• گلگت و بلتستان کی عوام اس وقت شدیدمعاشی مشکلات سے دوچارہے
  • حکومـــت بجــٹ میں عوامی مسائــل پر توجہ دے علامہ شبیر حسن میثمی
  • جی 20 کانفرنس منعقد کرنے سے کشمیر کےمظلوم عوام کی آواز کو دبایانہیں جا سکتا
  • پاراچنار میں اساتذہ کی شہادت افسوسناک ہے ادارے حقائق منظر عام پر لائیں شیعہ علماء کونسل پاکستان
  • رکن اسمبلی اسلامی تحریک پاکستان ایوب وزیری کی چین میں منعقدہ سیمینار میں شرکت
  • مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان کا ملتان و ڈیرہ غازی خان کا دورہ
  • گلگت بلتستان کے طلباء کے لیے عید ملن پارٹی کا اہتمام
  • فیصل آباد علامہ شبیر حسن میثمی کا فیصل آباد کا دورہ
  • شہدائے جے ایس او کی قربانی اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرکزی صدر جے ایس او پاکستان
  • علامہ شبیر حسن میثمی سے عیسائی پیشوا کی ملاقات

تازه خبریں

سُپرمَین اِن اِسلام -امامِ صادق علیہ السلام پروفیسر مظہر حسین ہاشمی

آدم علیہ السلام سے لیکر احمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اِنسانی ہدایت کامنظم اورمربوُ ط نظام جاری رہا۔پھر اللہ تعالی نے دینِ ِ حقیقی کے ضوابط کے تحفظ اوراُس کے قوانین کے نفاذکیلئے بارہ ہادی ؑ مقررفرمائے اوراُنہیں آئینِ انسانیت قرآنِ مجیدکاوارث ومحافظ قراردیا۔ ہدایت کے اِن بارہ کامل ہادیوں میں سے گیارہ نے اپنے فرائض منصبی عمدہ اوراحسن طریقے سے اداکئے اوربارہویں ہادی ؑ کے قیام کی زمین کوہموارکیاتاکہ اظہارِدین کی عملی تعبیر ظاہر ہوجائے۔قدرت کے یہ شاہکار ہدایت کے ایسے آبدارآئینے ہیں جودیکھنے میں چھوٹے بڑے نظرآتے ہیں لیکن ہرایک میں دینِ خدااسلام کی تصویر مکمل اوربھرپور نظرآتی ہے۔کائنات کے شیش محل میں سجے ہوئے چھٹے آئینے کی چکاچوند چمک اوردِل کشی نے دُنیاکوخصوصی طورپر اپنی طرف متوجہ کیا۔امام صادق ؑ کی ولادت باسعادت اُس سیاسی دورمیں ہوئی جب حق ودیانت کے چراغ گلُ کئے جارہے تھے اورجزیرہ نماء عرب میں طوائف الملوکی کادوردورہ تھا۔جگہ جگہ فتنہ انگیزی ، عناد و فساد اور بے چینی وبدامنی پھیلی ہوئی تھی۔لوگ علم ،حق اورصداقت کی تلاش کی بجائے جاہ ومنصب ،سِیم وزراورتاج وتخت کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ہر طرف مفادپرستی کاسِکّہ چل رہاتھااورملوکیت اوراِقتدارکی قربان گاہ پردیانت وامانت کوقربان کیاجارہاتھا۔ایسے عہدِ ظلمت میں نورِامامت کاچھٹاماہتاب اپنی آب وتاب سے چمکا۔آپ ؑ نے ساری زندگی اِنسانی فلاح واِصلاح کیلئے وقف کردی۔آپ ؑ کی سیرت اسلامی کردارکی کامل اوربے نظیر تصویرہے۔آپ ؑ نے اپنے خطبات،مقالات،افعال ،اعمال اورکرداروگفتارسے اِسلام کی اُس مقدس روح کواجاگرکردیا جوپیغمبرِ اکرم ؐ کی حیاتِ طیبہ کاسب سے بڑامقصدتھا۔اپنے اِس طرزِمخصوص کے سبب آپ ؑ اِنسانی شعورواِدراک میں ایک عظیم ترین تعمیری انقلاب کاسبب بن گئے۔
