہے قائد مرحوم سید محمد دہلوی کا زمانہ ہو یا قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین کا زمانہ یا پہر قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کا دور ہو یا آج قائد محبوب علامہ سید ساجد علی نقوی کا دور ہو ۔ ہر دور میں ہم نے شیعہ قومی کے مفادات کو مد نظر رکھا ۔ اسی بنیاد پر قومی پلیٹ فارم نے قائد محبوب کی مدبرانہ قیادت میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی جیسے کہ قائد شہید کا سیاست میں آنے کا خواب بھی قائد محبوب نے بہترین نمونہ سے عملی جامہ پہنا کر عظیم کامیابیاں حاصل کی ۔ ہم نے گلگت بلتستان میں دو مرتبہ حکومت بناچکے ہیں اور اس دور میں ہماری حکومت کے خدمات کے آثار آج تک بھی دیکھے جاسکتے ہیں ۔ لیکن مع الاسف ملت تشیع کی کامیابیاں استعماری قوتوں کیلئے ناگوار لگی اور استعماری ایجنٹ حرکت میں آئے اور کیونکہ اس کامیابیوں کا اصل وجہ قائد محبوب کی مدبرانہ قیادت تھی تو اسی کو نشانہ بنایا اور قومی قیادت کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی اور ایک طوفان بد تمیزی برپا کر کے پی در پی حملے کئے مگر ہمارے مدبر قائد، میر کاروان ، مغز متفکر نے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام مصائب پر صبر کیا اور صبر سے ہی اس طوفان کامقابلہ کیا اور الحمدللہ کامیاب بھی ہوئے ۔
علامہ میرزا علی نگری نے گلگت بلتستان میں آنیوالے 2014 میں قانون ساز اسمبلی کے الیکشن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو 10سال سے اپنے حقوق سے دور رکھا گیا اور ان شاء اللہ اس مرتبہ اپنے حقوق حاصل کر کے اپنے اعزاز کو دوبارہ اپنائیں گے ۔ اس حوالے سے کچھ لوگوں کی طرف یہ آواز اٹھائی جا رہی ہے کہ اس الیکشن میں شیعہ علماء کونسل اور دیگر تنظیم ساتھ ملکر الیکشن میں آئیں ، اس کی جواب میں ہم نے کہا ہے کہ اتحاد کے حوالے سے تو قائد محترم بانی اتحاد ہیں لیکن اتحاد کیلئے بھی اصول ہوتے ہیں ہم نے کہا کہ اتحاد میں سب سے پہلے دونوں تنظیموں کا دستوراور مقصد واضح ہونا چاہئے، قومی پلیٹ فارم کا دستور اور اہداف تو سب کے سامنے ہے ہم نے ہر دور میں شیعہ قوم کے حقوق کا دفاع کیا مگر افسوس کے ساتھ دوسری تنظیم کا ابھی تک موقف اور ہدف واضح سامنے نہیں آیا اور مع الاسف ان کے اقدامات کا الٹا ہی اثر سامنے آرہا ہے جیسے کہ گلگت میں طرح طرح کے لوگوں کو بلا کر اجتماع تو کیا مگر اس کے غلط آثار آج تک سامنے آرہے ہیں جس کا ایک مثال ہے کہ پہلی مرتبہ تکفیری گروہ کو موقع ملا اور اس شرپسند ٹولے کا سرغنہ بھی آیا اور علاقے کی امن اور امان کی دھجیاں اڑائی گئے اور علاقے میں کشیدگی پیدا ہوئی ،دوسری تنظیم تو اپنا اجتماع کرکے وہاں سے چلے گئے مگر اس کے غلط نتائج کا سامنا ہمیں ہی کرنا پڑ رہا ہے ۔