آپ ؑ نے فکرِ انسانی کارُخ حقیقت پسندی اورتلاشِ حق کی جانب موڑدیا۔علمی تحقیقات کیلئے جدید راہیں پیداکردیں ۔آپ تبحرعلمی،پاکیزہ اسلامی کردار،عبادت وتقویٰ ، صبر واِستقلال اورحسنِ اخلاقِ انسانیت کیلئے میناربن گئے۔اِن نظیروں نے انسانی طرزِفکراوربشری تخیل کیلئے ایک خوشگوارماحول پیداکردیااور لوگ ستاروں پرکمندیں ڈالنے میں مشغول ہوگئے اورعلم دوستی بڑھ گئی۔
جب آپ ؑ کی اپریل 702ء مدینہ منورہ میں ولادتِ باسعادت ہوئی اُس وقت مروان کابیٹاعبدالملک بادشاہِ وقت تھا۔اِس کے بعدولیدبن عبدالملک،سلمان،عمربن عبدالعزیز،یزیدبن عبدالملک،ہشام بن عبدالملک،ولیدبن یزیدبن عبدالملک، یزیدالناقص، ابراہیم ابن ولیداورمروان الحماربادشاہ بنے۔جب اُموی بادشاہ ولیدبن عبدالملک نے آپ ؑ کے داداامام سجادعلیہ السلام کو اکتوبر 713ء کوزہردیکر شہیدکرایاتوآپ ؑ اُس وقت11سال کے تھے۔پھرجب اُموی بادشاہ ہشام بن عبدالملک نے آپ ؑ کے والدِ بزرگوارامام محمدباقرعلیہ السلام کوجنوری 733ء میں زہردے کرشہید کرایاتواُس وقت آپ ؑ کی عمر31سال تھی۔749ء میں اُموی دورختم ہوگیا۔پھر بنوعباس کادَورشروع ہوا۔آپ ؑ کی زندگی میں یہ محدوداورمختصرزمانہ جس میں اُموی حکومت کاچراغ شمع ءِ سحری کی طرح ٹمٹمارہاتھا اور عباسی حکومت کازمانہ شروع ہوچلاتھا۔یہ سنہری وقت ثابت ہواجس میں اِس عظیم مصلح اوراِسلام کے جلیل القدرفرزند کواِس بات کازیادہ موقع مل سکاکہ آپ ؑ نے اسلامی علوم اورمعارفِ دین کی ترویج و اشاعت کااہم کام سرانجام دیا۔ اِن اُموی بادشاہوں کے بعدبنوعباس سے پہلابادشاہ ابوالعباس سفاح اوردوسرا بادشاہ منصور دوانقی بنا۔عباسیوں میں سفاح بادشاہ سادات کاسب سے بڑا دشمن تھا۔اِس نے اولادعلی وبتول علیہماالسلام پر ظلم وستم کے پہاڑتوڑدئیے۔اِس نے اپنے دوسرے سالِ حکومت میں آپ ؑ کو4دسمبر765ء میں زہر دیکر شہید کر دیا۔ جب آپ ؑ شہید ہوئے تو اُس وقت آپ کے فرزند امام موسی کاظم ؑ کی عمر20سال تھی۔
آپ ؑ کی سیرتِ پاک کے دورُخ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جنہیں زمانے کے ہردَورمیں بھرپورتوجہ کی ضرورت ہے۔ایک آپ ؑ کی سماجی طرزِ بودوپاش جس میں اسلامی زندگی کی اکملیت اوراِنسانیت اپنے معراج پرفائز نظردکھائی دیتی ہے اوردوسر ا آپ ؑ کی علمی کاوشیں۔مسجدِ نبوی اورمدینہ میں آپ ؑ کاگھرحقیقی معنوں میں مدینۃ العلم بن گئے تھے جووقت کے عالی شان علمی تحقیقاتی مرکزکی حیثیت رکھتے تھے۔آپ ؑ کامدرسہ اپنے وقت کی بڑی یونیورسٹی کادرجہ رکھتاتھاجس کاحلقہ ءِ تعلیم وتدریس اورتحقیق خاصاوسیع تھا۔اِس میں بیک وقت کم سے کم 4ہزارکے قریب مختلف علاقوں کے دانش جوُ علمی پیاس بجھایا کرتے تھے۔آپ نے ؑ علمِ دین،علمِ کیمیا،علمِ رِجز،علمِ فال،علمِ فلسفہ،علمِ فزکس،علمِ الاعداد،علمِ منطق،علمِ طب،علمِ سمعیات وغیرہ پر خامہ فرسائی فرمائی اورلیکچرزدئیے۔

اِس عظیم الشّان اوراسلامی ریسرچ سنٹراورمسلم دانش گاہ سے بہت بڑے علماء، جیدفقہاء اورعظیم مفکرپیداہوئے۔ آپؑ کے ایک ہزارتین سونامورشاگردوں نے پانچ ہزارکے قریب تصانیف لکھیں۔لیکن آپ ؑ کے شاگردوں میں امام الکیمیاجابربن حیان کوفی (722-813ء) بھی تھے جوعالمی شہرت کے حامل سائنسدان ہیں۔آپ ؑ نے ایک ایسی مفصل کتاب لکھی جس میں امام جعفرصادق ؑ ؑ کے پانچ سورسالوں کوجمع کیاگیا۔پروفیسر ہیٹی جیساشخص آپ ؑ کوایشیااوریورپ میں\” فادرآف کیمسٹری \”کہہ کرپکارتاہے۔لیکن آپ فزکس ،طب، جغرافیہ،کیمسٹری،علم فلکیات،علم ریاضی اورانجینئرنگ میں بھی کمال رکھتے تھے۔آپ کی بہت ساری کتابوں کے علاوہ مختلف موضوعات پر 3ہزارآرٹیکل بھی موجودہیں۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے مذہبِ شیعہ کودوطریقوں سے مضبوط بنایا۔ایک توآپ ؑ نے علوم کی تدریس کے ذریعہ اہلِ تشیع کودانش مند بنایاجس کے سبب شیعہ ثقافت وجودمیں آئی۔شیعہ ثقافت کے وجودمیں آنے سے شیعہ مذہب کوبڑی تقویت ملی۔آپ ؑ اچھی طرح جانتے تھے کہ شیعہ مذہب کوباقی رکھنے کابس یہی ایک طریقہ ہے کہ اِس کیلئے ایک ثقافت تشکیل دی جائے۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ آپ ؑ نہ صرف علمی لحاظ سے فہم وفراست کے مالک تھے بلکہ آپ ؑ کوسیاسی تدبربھی حاصل تھااورآپ ؑ جانتے تھے کہ مذہبِ شیعہ کی تقویت کیلئے ثقافت کی تشکیل طاقتورفوج تشکیل دینے سے زیادہ بہترہے۔کیونکہ ایک طاقتورفوج ممکن ہے اپنے سے زیادہ طاقتورفوج کے ہاتھوں مغلوب ہوجائے مگر ایک مضبوط،محکم اوروسیع ثقافت ہرگزتباہی کاشکارنہیں ہوسکتی۔ آپ ؑ نے نہ صرف یہ کہِ اس کی بنیاداُستوارکی بلکہ اِس کی شیرازہ بندی بھی آپ ؑ ہی کے ہاتھوں انجام پائی ۔
مذہبی مسائل پر بحث کی آزادی کاآغازاُس وقت ہواجب آپ ؑ نے شیعی ثقافت کی بنیادڈالی ۔اِس مکتب فکرمیں مذہبی مباحث، علمی مباحث شامل ہونے لگے اوراِس کے بعد اِس کاجزوبن گئے۔شیعہ مذہب کی اِس جدت کوبعدمیں دوسرے مذاہب نے بھی اپنایا اور اُنہوں نے بھی اپنے مذاہب کی حقانیت کوعلمی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔آپ کی درسگاہ وہ پہلامذہبی مکتب تھا جس میں فلسفہ کے ساتھ ساتھ فزکس،کیمسٹری،ہندسہ،طب اورمیکانکی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اورخاص بات یہ کہ آپ ؑ خوداِن تمام مضامین کی تعلیم دیتے تھے۔آپ اُن شاذونادر شخصیات میں سے تھے جنہیں علم وادب دونوں سے شغف تھا۔آپ ؑ جس مقام پر درس دینے کیلئے تشریف فرما ہوتے تھے ،وہیںآپ ؑ کے بالائے سریہ شعر لکھاہواہوتاتھا۔