شیعہ علماء کونسل گلگت کے صدر نے قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیت اللہ علامہ سید ساجد علی نقوی کا گلگت میں دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ تاریخی اور بے مثال دورہ تھا ۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ قومی قیادت کے استقبال کیلئے صرف تنظیمی حضرات اور جے ایس او کے جوان ہی صرف آئیں گے لیکن جب گلگت سے استقبال کیلئے قافلہ نکلا تو سب بد خواہان دیکھتے ہی رہ گئے اور تمام تجزیہ نگار یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ گلگت کی تاریخ میں آج تک اس طرح کا استقبالیہ نہیں نکالا گیا ۔ ہم مومنین کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے قومی قیادت اس اس طرح والہانہ استقبال کر کے تاریخ میں ہمیں سرخ رو کیا ۔اس دورہ کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ پہلی مرتبہ قومی قیادت نے استور کا دورہ کیا ۔ استور کے دورہ کو روکنے کیلئے بد خواہوں نے بہت کام کیا اور یہاں تک کہ ہوم سیکریٹری نے مجھے لیٹر بھیجا کہ قائد محبوب استور کے دورے پر نہ جائیں کیونکہ اس دورہ پر انتظامیہ کسی قسم کی سپورٹ نہیں کر گی اور کسی بھی نا خوشگوار واقعے کا ذمہ دار خود شیعہ علماء کونسل ہوگی ۔ اس حوالے سے ہم نے مختلف میٹینگز کی اور استور میں مولانا عاشق حسین حسینی سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر قائد محترم نے استور کا دورہ نہ کیا تو علاقے کے مومنین مایوسی کا شکار ہوجائیں گے ۔ اس کے بعد ہم نے یہ تمام تر صورتحال قائد محبوب کے سامنے رکھی تو قائد محترم نے کہا کہ ہم ہر صورت میں استور جائیں گے ۔ اس کے بعد قائد محبوب نے ایک عظیم الشان قافلے کی ہمراہ استور کا دورہ کیا اور وہاں کے مومنین نے اپنے محبوب قائد کا تاریخی استقبال کیا اور نہ صرف شیعہ بلکہ اہلسنت برادران بھی استقبال میں آئے اور علاقے میں ایک اہلسنت رہنما نے اپنے خطاب میں کہا کہ علامہ سید ساجد علی نقوی صرف ملت تشیع کے قائد نہیں بلکہ ہمارے بھی قائد ہیں ، اگر ہمیں بھی اطلاع دی جاتی تو اپنے محبوب قائد کے استقبال کیلئے استور کے اہلسنت کا بچہ بچہ بھی استقبال کیلئے آتا ۔
اس عظیم الشان دورے کے بعد ہمیں بہت حوصلہ ملا ۔ اس دورے کے بعد اس دورے کے آثار اور نتائج کو مٹانے کیلئے بہت کام ہوا اور بہت بڑی رقم صرف کی مگر بد خواہوں کیلئے صرف رسوائی ہی مقدر تھی۔
علامہ میرزا علی نگری نے مختلف خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مومنین اسراء کیلئے قومی پلیٹ فارم نے پورا سرمایہ خرچ کیا اور ان تمام اسراء کو رہا کروایا ۔ سانحہ چلاس کے بعد انتظامیہ نے یکطرفہ کاروائی کرتے ہوئے ہمارے خلاف مختلف اقدامات کئے اورمومنین کے خلاف سنگین کیس بنایا جس پر ہم نے کئی میٹنگز بلائی اور اس صورتحال کے حل کیلئے ایک کمیٹی قائم کی اور ان خناسوں کا مقابلہ کیا اور اس کیس کی مکمل پیروی بھی ہم نے کی یہاں تک کہ وکلاء فیس و۔۔۔ بھی ہم نے ادا کیا مگر کیونکہ یہ سب باتیں میڈیا میں نہیں آتی توقوم کو گمراہ کرنے کیلئے کچھ بدخواہوں کو موقع مل جاتا ہے لیکن ہمارے سامنے میڈیا میں آنے سے پہلے ملت تشیع کے حقوق کا تحفظ اہمیت رکھتا ہے اس لئے ہم نے میڈیا پر زیادہ توجہ نہیں دی مگر اب ضروری ہو رہا ہے کہ اس حوالے سے بھی کوئی مناسب قدم اٹھائیں ۔اس ملاقات کے آخر میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی تھا ۔