لَیسَ الےَتِیمُ قَدمَاتَ وَالِدُہُ اِن الےَتِیمَ ےَتِیمُ العِلمِ وَالاَدبِ
یعنی یتیم وہ نہیں جس کاباپ مرگیاہوبلکہ یتیم وہ ہے جوعلم وادب سے بے بہرہ ہو۔
پہلی صدی ہجری میں عربوں کے پاس نثرمیں ادبی آثاربہت ہی کم تھے۔آپ ؑ دوسری صدی کے نیمہ اوّل میں نثری ادب کی جانب مائل ہوئے بلکہ یوں کہناچاہیے کہ عربی زبان کانثری زبان سے رِشتہ اُستوارکرنے والی ہستی آپ ؑ ہی کی ذاتِ گرامی ہے۔آپ ؑ نے1270برس پہلے فرمایاکہ بعض روشنیاں ایسی ہیں کہ اگرایک بیمارسے تندرست انسان تک پہنچیں تواُسے بھی بیمارکرسکتی ہیں۔جدید طبی تحقیقات نے اِس بات کوبھی حقیقت ثابت کردیااوراِس حقیقت کااعتراف روس کے شہرنوواسے برسک کے تحقیقاتی مرکز میں کیاگیاکہ بیمارخلیوں سے شعاعیں خارج ہوتی ہیں اوراُن میں کچھ شعاعیں جب تندرست خلیوں پراپنااثرڈالتی ہیں تواُنہیں بھی بیمار کر دیتی ہیں۔آپ ؑ کافرمان کہ دَردمیں مبتلاہونے کے بعدہی اِنسان کواپنی حقیقت کااندازہ ہوتاہے۔پروفیسر میکلاہن آف کینیڈایونیورسٹی ، نے اِس اصول کوعلم نفسیات کاایک اصول قراردیااورکہاکہ صرف دَردہی کاموقع ایساہوتاہے جس میں جب ہم اپنی ذات کوفراموش نہیں کرسکتے اور جب ہمارے جسم میں کہیں درد،جسمانی یاروحانی تکلیف عارض نہیں ہوتی تواُس وقت ممکن ہے کہ ہم خودکوبھول جائیں۔آپ کاارشاد کہ جوجسم جامداورجاذب حرارت ہوتاہے وہ غیرشفاف اورکثیف ہوتاہے اورجوجسم جامداوردافع ہوتاہے وہ کم وبیش شفاف نظرآتاہے۔موجودہ فزکس کے قوانین کے مطابق اجسام (لوہاوغیرہ)کے کثیف اورتاریک ہونے کاسبب یہ ہے کہ الیکٹرومیگنیٹک لہریں اِس میں جذب ہوجاتی ہیں اِس لئے وہ جاذب اورراستے دینے والے ہوتے ہیں لیکن جن اجسام میں حرارت جذب نہیں ہوتی اوروہ الیکٹرانک میگنیٹک لہروں کے گزرنے میں حائل اورمانع ہوتے ہیں ،وہ اجسام کم وبیش شفاف ہوتے ہیں۔امام جعفر صادق ؑ کا تخلیقِ کائنات کے بارے میں ارشاد کہُ دنیا ایک جرثومے سے پیداہوئی اوروہ جرثومہ دومتضادقطبوں کاحامل ہے جس سے ذرے کی پیدائش ہوئی اورمادہ وجودمیں آیااوراِس میں تنوع پیداہوااورمادے کاتنوع اُس کے ذرات کی کمی یازیادتی کی وجہ سے پیداہوتاہے۔تخلیقِ کائنات کی یہ تھیوری آج کی جدید ایٹمی تھیوری سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔دومتضادقطب دراصل ایٹم کے دومثبت اورمنفی چارجزہیں اوریہی دوچارجزایٹم کووجودمیں لانے کیلئے باعث بنے پھر ایٹم سے مادہ وجودمیں آیا۔عناصرکے درمیان پایا جانے والا فرق اِن چیزوں کی کمی بیشی کانتیجہ ہے جواِن کے جوہروں میں موجودہے۔
آپ ؑ نے12 صدیاں قبل یہ معلوم کرلیاتھاکہ زمین اپنے گردگھومتی ہے اوریکے بعددیگرے شب وروزکی آمدورفت کاسبب زمین کے گردآفتاب کی گردش نہیں بلکہ اپنے گردزمین کی گردش ہے جس سے رات اوردن وجودمیں آتے ہیں اورہمیشہ نصف زمین تاریک اوررات کی حالت میں اوردوسرانصف حصہ روشن اوردن کے عالم میں رہتاہے لیکن سارے دانش مندحضرات شب وروزکوزمین کے چاروں طرف سورج کی گردش کانتیجہ سمجھتے تھے۔علمی مراکز میں کئی صدیوں تک یہ معلوم نہ ہوسکاکہ زمین اپنے گردگھومتی ہے اوراُسی کے نتیجے میں روزو شب کاظہورہوتا ہے۔ہندوستان کے بحری راستے کاپتہ لگانے والے پرتگالی \’واسکوڈے گاما\’،امریکہ کودریافت کرنے والے \’کرسٹوفرکولمبس \’اورزمین کے گردچکرلگانے والے پہلے سیاح \’ماجلان \’یہ جاننے کے باوجودکہ زمین گول ہے، اِس حقیقت سے بے خبر رہے کہ زمین اپنے گردگھومتی ہے۔لیکن اٹلی کے\’ گلیلیو\’ بھی معلوم نہیں اِس حقیقت سے واقف تھے کہ یانہیں لیکن اُس نے کبھی بھی اظہارنہیں کیابلکہ\” زمین سورج کے گردگھومتی ہے\” کے بیان پراُسے محکمہ تفتیشِ عقیدہ سے معافی مانگنا پڑی۔دُنیاکے تمام دانشمندحضرات اِس بات کوتسلیم کرنے سے انکارکرتے رہے ۔اِس حقیقت کااُس وقت پتہ چلاجب سائنسدانوں نے چاندکواپناٹھکانہ بنایااوروہاں سے تصویر بردار دُوربین کے ذریعے زمین کامعائنہ کیاتونظرآیاکہ یہ آہستہ آہستہ اپنے گردگھوم رہی ہے۔آج ہم جانتے ہیں کہ نظامِ شمسی کاکوئی ایساسیارہ نہیں جواپنے گردنہ گھومتا ہو اور اِن تمام سیاروں کی اپنے گردحرکت نظام شمسی کے میکانکی قوانین کی پابندہے۔سورج بھی جونظام شمسی کامرکز اورناظم ہے،اپنے گردبھی گھومتاہے۔
اِس عظیم ترین ہستی پرکچھ عرصہ پہلے\”اِسلامک سٹڈیز سنٹرسٹراسبرگ فرانس\” کے مطالعاتی مرکزنے ریسرچ کی ۔یہ وہ مرکزہے جونہ صرف اسلامی مسائل اورشخصیات پرتحقیق کرتاہے بلکہ دُنیاکے دیگر مذاہب پربھی ریسرچ کرتاہے ۔دُنیاکے اِن نامور 25 پروفیسرزاورسکالرز نے امام صادق ؑ کی شخصیت کو\”سپر مین اِن اِسلام \”کاخطاب دیاہے اوراپنی کتاب کانام بھی اِسی عنوان پردیاہے ۔اِس تحقیقی سنٹرمیں صرف تین سکالرزمسلمان ہیں باقی سب دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔اِن25 سکالرز میں ایران اورلبنان کے ایک ایک ،امریکہ، برطانیہ ،اٹلی اوربلجیم کے دودو،جرمنی کے4 اور فرانس کے 11 سکالرزشامل ہیں۔اِس کتاب کے مولفین نے جتنی زیادہ علمی تحقیق اور کاوش کی ہے یہ بھی آپ علیہ السلام کے اِنسانی،علمی اورعملی مرتبے وفضیلت سے بہت کم ہے ،ابھی مزید ریسرچ اورتحقیق کی ضرورت ہے۔